"DLK" (space) message & send to 7575

نجکاری کی بدکاری!

سرمایہ داروں کی اس حکومت کے دو سال پورے ہونے کو آئے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے بہت لمبا عرصہ بیت گیا۔ واقعات بے شمار ہوئے، تصادم بھی بہت تھے اور عدم استحکام اور بے چینی کی انتہا۔برا وقت کچھ زیادہ ہی طویل معلوم ہوتا ہے۔ ویسے تو ''جمہوری حکومت‘‘ کی میعاد پانچ سال ہوتی ہے لیکن جو حالات ہیں اس کے پیش نظر موجودہ حکمران شکر ہی کر رہے ہوں گے کہ چلو دو سال تو نکال لئے ہیں۔ یہ حکمران حکومت نہیں کاروبار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ عوام کو نجکاری کی برکات کا وعظ بھی سناتے ہیں کہ ''ریاست کا کاروبار میں بھلا کیا کام؟‘‘
جیسے فنکار ایوارڈوں کی دوڑ میں بھاگتے ہیں‘ جیسے آج کل کارپوریٹ میڈیا اور اس کے اینکر ریٹنگ کے خبط میں مبتلا ہیں بالکل ویسے ہی ہمارے حکمران بھیک کے لئے اپنے آقائوں کے سامراجی مالیاتی اداروں کی ریٹنگ کے مرہون منت ہیں۔اس مالیاتی ریٹنگ کا ایوارڈ اسے ملتا ہے جو سامراجی لوٹ مار (جسے 'سافٹ‘ زبان میں 'فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ‘ کہا جاتا ہے) اور محنت کشوں کے استحصال کے سب سے موثر انتظامات کرتا ہے۔ اس حوالے سے حکمرانوں کی بڑی شہرت ہے اور وہ اس شعبے میں خاصے ماہر ہیں لہٰذا سرخرو ہوئے ہیں۔ ثقافتی اور سماجی گراوٹ کے اس عہد میں عام طور پر غیر معیاری پروگراموں کی ریٹنگ ہی اوپر جاتی ہے۔ اس نظام کی معیشت کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ وہی اقتصادی پالیسیاں ان استحصالی مالیاتی اداروں کی ریٹنگ حاصل کرتی ہیں جن سے امیر، امیر تر ہوتے ہیں،سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے منافع بڑھتے ہیں اور محنت کش عوام کی بچی کھچی کمائی بھی لٹ جاتی ہے۔
نواز لیگ کی حکومت کو سب سے پہلے ''سٹینڈرڈ اینڈ پوورز‘‘ نے زیادہ ریٹنگ دی، پھر ''مودیز‘‘ نے ان کے درجات بلند کئے۔ آئی ایم ایف والے بھی ان سے خاصے خوش نظر آتے ہیں۔ 11مئی کو اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے مشن اور وزارت خزانہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کی رو سے 50کروڑ 60لاکھ ڈالر قرضے کی قسط جاری کی جارہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف کے ''مشن‘‘ کے سربراہ ہیرالڈ فنگر کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ڈار صاحب کا ایک بیان بڑا دلچسپ تھا کہ ''آئی ایم ایف جیسے ملٹی لیٹرل ادارے ہمارے ترقی کے پارٹنر ہیں، آقا نہیں ہیں۔‘‘اس سے زیادہ عجیب و غریب بیان کوئی ہو سکتا ہے؟
پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور اپنے طبقے کی جیبیں بھرنے کے لئے حاصل کئے گئے اس نئے قرضے کا ہدف بھی غریب کی جیب ہی بنی ہے۔ سبسڈی میں مزید کمی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مسٹر فنگر نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ''مختلف شعبوں میں 'اصلاحات‘ کے اس پروگرام پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے تو پاکستان ایک 'متحرک‘ منڈی کی معیشت بن جائیگا۔‘‘کون نہیں جانتا کہ ''اصلاحات‘‘ اور ''متحرک منڈی کی معیشت‘‘ کا مطلب کیا ہے؟
ان ''اصلاحات‘‘ کے تحت محنت کشوں پر نئے حملوں کی تیاری آئی ایم ایف کی مکمل آشیرباد سے کی جارہی ہے۔ نجکاری کے روایتی وار کے لئے چھریاں تیز کی جارہی ہیں۔ سرکاری ادارے، جنہیں پہلے ہی افسر شاہی جونکوں کی طرح چوس رہی ہے، اب انہیں ذبح کرنے کا ارادہ ہے۔ ان کے ٹکڑے کر کے حکمرانوں نے آپس میں بھی بانٹنے ہیں اور اپنے سامراجی دیوتائوں کی بھینٹ بھی چڑھانے ہیں۔
پچھلے دو سالوں کے دوران آپسی لڑائیوں میں ریاستی آقائوں اور سیاسی جغادریوں نے کئی ''تحریکیں‘‘ چلائی ہیں۔ یہ تحریکیں کم اور تماشے زیادہ تھے۔ ''آزادی‘‘ اور ''انقلاب‘‘ مارچ کے شوروغل میں کئی حقیقی تحریکوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی مزدور سڑکوں پر آئے تو کبھی کسانوں نے احتجاج کیا۔ ان پر بدترین ریاستی تشدد بھی ہوا لیکن حکمران خود اتنے خوفزدہ اور کمزور ہیں کہ بڑی تحریک کی جھلکیاں دیکھ کر ہی نجکاری وقتی طور پر معطل کردی۔ اسی طرح کسانوں کے کئی مطالبات بھی منظور ہوئے اور زرعی اجناس کی قیمت بڑھانی پڑی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ کاغذی شیر خود کو پھر سے اصلی شیر سمجھنے لگے ہیں۔ اب کی بار شکار کا پہلا ہدف واپڈا معلوم ہو رہا ہے۔
واپڈا اس ملک کی ''قانونی‘‘ معیشت میں سب سے زیادہ محنت کشوں کو روزگار فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ادارے میں بدعنوانی کے چرچے عام ہیں۔ میڈیا بھی بہت شور مچاتا ہے۔ کرپشن حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مل کر بیوروکریسی اور بالائی افسران کرتے ہیں، بدنامی غریب ملازمین کے سر تھوپ دی جاتی ہے۔ اربوں روپے کی بجلی چوری بڑے سرمایہ دار، صنعت کار، جاگیر دار اور ٹھیکیدار کرتے ہیں، بجلی کے کنکشن غریبوں کے ایک بلب والے گھروں کے کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس تک،بلوں کی عدم ادائیگی حکمرانوں کے ایوان کرتے ہیں لیکن ''نادہندہ‘‘ کچی آبادیوں کے محروم انسان قرار پاتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ نجی شعبے کی لوٹ مار کی وجہ سے ہے، حملے واپڈا دفاتر پر ہوتے ہیں۔ آئی پی پیز بجلی نہ بنانے کا منافع کما رہی ہیں، گردشی قرضہ ہر سال اتارنے کے بعد بھی 500ارب روپے پر پہنچ جاتا ہے لیکن بجلی کی ترسیل اور دوسرے انفراسٹرکچر پر ایک روپیہ خرچ کرنے کو یہ حکمران تیار نظر نہیں آتے۔ لائن مینوں کے پاس انتہائی بنیادی سامان اور حفاظتی انتظامات تک نہیں ہیں۔
واپڈا کا بیڑا غرق کرنے میں بھی یہاں کے حکمرانوں نے کئی دہائیوں تک ''محنت‘‘ کی ہے۔ یہ آج کے عہد میں ''نیو لبرل ازم‘‘کی روایتی واردات ہے۔ پہلے ایک ادارے کو برباد کرو، پھر کوڑیوں کے بھائو ''بیچ‘‘ کر خود ہی خرید لو۔لوڈ شیڈنگ واپڈا کے محنت کشوں کی نہیں بلکہ ''کارگر نجی شعبے‘‘ کے آئی پی پیز کی وجہ سے ہے۔ ان پاور پلانٹس کا پیسہ عوام آج تک بھر رہے ہیں۔ ملکیت ان کی سامراجی اجارہ داریوں اور مقامی مگر مچھ سرمایہ داروں کے پاس ہے۔ ''آزاد منڈی‘‘ کا کیسا قانون ہے۔ منافع پرائیویٹائز اور خسارہ نیشنلائز! کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تمام تر امکانات کے باوجود سستی کی بجائے 1990ء کی دہائی میں مہنگی بجلی کے منصوبے کیوں شروع کئے گئے؟ اور تیل کے پلانٹ لگانے ہی تھے تو ایسی کون سی ''راکٹ سائنس‘‘ تھی کہ 80فیصد ریاستی سرمایہ کاری کے باوجود 20فیصد سرمایہ کاری کرنے والے نجی شعبے کو ملکیت دے دی گئی۔ ان معاہدوں کی شرائط آج تک کسی ''جمہوری‘‘ حکومت نے جمہور کو بتائی ہیں؟ یہ آئی پی پیز کس ریٹ پر بجلی بنا رہے ہیں، کس پر فروخت کر رہے ہیں، کیا شرح منافع ہے،کوئی پوچھنے والا ہے؟ سارا ملبہ واپڈا کے محنت
کشوں پر ڈالا جارہا ہے۔ اگر اس ادارے کی نجکاری ہوگی تو نہ صرف بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہوں گی اور بیروزگاری بڑھے گی بلکہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا اور عوام کے معاشی عذاب پہلے سے بڑھ جائیں گے۔
واپڈا میں مضبوط ٹریڈ یونین موجود ہے جسے نجکاری کی صورت میں کچل دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے مضر اثرات مزدور تحریک پر مرتب ہوں گے۔نجکاری کا یہ وار کامیاب ہو گیا تو پھر دوسرے اداروں پر حملہ کرنے میں حکمران ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ لہٰذا یہ صرف واپڈا کی نہیں پورے ملک کے محنت کشوں کی لڑائی ہے۔ واپڈا کے محنت کش اب تک نجکاری کے سامنے چٹان بنے ہوئے ہیں اور دلیرانہ جدوجہد کر رہے ہیں لیکن حتمی فتح کے لئے انہیں دوسرے شعبوں اور اداروں کے محنت کشوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ رنگ، نسل، مذہب، فرقے جیسے رجعتی تعصبات کو رد کرتے ہوئے یکجا ہوکر نجکاری کے اس وار کو پسپا کرنا ہوگا۔
یہاں یونین قیادت کا بھی کڑا متحان ہوگا۔ نجکاری کو روکنا ہے تو آخری معرکے تک لڑنا ہوگا۔ مذاکرات اور لین دین کا وقت اور گنجائش ختم ہوچکے ہیں۔ قیادت اگر کچھ ''لچک‘‘ دکھا کر حکمرانوں سے ''سمجھوتہ‘‘ کرنے کی کوشش کرتی بھی ہے تو نجکاری کے حملے رکنے والے نہیں۔ لڑے بغیر بقا کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ واپڈا کے محنت کش کمزور نہیں ہیں۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک میں انہوںنے حکمران ایوانوں کی بجلی کاٹ کر ایوب خان جیسے آمر کو گھر بھیج دیا تھا۔ وہ چاہیں تو آج بھی عوام کو تاریکی میں ڈبونے والے حکمرانوں کے محلات کو اندھیر کر سکتے ہیں... اس انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز بن سکتے ہیں جو تمام تر صنعت، معیشت اور ریاست کو محنت کش عوام کی اشتراکی ملکیت بنا ڈالے گی۔ اس طبقاتی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تمام اداروں کے محنت کشوں کو اپنے اس عزم کا اعادہ کرنا پڑے گا کہ ''ایک کا زخم، سب کا زخم!‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں