"DLK" (space) message & send to 7575

یونان: جینا ہے تو لڑنا ہو گا!

14جون بروز اتوار ٹرائیکا(آئی ایم ایف، یورپی مرکزی بینک، یورپی کمیشن )اور یونان کے درمیان ہونے والے مذاکرات 45منٹ میں ہی ناکام ہو کر ختم ہو گئے۔ اگر 30جون تک کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو یونان کو ہنگامی قرضوں کی فراہمی بند ہو جائے گی جس کا نتیجہ ملک کے اعلانیہ دیوالیے اور یورپی یونین سے اخراج کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔اس صورتحال میں یونان میں برسر اقتدار سائریزا پارٹی کے بائیں بازو نے ڈیفالٹ ہو کر قرضے کی واپسی سے انکار اور یورو کو ترک کر کے پرانی کرنسی 'دراشما‘کی طرف واپسی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔پارٹی میں سرگرم بائیں بازو کا دھڑا بینکوں کی نیشلائزیشن، سرمائے کی حرکت پر ریاستی کنٹرول اور مجوزہ مالیاتی نظام کے لئے مرکزی بینک قائم کرنے کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی کے 30ممبران پارلیمنٹ نے تحریک کا آغاز کیا ہے۔سائریزا کے ایک رکن پارلیمنٹ نے 'ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' ہم ہار ماننے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم یورپی یونین کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں زندہ درگور کر دے...یہ مطالبات سائریزا کے بائیں بازو تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ہمیں وسیع حمایت حاصل ہے‘‘۔
سائریزا عوامی مراعات میں کٹوتیوں کے خاتمے کے وعدے پر اس سال کے آغاز میں برسراقتدار آئی تھی۔یونان کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 177فیصد سے تجاوز کر کے ناقابل واپسی ہو چکا ہے۔حکومت کو 26لاکھ افراد کی پنشن اور چھ لاکھ سول ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا ہیں۔ علاوہ ازیں دائیں بازو کی پچھلی حکومت کی جانب سے نکالے گئے چار ہزار ملازمین کو بھی دوبارہ بھرتی کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف اور دوسری سود خور یورپی طاقتیں 'بیل آئوٹ پیکج‘ کو جاری رکھنے کے لئے یونان پر تنخواہوں، پنشن اور دوسرے عوامی اخراجات میں مزید کمی کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں جس کے خلاف سائریزا حکومت مزاحمت کر رہی ہے۔ اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو یونان کو دیا جانے والا نام نہاد امدادی پیکج معطل ہو جائے گا۔
یورپی یونین کی کوشش ہے کہ یونان کے بحران کے مضر اثرات باقی 27ممبر ریاستوں پر مرتب نہ ہوں جن کی معیشتیں پہلے ہی عالمی مالیاتی بحران کی زد میں ہیں۔آئی ایم ایف نے وارننگ جاری کی ہے کہ ''گہرے خطرات موجود ہیں۔‘‘یونان کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں یورپی مرکزی بینک کو 130ارب یورو کا نقصان ہو گا جس کا بوجھ نوٹ چھاپ کر باقی ممالک پر ڈالا جائے گا۔جرمنی اس طرح کے اقدامات کی مخالفت پہلے سے کر رہا ہے۔ اس دیوالیے کے سیاسی و سماجی اثرات بھی بہت دور رس ہوں گے۔ یورپ کے کئی ممالک میں یورپی یونین مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں اور ایسے رجحانات کے لئے یونان کی پیش رفت بہت اہم ہو گی۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں بھی یورپی یونین سے اخراج کے سوال پر ریفرنڈم اگلے کچھ عرصے میں متوقع ہے۔
سائریزا پر براجمان قیادت مارکسسٹ یا انقلابی نہیں بلکہ بائیں بازو کی اصلاح پسندی پر یقین رکھتی ہے۔ پارٹی میں کمیونسٹ رجحان بہرحال سرگرم ہے جس نے یونانی عوام کی بڑھتی ہوئی ذلت سے نجات دلانے کے لئے سوشلسٹ پروگرام پیش کیا ہے۔ کمیونسٹ رجحان کے تازہ بیان کے مطابق ''قرض دہندگان سے نجات اور محنت کش عوام کے معیار زندگی میں تیز اور مسلسل بہتری کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ داری سے معاشی اور سیاسی تعلق توڑا جائے... قرض دہندہ قوتیں اور ملک میں ان کے حواری ڈیفالٹ کے بعد ناگزیر طور پر سائریزا کے خلاف اعلان جنگ کریں گے اور معیشت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جائے گی...مینوفیکچرنگ، تعمیر، سروسز اور تجارت سے وابستہ ملک کی 500بڑی کمپنیوں، کانکنی اور ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ بڑے زمینداروں اور چرچ کے تمام اثاثوں کو فوری طور پر قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ فوج اور سکیورٹی فورسز میں ریڈیکل اصلاحات کی جائیں اور میڈیا کو سرمایہ داروں کے کنٹرول سے آزاد کیا جائے۔یورپی یونین سے، جس کے محرکات عوام دشمن ہیں، علیحدگی اختیار کی جائے۔ نیٹو (NATO)کا مقصد مغربی سامراج کے مفادات کا تحفظ ہے لہٰذا اس عسکری اتحاد سے بھی ناتا توڑا جائے‘‘۔
یونان کی صورتحال درحقیقت دو متحارب طبقات کے براہ راست تصادم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اگر سائریزا کی قیادت محنت کش عوام کی امنگوں کے مطابق ٹھوس اقدامات نہیں کرتی تو سرمایہ داری کے خونخوار بھیڑیوں کا درجہ رکھنے والے سامراجی مالیاتی ادارے یونان کی معیشت کو نوچ ڈالیں گے۔موجودہ حالات سے یہ بھی واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش بالکل ختم ہو چکی ہے اور سائریزا کی قیادت کی جانب سے قرض دہندگان کے ساتھ ''مصالحت‘‘ کی تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔دوسری طرف یورپی سرمایہ داری اس قدر کھوکھلی ہو چکی ہے کہ حکمران اس دیوالیے کے دوسرے ممالک (خصوصاً جنوبی یورپ) پر مرتب ہونے والے اثرات اور انقلابی رجحانات کے ابھار کے امکانات سے خوفزدہ ہیں۔ مثلاً یونان میں سائریزا کی طرح سپین میں بھی 'پوڈیموس‘نامی پارٹی بائیں بازو کے پاپولسٹ نعروں کے ساتھ گزشتہ کچھ مہینوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے‘ جس میں مارکسسٹ رجحانات تیزی سے پھیل سکتے ہیں۔
دوسرے امکانات بھی موجود ہیں۔ سائریزا کی قیادت اگر قرض دہندگان کی شرائط پر ہتھیار ڈال دیتی ہے تو نہ صرف پارٹی کے اندر پھوٹ پڑ جائے گی بلکہ یونان کی کمیونسٹ پارٹی (KKE)جیسی پرانی قوتیں بھی وسیع عوامی بنیادیں حاصل کر سکتی ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ عوام کو ماضی میں حاصل ریاستی مراعات اور سہولیات برقرار رکھنے سے یورپی سرمایہ داری قاصر ہو چکی ہے اور ایک کے بعد دوسری بغاوت ناگزیر ہے۔
بحران صرف یونان یا یورپ تک ہی محدود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر گراوٹ کا شکار ہے اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ''بحالی‘‘ برائے نام ہی ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ دانشور اور معیشت دان مسلسل تنبیہہ کر رہے ہیں۔' فنانشل ٹائمز‘ نے 14جون کو لکھا ہے کہ ''ترقی پذیر معیشتیں بیٹھ رہی ہیں۔ چین، برازیل اور روس جیسے ممالک سے سرمایہ کار واپس جا رہے ہیں۔ ایک وقت میں سنہرا سمجھا جانے والا ان معیشتوں کا مستقبل اب تاریک لگ رہا ہے...امریکہ میں پراپرٹی کا نیا بلبلہ بن رہا ہے۔ یہ بلبلہ جتنا پھولے گا، ایک اور کریش کا خطرہ اتنا ہی بڑھے گا۔‘‘
'اکانومسٹ‘ بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ''یورپ قرض میں ڈوبا ہوا ہے اور برآمدات پر منحصر ہے۔جاپان افراط زر کو برداشت نہیں کر سکتا۔امریکہ میں اجرتوں میں اضافہ کارپوریٹ آمدن پر ضرب لگا سکتا ہے۔ابھرتی ہوئی معیشتیں، جن کے ذریعے بحران کے فوراً بعد عالمی معیشت کو کچھ نمو ملی، اب ان کے دن بھی گزر گئے ہیں۔ برازیل اور روس، دونوں کی معیشتیں اس سال سکڑنے کے امکانات ہیں۔ چین کی معاشی شرح نمو توقعات سے زیادہ تیزی سے گر رہی ہے۔ ان تمام تر خدشات کے تحت اگر ایک اور بحران آتا ہے تو اس کا کوئی حل نہیں ہوگا۔ شاید ہی پہلے کبھی بڑی معیشتوں کے پاس بحران سے نمٹنے کا اتنا کم سامان موجود ہو۔‘‘
انفراسٹرکچر پر امریکی ریاست کے اخراجات گزشتہ 25سالوں کی کم ترین شرح (جی ڈی پی کا 1.5فیصد) پر ہیں۔ مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں امریکی معیشت0.7فیصد سکڑگئی ہے۔ 1820ء سے 1970ء تک، ہر دہائی میں بڑھنے والی امریکی محنت کشوں کی حقیقی اجرت گزشتہ 45سالوں سے منجمد ہے۔اس وقت امریکہ میں کام کے مجموعی اوقات کار جاپان سے بھی زیادہ ہیں۔ 1929ء کے گریٹ ڈپریشن کے وقت ایک اوسط امریکی خاندان پر آمدن کے 30فیصد کے مساوی قرض تھا۔ 2007ء میں یہ شرح 130فیصد تک پہنچ چکی تھی جس سے اس بحران کی شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مالیاتی سیکٹر کی سٹہ بازی کے ذریعہ سرمایہ داری‘ اپنی گرتی ہوئی شرح منافع کو برقرار رکھنے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں مجموعی داخلی منافعوں میں فنانس سیکٹر کا حصہ صرف 13.1فیصد تھا جو آج ایک تہائی سے تجاوز کر چکا ہے۔
حقیقی پیداوار کرنے والے شعبے مسلسل زوال کا شکار ہیں اور سٹہ بازی کے بلبلے پھولتے جا رہے ہیں۔ عالمی معیشت 2008ء سے بڑے بحران کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔سرمایہ داری ایک متروک نظام ہے جسے شعوری جدوجہد کے ذریعے اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنا ہو گا۔مارکس کے کلاسیکی پرولتاریہ کا گڑھ یورپ، ایک بار پھر اس عالمی جدوجہد کا مرکز بن چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں