یکم اکتوبر1965ء کو علی الصبح انڈونیشیا کے جزائر میں بہیمانہ قتل ِ عام شروع ہوا ۔امریکی سامراج کی پشت پناہی سے فوجی جرنیلوں اور ملائوں کی جانب سے کمیونسٹ تحریک کے خلاف اس خونریز رد انقلاب کا مقصد سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے اس ملک میں سوشلسٹ انقلاب کو کچلنا تھا۔ پچاس برس قبل انڈونیشیا میں ہونے والی بربریت کی ''تحقیقات‘‘ کے لئے بننے والے بین الاقوامی عدالتی ٹربیونل کا اجلاس اگلے ماہ ہیگ میں ہوگا۔ ہیگ ہالینڈ کا دارالحکومت ہے ، جس نے صدیوں انڈونیشیا پر حکومت کی۔ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ جکارتہ میں نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ جنرل سوہارتو کی آمریت کے خاتمے کے سترہ برس بعد بھی انڈونیشیا پر اسی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کی حکمرانی ہے جو اس بربریت میں ملوث تھی۔
پاکستان میں 1960ء اور70ء کی دہائیوں میں تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کے طلبہ کے خلاف فاشسٹ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پرست جماعتیں اور ان کی متشدد طلبہ تنظیمیں یہ نعرہ لگاتی تھیں کہ ''ہم پاکستان کو انڈونیشیا بنا دیں گے‘‘۔ان دنوں جب سیاست میں نظریات کو کسی حد تک فوقیت حاصل تھی اور کارپوریٹ سرمائے اور کالے دھن کے ہاتھوںطلبہ اور عوامی سیاست سے نظریات کا خاتمہ نہیں ہوا تھا تو یہ بنیاد پرست کم از کم دیانت داری سے یہ اعتراف تو کرتے تھے کہ امریکی سامراج پوری دنیا میں ان کا آقا اور ان داتا ہے۔
انڈونیشیا میں ہونے والے جبر و بربریت کا اندازہ سی آئی اے کی ڈی کلاسی فائڈ فائلوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔خود سی آئی اے کے مطابق سو ہارتو کا کُو (Coup)''بیسویں صدی کے بد ترین قتلِ عاموں میں سے ایک تھا‘‘۔قتل و غارت میں بنیادی کردار فوج کا تھا لیکن فوجی جرنیلوں اور سامراجیوں کو 'نہضۃالعلما‘ جیسی مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کے مسلح گروہوں کی پوری معاونت حاصل تھی، جو پاکستان کی جماعت اسلامی جیسی ہی تنظیم ہے۔کمیونسٹوں اور ان کے ہمدردوں کو قتل کرنے میں پیش پیش سپیشل فورسز کا سربراہ کرنل سارو ایدھی گزشتہ برس تک صدر رہنے والے سوسیلو بامبینگ یودھویونو کا سسر تھا۔انڈونیشیا میں فوج بدستور بہت زیادہ طاقتورہے اور گزشتہ نصف صدی سے، 1965ء کے قتل عام میں ان کی معاونت کرنے والے بہت سے مسلح گروہ اور افراد آج بھی ہر طرح کی پکڑ سے آزاد ہیں۔سچ کریدنے کی کوشش کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں ملنا عام ہے۔موجودہ صدر جوکو ویدودو نے ریاست کی جانب سے 1965ء کے قتلِ عام پر کم از کم معافی مانگنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اب وہ اس موقف سے بھی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
ساری دنیا کے محنت کش عوام سرمایہ داروں اور ان کی ریاست کی وحشت سے بخوبی واقف ہیں۔تاریخ کا پہلا پرولتاری انقلاب 1871ء میں پیرس میںآیا جہاں15مارچ سے28مئی تک استحصال زدہ اکثریت نے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی اقلیت پر ستر روز تک حکومت کی تھی۔لیکن اس پرولتاری انقلاب کو بے رحمی سے خون میں نہلا دیا گیا۔اٹھارہ لاکھ کی آبادی کے شہر میں اسی ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔یعنی پیرس کی4.4فیصد آبادی کا قتلِ عام کیا گیا۔1965-66ء میں انڈونیشیا کی آبادی تقریباً9کروڑ تھی۔اگرچہ اس بارے میں مختلف اندازے پیش کئے گئے ہیں لیکن فوجی آپریشن کے کمانڈر جنرل ساروایدھی کے اپنے اعتراف کے مطابق تقریباً30لاکھ لوگ قتل کیے گئے جو آبادی کا3.3فیصد بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ ''جمہوریت‘‘ اور ''انسانی حقوق‘‘ کے عالمی ٹھیکیدار امریکی سامراج کے ایما پر کیا گیا۔
انقلاب کوئی واقعہ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ سماجی عمل کا نام ہوتا ہے جس کا دورانیہ بعض اوقات بہت طویل بھی ہوسکتا ہے۔انڈونیشیا کے انقلاب کا آغاز17اگست1945ء کو ہوا اور اگلے بیس برس تک اس میں کئی نشیب و فراز آئے۔تاہم اس عرصے میں کوئی بھی گروہ یا طبقہ حتمی طور پر فتح یاب نہ ہو سکا۔سرمایہ دار طبقے میں اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ محنت کش عوام پر اپنا تسلط قائم کر سکے، دوسری جانب محنت کشوں کی قیادت بھی اپنی نظریاتی کمزوریوں اور ٹھوس لائحہ عمل کے فقدان کے باعث اقتدار حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔اس تعطل کی وجہ سے عوامی رہنما سوئیکارنو بر سرِ اقتدار آ گیا۔ انقلابی نعرہ بازی اور سوشلسٹ لفاظی کے باوجود ، دوسرے عیار اصلاح پسندوں کی طرح سوئیکارنو نے کئی چالیں چلیں لیکن سوشلزم کی جانب پیش رفت کا اہم ترین فریضہ ادا نہیں کیا، جو سرمایہ دارانہ ریاست کو گرا کر اس کی جگہ ایک نئی مزدور ریاست قائم کرتا۔کارل مارکس اور فریڈرک اینگلزکے تھیسز کے مطابق آخری تجزیے میں ریاست ''مسلح افراد کے جتھوں‘‘ پر مشتمل ہوتی ہے۔فیصلہ کن موڑ پر ''سپریم لیڈر‘‘ سوئیکارنو کا ریاست پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔سوئیکارنو کسی بھی اصلاح پسند کی طرح سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ وہ واقعی اقتدار کا مالک ہے۔ بد قسمتی سے محنت کش عوام کی جماعت 'کمیونسٹ پارٹی آف انڈونیشیا‘ پی کے آئی (جو اس وقت روس اور چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی تھی ) سوئیکارنو کی پیروی میںاس کی اصلاح پسندی کو سہارا دیتی رہی۔پی کے آئی کا موقف تھا کہ سرمایہ دارانہ ریاست میں سے ''عوام دشمن‘‘ عناصر کو بتدریج نکال کر ان کی جگہ ''عوام دوست‘‘ عناصر کوشامل کر کے اسے ''عوامی ریاست‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔تمام اصلاح پسند لیڈروں کو یہی غلط فہمی ہوتی ہے کہ اگر وہ زیادہ سیٹیں جیت کر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لیں توسرمایہ دارانہ ریاست ختم ہو جائے گی اور محنت کش بر سرِ اقتدار آ جائیں گے۔لینن نے اپنی کتاب''ریاست اور انقلاب‘‘ میں اس بیہودہ خیال کو بے رحم تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لینن نے ٹھوس دلائل اور تاریخی حقائق کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ اور جبر و استحصال سرمایہ دارانہ ریاستی مشینری کے خمیر میں شامل ہے اور سوشلسٹ انقلاب کی حتمی کامیابی کے لئے ایسی ریاست کا انہدام ضروری ہے۔لینن نے یہ شہرہ آفاق کتاب نومبر 1917ء کے انقلاب سے چند ماہ قبل انڈر گرائونڈ رہتے ہوئے لکھی تھی، جس کا مقصد بالشویک پارٹی کو، اقتدار پر قبضہ کر کے سرمایہ دارانہ ریاست کی تباہی اور ایک نئی مزدور ریاست کے قیام کے لیے نظریاتی اور تنظیمی طور پر تیار کرنا تھا۔لیکن سٹالن ازم کی ''مرحلہ وار انقلاب‘‘ کی تھیوری میں غرق پی کے آئی کی قیادت نے اپنے ممبران کو کبھی اس کام کے لیے تیار ہی نہیں کیا تھا۔اس تھیوری کے مطابق انقلاب کا کردار 'بورژوا جمہوری‘ ہو گا چنانچہ اس کا فریضہ مزدور ریاست کی بجائے عوامی ریاست کی تشکیل ہوگا جس کا طریقہ اہلکاروں کی بتدریج تبدیلی ہے۔ پی کے آئی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ڈی این آئیڈٹ اور دوسرے لیڈران کا موقف تھا کہ طبقاتی جدوجہد، قومی جدوجہد کے آگے ثانوی حیثیت رکھتی ہے جوکہ مارکسزم کی اساس سے کھلا انحراف تھا۔
رجعتی جرنیل اور سرمایہ دار بخوبی جانتے تھے کہ انہیں طبقاتی جدوجہد کا سامناہے۔تنائو بڑھتا گیا اور کمیونسٹوں اور فوج کے بنیاد پرست افسران کے درمیان شدید تصادم ہونے لگے۔یاد رہے کہ انڈونیشیا کی فوج کے 50فیصد سے زائد سپاہی اور جونیئرافسران پی کے آئی کے ہمدرد یا باقاعدہ ممبر تھے۔یکم اکتوبر 1965ء کو پی کے آئی کے ہمدردافسران کے ایک گروپ نے چھ فوجی جرنیلوں کو قتل کر دیا، یہ فوجی کُو (Coup)کا آغاز تھا جسے ''30ستمبر کی تحریک‘‘ کا نام دیا گیا۔کُو کامیاب نہ ہو سکا لیکن اسے جواز بناتے ہوئے جنرل سوہارتو نے پی کے آئی کے خلاف امریکی و برطانوی خفیہ ایجنسیوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کی معاونت سے قتل عام کا آغاز کر دیا۔2012ء میں ڈنمارک کے ڈائریکٹر 'جوشوا اوپن ہائمر‘ نے ایک انڈونیشیائی باشندے (جس نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی) کے تعاون سے ان خونی واقعات کی تفصیل پر ڈاکومنٹری فلم The Act of Killingریلیز کی ہے جس میں رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات ،قتل عام میں ملوث افراد نے خود کئے ہیں۔
سوہارتو کی ظالمانہ آمریت کے ہاتھوں نسلیں برباد ہوئیں۔ اٹھائیس سال بعد1998ء میں ایک نئی عوامی بغاوت کے ذریعے سوہارتو کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔لیکن نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی طاقت کو 'جمہوریت‘ کے نام پر زائل کر دیا گیا۔اس عظیم تحریک کے سترہ سال بعد آج انڈونیشیا کے عوام غربت، بے روزگاری،ذلت اور محرومی کے ہاتھوں برباد ہیں۔مالدارطبقات کی جمہوریت استحصالی سرمایہ داری کو قائم رکھنے کا محض ایک ہتھکنڈہ ہے۔آنے والے دنوں میں نئی بغاوتیں ابھریں گی۔ انڈونیشیا کے عوام کے لیے ان کے پُرکھوں کا خون انقلاب کے اسباق سمیٹے ہوئے ہے!