اردن کی بادشاہت بھی خلیفہ بغدادی سے خطرہ محسوس کر رہی ہے اور سامراجی طاقتوں سے مدد طلب کرنے کے علاوہ اپنے ملک میں اس خلیفہ کے مخالف بنیاد پرست تیار کئے جارہے ہیں۔ اردن خطے میں امریکہ کا پرانا ''اتحادی‘‘ ہے۔اردن کو امریکہ سے ہر سال 300ملین ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے۔22جون کو ISنے عراقی شہر الرطبہ پر بھی قبضہ کیا ہے جو اردن کی سرحد سے صرف 90میل کے فاصلے پر ہے۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کی سرحدی گزر گاہ طریبیل بھی ISکے قبضے میں ہے۔اس واقعے کے بعد اردن نے فضائیہ کو الرٹ کرتے ہوئے ٹینک اور اہم فوجی دستے سرحد پر تعینات کر دیے ہیں۔ 2011ء میں اردن میں بھی بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد بادشاہ نے کئی وزیر اعظم تبدیل کئے ہیں۔ اب بیرونی خطرے کی آڑ میں ایک طرف دفاعی اخراجات بڑھائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی اور دیگر انقلابی قوتوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔معاشی طور پر پسماندہ حصوں الرصیفہ، زرقا اور مان میں بنیاد پرست عناصر بھی شام کی خانہ جنگی کے لیے بڑی رقوم دے کر بھرتیاں کر رہے ہیں۔
مصر، تیونس اور یمن میں قطر کی جانب سے اخوان المسلمون کی حمایت کے بعد سے سعودی قطر تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں۔ شام اور عراق میں مختلف بنیاد پرست گروہوں (جن میں کبھی ISILبھی شامل تھی) کی پشت پناہی کے باوجود قطر کے حکمران ابھی تک کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ مصر میں جنرل السیسی اخوان المسلمون سمیت قطر کی حمایت یافتہ تمام قوتوں پر حملے کر رہا ہے۔ قطرکے ٹی وی چینل الجزیرہ کے بہت سے صحافی بھی مصر کی جیلوں میں قید ہیں۔قطرامریکی آشیر باد سے شام سمیت خطے کے تمام ممالک میں مداخلت کر رہا ہے جس سے یہ پراکسی جنگیں زیادہ پیچیدہ ہوتی جارہی ہیں۔
عراق میں ISکے قیام کے بعد مصری حکومت بھی دہشت گردی کے خطرے کو انقلابی تحریک کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔نہر سویز کے ساتھ واقع سینا میں دہشت گرد گروہوں اور ISکی موجودگی کو اخبارات میں زور و شور سے پیش کیا جا رہا ہے۔ 22جون کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مصر کے دورے کے دوران بھی اس موضوع پر گفتگو کی گئی ۔ اس دورے کے دوران امریکہ کی جانب سے مصر کو دی جانے والی 1.3ارب ڈالر کی سالانہ امداد بحال کرنے کا بھی اعلان کیا گیا جس کی 575ملین ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی گئی ہے۔ مصر کے نام نہاد بائیں بازو سمیت بہت سے لوگوں کے السیسی کی ترقی پسندی کے متعلق ابہام دور ہوتے جا رہے ہیں اور وہ وحشیانہ انداز میں سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں لاگو کر رہا ہے۔ حالیہ اعلان کردہ بجٹ میں سبسڈی کے خاتمے کے بعد تیل ،بجلی اور گیس سمیت تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ المونیٹر کے مطابق مہنگی گاڑیوں کے لیے استعمال ہونے والے تیل کی قیمت میں 7فیصد، عام گاڑیوں کے تیل میں 41فیصد جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور بسوںکے لیے استعمال ہونے والے تیل کی قیمت میں 78فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔قدرتی گیس کی قیمت میں 175فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 2011ء اور 2013ء کے عظیم الشان انقلابات کے بعد محنت کشوں کے معیار زندگی پر یہ حملے انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ناگزیر ضرورت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کی داخلی صورتحال اور خطے کے حالات کو دیکھتے ہوئے مصرمیں مستحکم حکومت کا قیام مشکل نظر آتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے موجودہ تنازعے کو اس ساری صورتحال سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔اسرائیل اگر کھل کر خلیفہ بغدادی کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے تو اس سے ناگزیر طور پر عوام کی پسماندہ پرتوں میں ISکی مقبولیت بڑھے گی۔امریکہ بھی اسی تضاد کا شکار ہے ۔جنگ سے متاثرہ علاقوں میں برطانوی تنظیم ORB کے سروے کے مطابق فی الحال صرف 4فیصد لوگ خلیفہ کو اپنے مفادا ت کا ترجمان سمجھتے ہیں۔خلیفہ کے سب سے بڑے گڑھ شام کے علاقے الرقعہ میں اس کی مقبولیت صرف24 فیصد ہے۔خلیفہ بغدادی خود بھی اسرائیل سے ٹکر لینا نہیں چاہتا۔ اس نے اسرائیل کے خلاف لڑنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہماری پہلی لڑائی ہمارے اندرونی دشمنوں سے ہے اور اس کے لیے تاریخی اور مذہبی حوالے بھی دئیے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ عراق میں خانہ جنگی کی یہ نئی لہر کیا ISکی مکمل فتح پر منتج ہو سکتی ہے؟ عراق کے ایک بہت بڑے حصے پر قائم ہونے والی یہ رجعتی ریاست اپنے آپ کو کتنا عرصہ برقرار رکھ سکے گی؟ جواب جو بھی ہو لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنیاد پرستی کا زہر اب اس نظام کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے اور عوا م کو مسلسل تاراج کرتا رہے گا۔ سامراج نے بنیاد پرستی کو پروان چڑھا کر ماضی میں بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ مختلف سامراجی قوتوں کے آپسی تضادات پراکسی جنگوں کی شکل میں اپنا اظہار کرتے رہیں گے اور دوسرے کئی ممالک ''عراق‘‘ بنتے رہیں گے۔ سرمائے کے اس خونی کھلواڑ کا خاتمہ صرف محنت کش عوام ہی طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر کرسکتے ہیں۔
عراقی محنت کش اور نوجوان سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف بغاوت کی عظیم روایات کے امین ہیں۔ یکم مئی 1959ء کو دس لاکھ لوگوں نے بغداد میں عراقی کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے مظاہرہ کیاتھا۔ اس وقت امریکی سی آئی اے کے سربراہ ایلن ڈلس نے کہا کہ یہ صورتحال ''آج کی دنیا میں سب سے خطرناک ہے‘‘۔ اس وقت عراقی کمیونسٹ پارٹی کے 25ہزار باقاعدہ ممبر تھے اور مغربی اخبارات کے مطابق وہ بغداد کی گلیوں کو کنٹرول کرتی تھی۔اس کے نوجوانوں کے فرنٹ کی ممبر شپ 84ہزار تھی جبکہ 3500کسان کمیٹیوں میں سے 60فیصد اس کے کنٹرول میں تھیں۔ لیکن اتنی بڑی انقلابی تحریک کو ''مرحلہ وار انقلاب‘‘ کے سٹالنسٹ نظریات کی بَلی چڑھا دیا گیا۔''ترقی پسند بورژوازی‘‘ کی تلاش میںسرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑپھینکنے کا موقع گنوا دیا گیا۔ بعد ازاں بعث پارٹی کی 'سوشلسٹ ‘ پالیسیوں اور اصلاحات کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام اپنی جگہ پر موجود رہا اور آج اس نظام کا زوال لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا رہا ہے۔
آج عراق کے محنت کشوں کی انقلابی روایات کو اجاگر کرنے اور انہیں فرقہ پرستی اور قومی تعصب کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ظلمت کی تاریکی میں ایک مختصر قوت کی بالشویک پارٹی بھی لاکھوں عراقیوں کے لئے مینار نور ثابت ہو سکتی ہے۔ عراق کے عوام نے پہلے بھی سامراجی جارحیت اور صدام کی آمریت کے خلاف بے مثال جدوجہد کی ہے۔ موجودہ رجعتی بربریت اور سامراجی سازشوں کے خلاف بھی ان میں نفرت ابل رہی ہے۔ ایسے میں پورے مشرقِ وسطیٰ کے کسی ایک ملک میں محنت کش طبقے کی ایک کامیابی ، ایک آگے کا قدم عراق اور پورے خطے کے محنت کشوں کو نیا جوش اور ولولہ دے گا۔ کسی ایک ملک میں بالشویک قوت کی تعمیرپورے خطے میں سوشلسٹ انقلاب کی نوید بنے گی۔ یہ سوشلسٹ انقلاب مشرقِ وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے جنم کا باعث بنے گا جو اس طویل المیے کو ختم کر کے امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کرے گی۔(ختم)