"DLK" (space) message & send to 7575

اہل ہوس سے شکایت کیسی؟

''طالبان سے مذاکرات‘‘ کا مذاق کئی ہفتے چلتا رہا تھا۔ ''آپریشن‘‘ کی قسط اس سے کچھ زیادہ عرصہ نکال گئی لیکن سکولوں کی دیواریں اونچی کرنے اور روٹیوں کی گنتی پر مبنی ''قومی ایکشن پلان‘‘ کی ہوا چند دنوں میں ہی نکل گئی ہے۔ شکار پور بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 60سے تجاوز کر چکی ہے۔ دھماکے سے دو روز قبل ''طالبان‘‘ نے پورے علاقے میں پمفلٹ بانٹے تھے جن پر واضح الفاظ میں انتباہ درج تھا کہ ''جمعہ کے دن تم کو مہلت نہیں ملے گی۔‘‘ سب جانتے ہیں بے گناہوں کے خون سے دن دیہاڑے ہولی کھیلنے والے ان دہشت گرد گروہوں کی فنڈنگ کن ممالک سے ہوتی ہے، افرادی قوت کی بھرتی کے لئے کون سے مدرسے اور ''رفاہی ادارے‘‘ استعمال ہوتے ہیں، قتل و غارت گری کے سینکڑوں مقدمات میں ''باعزت بری‘‘ ہو کر سر عام دندنانے والے کون سے حضرات انہیں چلاتے ہیں اور ریاست کے اندر اور باہر کن قوتوں کی پشت پناہی انہیں حاصل ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد عوامی غم و غصے کو زائل کرنے میں حکمرانوں کے کارگر آلہ کار کا روایتی کردار ادا کرنے والے میڈیا نے شکار پور کے قتل عام کو کراچی میں ''روٹھنے منانے‘‘ کے ناٹک کے پیچھے چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔لیکن مدعی اور منصف بن جانے والوں سے شکایت بھی جرم کے مترادف ہوتی ہے۔ بغاوت کرنی پڑتی ہے!
آج کے حکمران طبقے کا بنیادی خاصہ یہ ہے کہ وہ سماجی معمولات کو معطل کئے بغیر اپنے معاشی اور سیاسی غلبے کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ افراتفری اور ہیجان کی غیر موجودگی میں وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وینٹی لیٹر پر رکھی معیشت میں سے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے لئے ان حکمرانوں کو ایسی آ ب و ہوا کی ضرورت ہے جس میں آبادی کی اکثریت کا دم مسلسل گھٹتا رہے۔ ان کو شہروں کی نہیں جنگلوں کی ضرورت ہے۔ یہ تہذیب نہیں بربریت کے نمائندے ہیں۔ 
روز بروز منہدم ہوتی ہوئی پیداواری معیشت کے متوازی ایک غیر سرکاری معیشت پروان چڑھ چکی ہے جس کا بڑا حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔اسی کالے دھن پر ریاستی آشیرباد سے پلنے والے ''غیر ریاستی عناصر‘‘ اب اپنے آقائوں کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ریاست خود جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں 'ریاستی ‘ اور 'غیر ریاستی‘ کی تفریق بھی مٹ چکی ہے۔صرف کراچی سے ایک ارب روپے کا بھتہ ہر روز اکٹھا ہوتا ہے۔ یہ ساری رقم مذہب، فرقے اور نسل کو بنیاد بنا کردہشت پھیلانے والے جرائم پیشہ گروہوں یاسیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ریاستی مشینری کا ہر پرزہ حسب توفیق اس میں حصہ دار ہے۔
کراچی ایک معتبر اندازے کے مطابق دو کروڑ تیس لاکھ نفوس پر مشتمل دنیا کا تیسرا بڑا شہر بن چکا ہے۔ امن وامان کے مسئلے سے اگر صرفِ نظر کر بھی لیا جائے تو اتنی بڑی آبادی کو منظم کرنے کے لیے جس قسم کے سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے پاکستان کے نا اہل حکمران طبقے کے لیے وہ صریحاً نا ممکن ہے۔ پانی، گیس، بجلی، سینی ٹیشن سمیت تمام شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ آبادی کی اکثریت میں احساسِ محرومی اور مستقبل سے ناامید بے نوجوانوں کے جم غفیر نے لسانی تعصبات اور مافیا گروہوں کے لیے زرخیز زمینوں کا کردار ادا کیا ہے۔دنیا کا خطرناک ترین شہر کا درجہ حاصل کرنے والے کراچی کی طرف ہجرت کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا 
جا رہا ہے۔ آبادی کا تناسب مسلسل بدل رہا ہے جس کی وجہ سے بھی سیاسی رسہ کشی میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ماضی کے برعکس اب باعزت روزگار ناپید ہو چکا ہے۔ روزگار کی تلاش میں آنے والوں میں سے وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جنہیں ریڑھی لگانے یا چھابڑی وغیرہ کا کام مل جاتا ہے۔ کراچی میں دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد اوسطاً تقریباً 20 لاکھ سے زائد ہے۔ کسی بھی قسم کی ہڑتال یا کشیدگی کی وجہ سے ان 20 لاکھ گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں بیروزگار روزی کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں، بارود کے ڈھیر سے اپنا رزق تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مسلسل ناکامی کے بعد جب یہ نوجوان مانگنے سے چھین لینے کی نفسیات کی طرف راغب ہوتے ہیں تو کسی انقلابی سیاست کے فقدان وجہ سے قبضہ مافیا، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کے علاوہ ان کے پاس کوئی معاشی نعم البدل نہیں بچتا۔ جتنے زیادہ ٹارگٹ کلرز مارے جاتے ہیں اس سے زیادہ اسی لمحے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ روزگار پیدا کرنے والا کراچی جو کبھی محنت کی وسیع منڈی ہوا کرتا تھا اب مجرم پیدا کرنے والی ہیوی انڈسٹری میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی نام نہاد ''آپریشن کلین اپ‘‘ شروع کیا تھا جس کا نتیجہ بھی ماضی کی روایات کے عین مطابق پہلے سے زیادہ خلفشاراور قتل و غارت گری کی صورت میں بر آمد ہوا ہے۔ کالے دھن کا زنگ ریاستی مشینری کو چاٹ کر اندر سے اس حد تک کھوکھلا کر چکا ہے اس طرح کے'' غیر جانبدار آپریشن‘‘ ناٹک بن کے رہ گئے ہیں۔ جرائم پیشہ متحارب گروپوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی ریاستی دھڑے کی سرپرستی حاصل نہ ہو۔بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ جو بھتہ ہم تک نہیں پہنچ رہا وہ سراسر غیر قانونی ہے، اسے فوراً بند کرا کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔یہ آپریشن ملک کے اِس کونے میں ہوں یا اُس کونے میں، ''عوام کی ''حفاظت‘‘ کے لئے نہیں بلکہ کچھ بے لگام اور ناپسندیدہ قاتلوں کی جگہ اطاعت شعاراور ہونہا درندوں کو لا کر طاقتوں کے بگڑتے ہوئے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ نتائج سے واضح ہے کہ ماضی کی جزوی کامیابیوں کے برعکس اب ایسا سرے سے ممکن ہی نہیں رہا ہے۔ ہر اٹھایا جانے والا قدم بیک فائر کرتا ہے جس کا ازالہ کرنے کے لئے تذبذب کے عالم میں مزید بھونڈے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ 
کراچی میں سرگرم مافیا گروہوں یا سیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگز میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس میں آپسی تضادات کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ نہ کی جا رہی ہو۔ کالی دھن کی معیشت میں بڑھتی ہوئی حصہ داریوں کے ساتھ یہ سلسلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گرتی ہوئی سماجی بنیادوں نے ٹوٹ پھوٹ کو اور بھی تیز کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں رسہ کشی مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہے۔تمام تر کھچائو کے باوجود مختلف دھڑے فی الوقت ایک فرد کے ساتھ کچے دھاگوں سے بندھے ہوئے ہیں لیکن لمبے عرصے تک یہ لڑکھڑاتا ہوا ڈھانچہ کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔ 
کراچی کی اس لڑائی میں اصل فریق، یعنی محنت کش عوام ابھی تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن اس سناٹے میں بھی طوفانوں کا شور سنا جاسکتا ہے۔ نظام کا بحران دائیں بازو کی اس حکومت کو محنت کشوں پر شدید معاشی حملے کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لیے بغیر یہ نظام چل نہیں سکتا اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ شرائط کے تحت نیو لبرل پالیسیاں لاگو کی جا رہی ہیں جن میں نجکاری سرِ فہرست ہے۔ ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے لاکھوں محنت کش گھرانوں کو فاقہ کشی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ سٹیل مل جیسے بڑے اداروں میں سے کوئی تازہ دم تحریک بر آمد ہوتی ہے تو وہ صنعتی شعبے کے لاکھوں محنت کشوں کے لیے بھی امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ 
پاکستان کے محنت کش عوام کی بغاوت میں کراچی کو وہی حیثیت حاصل ہے جو انقلاب روس میں پیٹروگراڈ کی تھی۔ آج درجنوں لاشیں روزانہ اٹھا لینے کے بعد بھی یہ شہر بے اماں بند نہیں ہوتا۔ سیاسی ٹھیکیداروں کی ہڑتالوں کے دعووں اور میڈیا کی جعلی رپورٹوں سے قطع نظر کراچی کہیں نہ کہیں چلتا رہتا ہے۔ کیونکہ کراچی کو صرف وہ ہاتھ بند کر سکتے ہیں جو کراچی کو چلاتے ہیں۔ یہ محنت کشوں کے ہاتھ ہیں۔ ان ظالم قوتوں کو صرف اور صرف محنت کش عوام کی اجتماعیت کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ کراچی کی ملکیت کے دعویدار اور قابضین ماضی سے سبق سیکھیں۔ اگر محنت کش تاریخ کے میدان میں کود پڑے تو ان دہشت گردوں کو کہیں پناہ نہ ملے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں