وزیر اعظم ایک اور بیرونی یاترا پر رواں دواں ہیں۔ اس مرتبہ بہت ہی ''اہم‘‘ سفارتی اہمیت کے اس دورے میں وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور 30 ستمبر کو حکمرانوں کے اس کلب کی سالانہ بیٹھک میں خطاب فرمائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تقریر پر 15 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی جو پاکستان کے غریب عوام بھریں گے۔
ہر سال ستمبر میں پوری دنیا کے حکمران نیویارک اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی کیٹ واک، باڈی لینگویج اور فنِ خطابت کی نمائش ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے کارپوریٹ ذرائع ابلاغ اس نظام کی ساری ذلت اور رسوائی کا بلیک آئوٹ کرکے عالمی لیڈروں کی ان حرکات و سکنات کو خوب کوریج دیتے ہیں۔ اس کرہ ارض پر‘ جہاں دو تہائی آبادی غربت یا نیم غربت کی دلدل میں کراہ رہی ہے‘ یہ سندیسے دیے جاتے ہیں کہ ان کے ملکوں کو درپیش عسکری یا سفارتی تنازعات کے حل کی کنجی اسی ادارے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری طرف دنیا کے بیشتر خطوں میں خانہ جنگی‘ جنگ‘ پراکسی جنگیں‘ نقل مکانی اور دہشت گردی اس عہد کا معمول بن چکا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے سربراہان کے ممالک میں بدامنی‘ خانہ جنگی‘ معاشی و اقتصادی بربریت‘ خواتین اور بچوںکے حقوق کی پامالی‘ جہالت اور افلاس کا جو کہرام مچا ہوا ہے‘ وہ سب انہی کی حاکمیت اور ہوس کا نتیجہ ہے۔
صرف سرسری جائزے سے پتا چل جاتا ہے کہ پچھلے 70 سالوں میں، جب سے اقوامِ متحدہ معرضِ وجود میں آئی ہے، اس کرہ ارض پر امن و آتشی بڑھی ہے یا ناپید ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران چھ کروڑ انسانوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ اقوامِ متحدہ کی قیام کے بعد ''امن‘‘ کے برسوں میں 2013ء تک جنگی تنازعات میں مرنے والوں کی تعداد 11 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ المناک حقیقت یہ ہے کہ ان جنگوں اور خانہ جنگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر یوکرائن اور کولمبیا سے لے کر افریقہ تک معدنیات کے ذخائر پر قبضے اور منافع خوری کی ہوس اس خونریزی میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے‘ لیکن جو معاشی اور اقتصادی استحصال سامراجی قوتوں اور ان کے مقامی سرمایہ دار گماشتوں نے جاری رکھا ہوا ہے‘ اس سے جنم لینے والی غربت اور قحط سے مرنے والوں کی تعداد جنگوں سے ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہیں۔
اگر اقوامِ متحدہ کے امن قائم کرنے اور مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات میں ثالثی کروانے کے ریکارڈ کو دیکھا جائے‘ تو اتنی عبرتناک ناکامی سے شاید ہی کوئی دوسرا ادارہ دوچار ہوا ہو۔ دوسری جانب اگر غور کریں تو حکمران سیاست کا آخری آسرا پھر یہی اقوامِ متحدہ ہے۔ پاکستان میں اسلامی پارٹیوں سے لے کر سیکولر سیاست اور قومی پرست جماعتوں سے لے کر ''بائیں بازو‘‘ کے اصلاح پسندوں تک، سب کے سب اسی فرسودہ اور ناکام ادارے سے عوام کی امیدیں وابستہ کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے مسئلہ پر اقوامِ متحدہ کے ذریعے امن کی بحالی پر سب کا اتفاق تھا، کیا حشر ہو کر رہ گیا ہے افغانستان کا! ڈاکٹر نجیب اللہ اپنی جان بچا سکتا تھا لیکن ''اقوام متحدہ‘‘ پر اعتماد کی غلطی کر بیٹھا‘ اور اس ادارے کے کابل ہیڈ آفس میں پناہ لی، نتیجتاً طالبان نے اسے وہاں سے نکال کر قتل کیا‘ اور تضحیک کے لئے بیج بازار کھمبے پر لٹکا دیا۔ ''اقوام متحدہ‘‘ تماشہ دیکھتی رہی۔
اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ میں کوئی سنجیدہ تنازعہ کبھی حل نہیں کروایا۔ سب سے پرانا مسئلہ جو اقوامِ متحدہ کے سامنے پیش ہوا وہ کشمیر کا تھا۔ پہلی رائے شماری کی قرارداد 21 اپریل 1948ء کو پیش ہوئی۔ اس کو پیش کرنے والے ممالک میں امریکہ‘ برطانیہ اور بیلجیم شامل تھے۔ ہندوستان نے اس کو مشروط طو پر ماننے کی ہامی بھری تھی‘ لیکن 69 سال گزر جانے کے باوجود یہ مسئلہ اب تک حل نہیں ہو سکا۔ المیہ یہ ہے کہ رائے شماری یا کسی دوسرے حل کے امکانات آج 1948ء سے بھی زیادہ مخدوش ہیں۔ اب تک کشمیر پر 218 قراردادیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی‘ سکیورٹی کونسل اور دوسرے ادارے پاس کر چکے ہیں۔ کسی ایک پر بھی ان 7 دھائیوں میں عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے آقا‘ یعنی سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران میں سے کوئی ایک بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ادھر میاں صاحب لندن میں بیان دے رہے ہیں کہ وہ پھر کشمیر کا مسئلہ پیش کریں گے۔ ہندوستان کے حکمران کسی بھی تیسری طاقت (اقوامِ متحدہ سمیت) کی ثالثی کو یکسر مسترد کر چکے ہیں‘ لیکن پاکستان اور پاکستان نواز کشمیری لیڈر ابھی تک اقوامِ متحدہ کی ''قراردادوں کے مطابق‘‘ مسئلہ کشمیر کے حل کا راگ الاپ رہے ہیں۔ دہلی اور اسلام آباد کے حواری سیاست دانوں کو ہی کشمیری عوام کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی کشمیری عوام سے یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ ان کا اصل نمائندہ کون ہے۔ ایسے کسی ریفرنڈم یا انتخاب کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ کشمیری محنت کش اور نوجوان سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بھارتی کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات ہے۔ سیاسی اقتدار محض میونسپلٹی کے اختیارات تک محدود ہے۔ بھارتی جارحیت کے خلاف ابھرنے والی 1990ء کی دہائی کی تحریک کی ناکامی میں یہ بڑا عنصر تھا کہ خطے کی مختلف ریاستیں اس کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی تھیں۔ اس سے بھارتی جارحیت کو ہی فائدہ پہنچا۔
کئی مرتبہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے حکمران اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ برطانوی سامراج بھی اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے یہ نفاق کا سلگتا زخم پیچھے چھوڑ گیا تھا‘ تاکہ ''تقسیم اور حاکمیت‘‘ کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔ وہ آج تک جاری ہے۔ پچھلے 67 سالوں کے تجربات اور واقعات گواہ ہیں کہ یہ مسئلہ نہ تو قومی جنگ سے حل ہو سکتا ہے اور نہ ہی مذہبی جنگ سے۔ حکمرانوں کی سفارتی کوششیں اور اقوام متحدہ کی ثالثی ہمیشہ شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ ان مذاکرات کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ دونوں جانب کے سرمایہ دار حکمران طبقات کے مفادات ہیں۔ کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کش طبقاتی جدوجہد اور انقلابی تحریک سے ہی اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں۔
'' آزادی فلسطین‘‘ کا بھی کیا درد ناک حشر اس اقوام متحدہ نے کیا ہے۔ آج 1948ء کی نسبت مسئلہ فلسطین کہیں زیادہ پیچیدہ اور کٹھن ہو چکا ہے۔ یہاں بھی قومی جنگوں‘ مسلح جدوجہد اور اقوامِ متحدہ و امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات نے آزادی کی بجائے فلسطین کے عوام کو ذلت، رسوائی، بھوک اور بربادی ہی دی۔ یہاں بھی حل صرف ایک طبقاتی جنگ اور انقلاب ہے جس کی ایک جھلک اسرائیل میں چلنے والی اگست 2011ء کی عوامی تحریک میں ساری دنیا نے دیکھی تھی۔ فلسطین پر اقوام ِ متحدہ کی 241 قراردادیں بھی ناکام اور نامراد ہی ثابت ہوئیں ہیں۔
اقوام متحدہ کا اربوں ڈالر کا بجٹ ہے۔ یہ بجٹ امریکہ جیسے سامراجی ممالک ہی دیتے ہیں اور پھر اس ''سرمایہ کاری‘‘ کو اپنے مالیاتی اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں یعنی ''جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘‘۔ ورلڈ بینک کا کام ہی پوری دنیا میں نجکاری جیسی نیولبرل اصلاحات اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی ڈاکہ زنی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ لینن نے اس سے پیشتر بننے والے ایسے ہی ادارے ''لیگ آف نیشنز‘‘ کو ''چوروں کا باروچی خانہ‘‘ قرار دیا تھا۔ آج تقریباً ایک صدی بعد دنیا بھر میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی کروانے والے طبقے کے اس ادارے کو کن کا باورچی خانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟