امریکی ریاست کیلیفورنیا کے قصبے سان برناڈینو میں ہونے والی وحشت ناک فائرنگ سے 14 مزدور جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے۔ یہ محنت کش ایک ایسے ادارے میں کام کرتے تھے جو نچلی پرتوں سے تعلق رکھنے والے معذوروں کے لیے فلاح کی آماجگاہ تھی۔ یہ جو کام کر رہے تھے انسانیت کو اس پر ناز ہونا چاہیے تھا۔ مختلف رنگوں‘ نسلوں اور مذہبوں کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے ان معصوم مزدوروں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی روزی کے حصول کے لیے اس خطے میں مقیم تھے۔ جس جوڑے نے ان کا قتل عام کیا اس کا تعلق پاکستان سے بتایا جا رہا ہے۔ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ واردات میں کسی پاکستانی نژاد کے ملوث نہ ہونے سے لاکھوں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں نے سکھ کا سانس لیا تھا‘ لیکن امریکہ میں ہونے والی اس واقعہ میں پاکستانی نژاد جوڑے کے ملوث ہونے سے امریکہ اور یورپ میں موجود عام پاکستانیوں میں پہلے سے موجود خوف اور عدمِ تحفظ کا احساس کہیں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ان کی پہلے سے ہی تلخ زندگیوں میں مزید مشکلات اور مصائب کا اضافہ ہو جائے گا۔
1950ء سے1980ء تک کی دہائیوں کا وہ وقت بھی تھا‘ جب برطانیہ یورپ اور امریکہ میں بغیر ویزوں کے پاکستانی محنت کش بغیر کسی رکاوٹ کے جاتے تھے۔ اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے عروج کے عہد میں تیزی سے پھیلتی مغربی معیشتوں اور بڑھتی ہوئی صنعتوں کے لیے مغربی سامراجی حکمرانوں کو مزید لیبر کی ضرورت تھی‘ اس لیے ان کو ملازمتیں بھی آسانی سے ملتی تھیں اور اُجرتیں بھی اچھی خاصی ہوا کرتی تھیں۔ یہ تارکینِ وطن بہت حد تک خوشحال تھے‘ ان کی بھیجی رقوم سے ان کے خاندانوں کو بھی کسی حد آسودگی میسر آئی تھی۔ ان کی سوچ کہیں زیادہ ترقی پسند‘ ان کے رویّے زیادہ کھلے اور جن معاشروں میں وہ قیام پذیر ہوتے تھے‘ ان سے بیگانگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ برطانیہ اور یورپ کی سیاست میں حصہ لیتے تھے زیادہ تر مزدوروں کی بائیں بازو کی پارٹیوں اور یونینوں کے متحرک ممبران بھی تھے‘ لیکن 1970ء کی دہائی کے اواخر میں جب سے مغربی سرمایہ داری کا عروج‘ زوال پذیر ہونے لگا تو بتدریج ان کی یہ حیثیت بھی اس معاشی بحران کی زد میں آنے لگی تھی۔ جوںجوں بحران گہرا ہوتا چلا گیا۔ تارکینِ وطن مزدوروں کی زندگیاں زیادہ تکلیف دہ‘ معاشی و سماجی گھٹن اور بیگانگی کا شکار ہونا شروع ہو گئیں۔ دوسری جانب پاکستان میں تیزی سے گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی آبادی میں بیروزگاری‘ غربت اور محرومی کے ہاتھوں لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کے اندر اس ملک سے نکل جانے‘ اور بیرونِ ملک ملازمت کی خواہش سلگنے لگی‘ لیکن 2008ء کے سرمایہ داری کے سب سے بڑے کریش کے بعد یہ صورتحال شدت سے اور معاشی بدحالی اور سماجی بیگانگی میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ایک طرف یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کی قوتوں نے سیاسی غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا‘ اور اصلاح پسندی کے تاریخی استرداد سے نسل پرستی اور قلیل حد تک فسطائی منافرت کے رجحانات بھی ابھرے‘ جن کا مذہبی پیشوائوں اور ملائوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس سماجی گھٹن سے پاکستانی کمیونٹی زیادہ تنگ نظری اور مذہبی گروہ بند ی کا شکار ہو گئی۔ مذہبی قدامت پرستی اور سماجی رجعتیت کے رجحانات حاوی ہونا شروع ہو گئے۔ زیادہ منفی اثرات نوجوانوں پر پڑے۔ بعض مذہبیت کے جنون میں اس قدر مبتلا ہوئے کہ اُنہیں یہ نفسیات مذہبی دہشت گردی کی کھائی میں دھکیلنے لگی‘ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جس پاکستانی جوڑے نے اس ہولناک دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے‘ وہ صرف اس معروضی عمل کا نتیجہ تھا‘ بلکہ یہ افراد دہشت اور درندگی کی حیوانیت کے مرتکب ہوئے ہیں‘ کیونکہ لاکھوں ایسے پاکستانی محنت کش تارکین وطن بھی ہیں‘ جو اپنے حقوق کے لیے یورپ اور امریکہ کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ تعصب کے زہریلے وار برداشت کرتے ہیں‘ لیکن پھر بھی رنگ نسل اور مذہب کے تعصب کا شکار ہونے کی بجائے اس کے خلاف واحد لڑائی‘ یعنی طبقاتی جدوجہد میں تمام مشکلات برداشت کرتے ہوئے بھی شریک ہیں‘ لیکن یہ دہشت گردی ہمیشہ عام غریبوں کو ہی کیوں نشانہ بناتی ہے؟ غریب امریکی ہو یا پاکستانی یورپی ہو یا افریقی ان سب کا دکھ ایک ہے‘ مسائل ایک ہیں اور ان کا حل بھی صرف اس نظام کا خاتمہ ہے جو معاشرے کو ان زہریلے ہتھکنڈوں سے چاروں طرف سے برباد کر رہا ہے۔ اس درندگی کا کوئی جواز خود ایک جرم بن جاتا ہے‘ لیکن امریکی اور یورپی سامراجی حکمران اس دہشت گردی کو سب سے زیادہ شدت سے استعمال کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ پچھلے 70 سال میں ان سامراجیوں نے محنت کشوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرتوں سے دراڑیں ڈالنے کے لیے بہت ہی زیادہ قوت اورسرمایہ استعمال کیا ہے۔ یہ سامراجی حکمران اپنے مالی اور مادی مفادات کے لیے شام‘ عراق‘ فلسطین‘ افغانستان‘ مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے خطوں میں جارحیتوں اور معصوم انسانوں کا قتلِ عام اور آگ اور خون کا کھلواڑ کرتے
رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں یہی حکمران اپنے معاشروں کے محنت کشوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لیے مذہبی دہشت گردی اور جنونیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان ملکوں کے سرمایہ دار تارکینِ وطن محنت کشوں کی اجرتیں کم اور کام کے اوقات زیادہ کرکے اپنے منافعوں کی شرح میں بے بہا اضافہ کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات اور قتل و غارت گری سے عام محنت کشوں اور غریبوں میں جو خوف وہراس پیدا ہو جاتا ہے اس سے طبقاتی جدوجہد کمزور پڑ جاتی ہے۔ وقتی طور پر مزدور تحریک میں پسپائی آجاتی ہے۔ اس عمل سے وہ مزدوروں کی نسلوں سے کی جانے والی جدوجہد سے حاصل سماجی رعایتوں کو کاٹتے ہیں اور فلاح ریاستی کو بتدریج مسمار کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ سامراجی حکمران دہشت گردی کے خلاف جتنا واویلا کرتے ہیں‘ اس کا مقصد معاشرے میں مزید خوف پیدا کرکے اپنے معاشی و سیاسی جبر کو زیادہ شدید کر دینا ہوتا ہے۔ مذہبی دہشت گردی آخری تجزیے میں حکمران سرمایہ دار طبقات کا ایک اہم ترین استحصالی اوزار بن کر رہ جاتی ہے۔ انتہا پسند نہ صرف ان تارکین وطن کی تنگ کمیونٹیوں میں مذہبی تعصبات اور منافرتوں کا زہر پھیلا کر ان کے پیر بن جاتے ہیں‘ بلکہ بے پناہ مالی اور مادی مفادات حاصل کرکے راتوں رات امیر بھی ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سامراجیت اور ملائیت ایک ہی سکے کے دو رخ محسوس ہوتے ہیں۔1950ء کے بعد سرمایہ داری کے عروج کی معیشتوں میں بیرونی ممالک سے آنے والے مزدوروں کی ضرورت تھی؛ چنانچہ ان کے ساتھ مثبت اور تہذیب یافتہ برتائو بھی کیا جاتا تھا۔ آج صورتحال اس کے الٹ ہو چکی ہے۔ اس نظامِ زر کے یورپ اور
امریکہ میں بحران سے بیروزگاری اور غربت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ریاستیں کنگال ہو چکی ہیں۔ قرضوں سے ان کی مالیاتی معیشتیں لڑکھڑا رہی ہیں‘ کھپت سکڑ گئی ہے اور صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ بیروزگاری اور غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ سماجی زندگی تلخ ہونے سے تحریک کے فقدان میں جو نفسیاتی پراگندگی جنم لیتی ہے اس میں پاکستانی اور دوسرے تارکین میں ہیرا پھیری‘ خُرد برد‘ فراڈ‘ کرپشن اور دوسرے جرائم سے مالیاتی حالات بہتر بنانے کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے منافعوں میں اضافے ہوتے ہی جا رہے ہیں اور یہ سرمایہ دار ریاستیں سیٹھوں کی شرح منافع کو قائم رکھنے کے لیے عوام کا خون نچوڑ کر دولت ان پر لٹا رہی ہیں۔ ایسے میں ان کو بار بار محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں اور بغاوتوں کا سامنا ہے۔ امریکہ میں آکوپائی وال سٹریٹ سے لے کر یورپ بھر میں بائیں بازو کا نیا ابھار ان کے نظام کے لیے خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اس صورتحال میں دوسرے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرتوں کے اس اوزار کو وہ زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں‘ لیکن اس سے جنم لینے والی دہشت گردی سب سے زیادہ ان مذاہب یا ممالک کے محنت کش تارکینِ وطن کے لیے عذاب بنتی ہے جن سے ان دہشت گردوں کا تعلق ہوتا ہے۔ پہلے پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی امیگریشن افسران کے تیور بدل جاتے تھے اب یہ تعصب اور سماجی منافرت بسوں‘ ٹرینوں‘ سڑکوں اور بازاروں میں اس رنگ اور نسل کے افراد کی جانب زیادہ بڑھ جائے گی۔ مذہب کو ایک ذاتی عقیدے کے بجائے سیاست اور دولت کے لیے استعمال کرنا اور پھر دہشت گردی کی ترغیب دینا مسلمان اور پاکستانی تارکینِ وطن پر بھیانک ستم ڈھانے کا جرم بن جاتا ہے۔ لیکن یہ مذہبی جنونیت اور دہشت گردی اس نظامِ زر کے ناسور بن جانے کی علامت ہے۔ ناسور کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔