"DLK" (space) message & send to 7575

ظلمتوں کے نظام میں امن کیسا؟

امن کے لیے '' مذاکرات ‘‘ ابھی شروع بھی نہ ہوپائے تھے کہ ''سرحدی جھڑپیں‘‘ شروع ہو گئیں۔ جنگ اور امن کے یہ پراسرار سلسلے کب سے چل رہے ہیں اور جانے کب تک چلتے رہیں گے۔ کہیں جنگ کے بھونڈے طبل نحیف سی آواز میں بج رہے ہیں تو کہیںامن کی تمنا کا مدہم شور ہے ۔انٹرنیشنل سرحدوں پر رہنے والے ان باسیوں کی زندگیاں دوہرے عذاب سے دوچار ہیں۔ وہ یہاں رہ بھی نہیں سکتے اورچھو ڑکرکہیں جا بھی نہیں سکتے۔ بارڈر چھوڑ کر یہ جہاں بھی جائیں گے، غربت ہی ان کااستقبال کرے گی۔ جوٹوٹی پھوٹی زندگی ان خطرناک سرحدی علاقوں میں وہ گزارتے ہیں، اس سے بھی جاتے رہیںگے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہرکچھ عرصے بعد ایک '' بے قاعدہ باقاعدگی ‘‘ کے ساتھ جھڑپوں اور جنگی جنون کا یہ سلسلہ کیوں شروع کیا جاتا ہے؟ سرحدوں پر جنگیں اب ماضی کی طرح کم ہی ہوتی ہے۔ آج جنگیں زیادہ تر میڈیا پر لڑی جاتی ہیں، خواہ وہ بھارت اور پاکستان کے حکمران طبقات کے سیاسی نمائندوں کی لڑائیاں ہوں، مذہبی بنیاد پرستی اور سامراج کے تصادم ہوں یا پھرقومی اور مذہبی جنون کے فرسودہ تضادات۔ پھر اس قسم کی صورت حال میں تقسیم کی دونوں اطراف کے سیاست دان حب الوطنی اور قومی شاونزم کا شور مچاتے ہیں، زہریلی انتہا پسندی کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میڈیا کے اینکر اور تجزیہ نگار، یوں آگ بگولے ہوتے ہیں کہ منہ سے جھاگ برآمد ہونے لگتی ہے۔ چائے کی پیالی میں یہ طوفان کبھی تھوڑا لمبا ہوتا ہے توکبھی جلد ہی تھم جاتا ہے۔ پھر'' امن‘‘ کی باتیں ہوتی ہیں اور مذاکرات کے نہ ختم ہونے والے ''عمل‘‘ شروع ہوجاتے ہیں ۔
برصغیر کے حکمران آج ایسی کیفیت سے دوچار ہو چکے ہیںکہ کھل
کرکوئی بھرپور قومی جنگ لڑسکتے ہیں نہ ہی کسی دور رس اور پیہم امن اور''اچھے تعلقات ‘‘ قائم کرسکتے ہیں۔ اس کھلواڑکو سمجھنے کے لیے ان حکمران طبقات کی ساخت اورتاریخی کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے سرمایہ دار طبقات نے جب سامراج کی براہِ راست غلامی سے بالواسطہ غلامی کو ''آزادی‘‘ کے نام پر اختیار کیا تو ان کے خواب تھے کہ وہ مغربی یورپ اور دوسرے کلاسیکی سرمایہ دارانہ ممالک کی طرح یہاں ایک جدید صنعتی معاشرہ، ترقی یافتہ معیشت اور صحت مند پارلیمانی جمہوریت کا اجرا کرسکیںگے۔ لیکن عالمی سامراج کے غلبے میں یہ مفلوج اقتدار جب انگریز آقائوں کے 'پلانٹڈ‘ مقامی حکمران طبقے کو ملا تو انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ تاریخ کے میدان میں بہت تاخیر سے داخل ہوئے ہیں۔ ان کے نظام کا وقت گزر چکا تھا۔ وہ ایک طرف سامراج کے غلام بنے تو دوسری جانب جاگیرداری سے مصالحت کرکے ایک پیروکاراور مطیع سرمایہ دار طبقے کا کردارادا کیا۔ اپنی شرح منافع کو بڑھانے کے لیے اس سرمایہ دار طبقے نے بدعنوانی اور ریاستی خزانے کی لوٹ مارکا جو عمل شروع کیا اس کے بعد ریاستی مشینری ان کی حفاظت اور ان کی مراعات کے فروغ کا کام بھلا مفت میں کیوں کرتی؟ نتیجتاً ریاستی افسر شاہی کی اعلیٰ پرتیں خود حکمران طبقے کا حصہ بننا شروع ہوگئیں۔ دولت اور طاقت کے اس کھیل میں ریاستی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقے کا ساتھ ہمیشہ چولی دامن کا رہا ہے۔ دونوں قوتیں توازن برقرار رکھنے اور اپنے منافعوں کے فروغ کے لیے ہی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں مرتب کرتی رہی ہیں۔ سوائے چند غیر معمولی برسوں کے، ہر دور کی سیاست، ریاست
اور حکومت انہی مالی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم رہی ہے۔ پھر سامراجی اجارہ داریوں کی ''سرمایہ کاری‘‘ کے اپنے مفادات اور مضمرات ہیں ۔اس سرمایہ کاری میں جنگی صنعت کی پیداوار اور اس پیداوار کی کھپت کلیدی کردار کی حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں برصغیر کے سرمایہ دار طبقے کے کچھ دھڑے وسیع منڈیوں کے حصول کے لیے ''امن وآشتی‘‘ چاہتے ہیں وہاں عالمی سیاست پر حاوی اسلحے کی سامراجی اجارہ داریوں کے مالکان اور ان کے مقامی کمیشن ایجنٹ اپنی بِکری کے لیے جنگ اور تصادم کے خواہاں ہیں ۔ لیکن ایک بڑی جنگ سے ہونی والی ہولناک بربادی سے ملٹی نیشنل اجارہ داریوں اور مقامی سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری اور اثاثوں کو چونکہ تباہی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اس لیے ایک بھرپور جنگی تصادم کی بجائے ''حالتِ جنگ‘‘ وقفے وقفے سے پیدا کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ جنگ اور اسلحے کے منافعوں سے وابستہ حکمران دھڑے اور عسکری اشرافیہ جنگی جنون کو ہوا دیتے اور دلواتے ہیں تو منڈیوں میں کھپت کے متلاشی دوسرے حکمران ''امن ‘‘ کے پراجیکٹس کو فنانس کرتے ہیں۔
ہندو اور مذہبی بنیاد پرستیاں ایک دوسرے پر پلتی ہیں۔ ایک کے جنون کی شدت دوسرے کو تقویت دیتی ہے۔ جہاں مذہبی بنیاد پرست اپناپرچار کرتے ہیں وہاں ہندو بنیاد پرست جارحانہ پھیلاؤ کے اپنے عزائم کے لئے سرگرم ہیں۔ مذہب کو برصغیر کی سیاست پر ٹھونسنے والے موہن داس گاندھی کو قتل کرنے والے نتھورام گودسے کی ''ارتھیاں‘‘ابھی تک پونا میں ایک پیتل کے برتن میں محفوظ رکھی گئی ہیں۔ ہندو بنیاد پرست، نتھو رام کی وصیت کے مطابق انہیں گنگا کی بجائے پاکستان پر قبضہ کے بعد دریائے سندھ میں بہانے کے جنون میں مبتلا ہیںکیونکہ قدیم ہندو مت میں اصل مقدس دریا ''سندھو‘‘ کوسمجھا جاتا تھا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت اور پاکستان کے حکمران سیاست دان ''غربت کے خاتمے کے لیے امن‘‘کی آڑ میں اپنے مالی مفادات کے حصول کے لئے سرگرم ہیں۔ کانگریس حکومت ہو یا نریندر مودی کی بی جے پی کا رجعتی اقتدار، انداز مختلف ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی فلسفہ یہی ہے۔ اس ملک میں بھی'' بھرپور جواب‘‘ سے لے کر امن کی خواہش تک، دو بظاہر متضاد فلسفوں پر انہی حکمرانوں کی اجارہ داری ہے ۔ عمران خان نے بیک وقت مودی کو انتباہ کرتے ہوئے امن قائم کرکے غربت کے خاتمے کا مشورہ بھی دے دیا ہے۔ پاکستان کے باقی تمام سیاسی رہنمائوں کا بھی یہی ''موقف‘‘ ہے۔
درحقیقت امن کے ذریعے غربت کے خاتمے کا پورا مفروضہ ہی الٹ، بے بنیاد اور نامراد ہے۔ جب تک غربت ہے تب تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ غربت کی ذلت سے تنگ محنت کشوں نے جب بھی اس نظام کے خلاف بغاوت کی ہے تو''امن کے خواہاں‘‘ برصغیر کے انہی حکمرانوں نے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے اور طبقاتی جدوجہدکو زائل کرنے کے لیے خود جنگی جنون کو ہوا دی ہے۔ داخلی تضادات اور عوامی تحریکوںکو دبانے کے لیے ہمیشہ بیرونی دشمن کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں حکمران طبقے کی یہ آزمودہ واردات ہے۔ جدید جرمنی کے بانی بسمارک کے مایہ ناز جرنیل کارل کلازویٹ نے ایک مرتبہ لکھا کہ ''جنگ درحقیقت داخلی سیاست کو خارجی تسلسل دینے کا نام ہے‘‘۔ لہٰذا جب تک غربت اور محرومی رہے گی، امن قائم ہو ہی نہیں سکتا اور جب تک یہ متروک سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے، غربت اور محرومی میں اضافہ ہی ہوگا۔
حکمرانوں کی دولت اور منڈیوں کی لڑائیاں عوام پر تب تک ہی مسلط کی جاسکتی ہیں جب تک کہ وہ جمود کی کیفیت میں سیاست سے بے نیاز اور سماجی بے حسی میںمبتلا رہتے ہیں۔ برصغیر میں آباد دنیاکی 22فیصد آبادی میں کرہ ارض کی46 فیصد بھوک پلتی ہے۔ اس اذیت کو منافقانہ سفارت اور ''حب الوطنی‘‘ کے ذریعے بھلاکب تک دباکر رکھاجاسکتا ہے؟ عوام کو ''مذاکرات‘‘ اور جنگی جنون کے سحر میں ایک وقت تک تو مبتلا رکھا جاسکتا ہے، ہمیشہ کے لیے کبھی نہیں۔ پاکستان یا ہندوستان میں ہونے والی ہر تبدیلی سرحد کے دونوں اطراف اثرانداز ہوتی ہے۔1968-69ء میں پاکستان سے اٹھنے والی انقلابی تحریک نے ہندوستان کے حکمرانوں کو بھی لرزا دیا تھا اور 1971ء کی جنگ جیتنے والے اندرا گاندھی کا تختہ 1972-74ء میں ہندوستان کے محنت کشوں نے خود الٹ دیا تھا۔
امن تب قائم ہوگا جب استحصال اور مانگ کا خاتمہ ہوگا،غربت مٹے گی، سماجی خوشحالی اور معاشی آسودگی آئے گی۔ امن کی یہ شرائط خود سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی غلبے کو اکھاڑ پھینکنے والے محنت کش عوام کے انقلاب سے مشروط ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں