"DLK" (space) message & send to 7575

سرمایہ کاری کے کھوکھلے دلاسے!

ہفتہ 9 اپریل کو میاں شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر اپنے پرجوش انداز سے ا س ملک کے محروم باسیوں کو یہ دلاسہ دیا کہ'' پاک چین معاشی راہداری‘‘ کے منصوبے سے پاکستان کا مستقبل روشن ہوجائے گا۔ میاں صاحب کے طبقے کے تو وارے نیارے ہیں اور جب تک یہ نظام زر قائم ہے ان کے پاس دولت کے حصول کا کوئی نہ کوئی چور دروازہ موجود رہے گا‘ لیکن عوام کو یہ جو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں اس حوالے سے یہاں کے دانشور اور تجزیہ کار‘ چین کے عوام ، معیشت اور محنت کشوں کی حالتِ زار ، مزاحمتی تحریکوں( جو چین میں زور شور سے جاری ہیں) کا کم ہی ادراک رکھتے ہیں۔ چین میں1978ء سے جب سرمایہ دارانہ استواری کا رجعتی عمل شروع ہوا تو اس میں زیادہ تر شرح نمو اور چین کے 40کروڑ کی تعداد تک پہنچ جانے والے درمیانے طبقے کے بارے میں شور اور تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں لیکن چین کے92 کروڑ عوام جو محنت کش بھی ہیں اور بے روزگار نوجوان بھی ‘ان کی اوسط یومیہ آمدن 5ڈالر یومیہ سے بھی کم ہے۔ ان کا گزارہ کتنا مشکل سے ہوتا ہے اس کا اظہار اب چین میں بڑھتی ہوئی بدحالی اور مزاحمتی تحریکوں سے ہونا شروع ہو گیا ہے۔ چین کی معیشت کی تیز تنزلی پر نہ صرف چین کے ارب پتی حکمران تشویش کا شکار ہیں اور جبر کے نئے نئے ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں بلکہ مغربی تجزیہ نگار اور عالمی سرمایہ داری کے ماہرین بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ 2008ء کے عالمی کریش کے بعد چین کی درآمدات یورپ اور امریکہ کی بھاری منڈیوںکے سکڑنے سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ 2015ء میں پہلی مرتبہ چین کی14فیصد سے گر کر 6.8 فیصد تک پہنچ جانے والی شرح نمو سے ہندوستان کی7.5 فیصد شرح نمو 
زیادہ رہی ہے۔ چین آج کے عالمگیر سرمایہ کے نظام میں بھلا عالمی بحران سے کیسے بچ سکتا تھا۔ پاکستان اور دوسرے ممالک میں اس کیCPEC جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری اپنے منافعوں کی شرح کو برقرار رکھنے کی ایک سعیٔ ناکام ہے۔
ٓٓٓسرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ عالمی بحران وقت کے ساتھ زائد پیداواری صلاحیت کا بحران بن چکا ہے۔ گودام اجناس سے بھرے پڑے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی گر رہی ہیں ‘ اس کے باوجود لوگوں کی قوت خرید میں سکت نہیں ہے۔ایسے میں سرمایہ دار صنعتیں بند کررہے ہیں یا پھر منافعوں میں اضافہ برقرار رکھنے کے لیے محنت کشوں کی اجرت مسلسل گرا رہے یا پھر انہیں فارغ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری مزید بڑھ رہی ہے۔ اس سے بحران مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے سیاسی اور سماجی نتائج بھی نکل رہے ہیں۔ 
چین میں معاشی زوال کی وجہ سے چین کی سٹیٹ کونسل نے اعلان کیا ہے کہ سال 2016ء میں وہ فولاد کی پیداوار میں 100ملین ٹن سے 150ملین ٹن کی کمی کرے گی۔ اس کمی کے نتیجے میں چین میں تقریباً چار لاکھ محنت کش بے روزگار ہوجائیں گے۔ پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ مغربی منڈیوں کا سکڑنا اور داخلی طور پر چین میں اس پیداوار کو جذب کرنے کی مزید صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت چین کی فولاد کی صنعت کو 340ملین ٹن زائد پیداوار کا سامنا ہے۔ چین میں فولاد اور لوہے کی صنعت میں ساٹھ لاکھ سے زائد مزدور کام کرتے ہیں جو مجموعی صنعتی 
ورک فورس کا تقریباً چار فیصد ہے۔ سرمایہ دارانہ پالیسی سازوں میں قنوطیت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے فولاد کی صنعت میں ایک 'آئس ایج‘ کی پیش گوئی کی ہے۔ ورلڈ سٹیل ایسو سی ایشن کے مطابق ستمبر 2015ء میں عالمی سطح پر فولاد کی پیداوار میں 3.7فیصد کمی واقع ہوئی ۔ اس کمی کا مطلب ہزاروں کارخانوں کی بندش اور لاکھوں مزدوروں کی بیروزگاری ہے۔فولاد کی قیمتوں میں2008ء کی نسبت 70فیصد کمی واقعہ ہوچکی ہے ۔ یہ 1,113 ڈالر فی ٹن سے گر کر 321ڈالر فی ٹن ہوچکی ہے۔
پچھلے دس سال میں چین کی عالمی منڈی میں سٹیل کے شعبے میں حصہ داری 10فیصد سے بڑھ کر 50فیصد ہوگئی ہے۔ اس کی فولاد کی سالانہ پیداواری صلاحیت 1.1ارب ٹن سے زیادہ ہے جو ظاہر ہے کہ اس کی اپنی داخلی منڈی میں کھپ نہیں سکتی۔ اس زائد پیداوار کی وجہ سے 2014ء سے اب تک سٹیل کی قیمت میں 40فیصد کمی آئی ہے۔ یہ زائد پیداوار یورپی یونین کی سٹیل کی طلب کا دوگنا ہے۔ 
فولاد کی صنعت تمام تر صنعتوں کی بنیاد ہے۔ مینوفیکچرنگ کے تمام شعبے اسی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس صنعت میں زوال کا مطلب باقی ملحقہ صنعتوں میں زوال ہے۔ عالمی معیشت میں اس بحران کی وجہ سے چین کی معیشت کی کیفیت ایک ٹائم بم کی طرح ہے اور چینی بیوروکریسی کے اس بحران کو ٹالنے کے لیے کئے جانے والے اقدامات سے یہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ رائٹرز کے مطابق چین اگلے دو سالوں میں ری سٹرکچرنگ کے نام پر پانچ سے چھ ملین روزگار ختم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ چینی حکام کے مطابق یہ کیفیت 'عارضی‘ ہوگی لیکن معروضی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ سرمائے کے پالیسی ساز کسی معاشی بحالی کے امکان سے مکمل مایوس ہیں۔ تبھی تو وہ 'سیکولر جمود‘ (یعنی لمبے عرصے تک معاشی جمود) کی بات کرتے ہیںجو ایک تباہ کن صورت حال ہوگی۔ 
یہ صورت حال صرف ایک صنعت یا ایک ملک تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مظہر ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی دوڑ میں انسانیت کا وسیع حصہ بربادیوں اور غربت کی اتاہ گہرائیوں میں غرق ہورہا ہے جبکہ دولت کم سے کم ہاتھوں میں مرکوز ہورہی ہے۔ کھربوں ڈالر بینکوں میں ایسے ہی پڑے ہوئے ہیں ان کو کسی طرح کے پیداواری عمل میں خرچ نہیں کیا جا رہا ہے اور کیوں پیداواری عمل میں خرچ کریں جبکہ مارکیٹ پہلے سے ہی اجناس سے لبریز ہے اور ہر جگہ زائد پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ حقیقت ہے کہ مزید پیداوار سے خاطر خواہ منافع حاصل نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ سماج میں تمام تر اجناس کی اب بھی آبادی کی وسیع اکثریت کو ضرورت ہے لیکن سرمایہ داری کی ہوس زر کی نفسیات لوگوں کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہے کیونکہ یہ نظام انسانی ضرورت کی بجائے منافع کے تابع ہے۔ 
زائد پیداواری صلاحیت کے باوجود سماج میں آج بھی تعلیمی اداروں، خوراک، ہسپتالوں، رہائشی مکانات ، تفریح گاہوں، مناسب ذرائع آمد و رفت اور سماجی انفراسٹرکچر وغیرہ کی ضرورت ہے‘ لیکن ان پیداواری قوتوں کی انفرادی ملکیت انہیں سماج کے لیے استعمال نہیں ہونے دے رہی۔یوں سرمایہ دارانہ نظام ذرائع پیداوار کی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے جو شرح منافع کی بندش کی وجہ سے ہزاروں سال کی انسانی تہذیب کی حاصلات کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔
پچھلے20سالوں میں چین میں جب بھی بیروزگاری بڑھتی تھی تو یہ بے روزگار مزدور کھیتی باڑی کے لیے دیہی علاقوں میں واپس جاتے تھے۔ لیکن اس عرصے میں جس انداز اور شدت سے شہروں کا پھیلائو ہوا ہے اس سے قابل کاشت زرخیز زمینوں کو یہ بے ہنگم تعمیرات کچل اور نگل گئی ہیں۔
چین کے سٹیل کی فیکٹری سے بیروزگارہونے والے مزدور شیائوگوفینگ نے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا '' اب تو میرے پاس واپس جا کر کھیتی باڑی کے لیے زمین بھی نہیں بچی‘‘فیکٹری میں ہمیں یہ سبق دیا جاتا تھا کہ اپنے وطن سے محبت کرو لیکن میں جب اپنے چھوٹے بچے کو دن میں مشکل سے صرف ایک وقت کا کھانا دے سکتا ہوں کیونکہ غذائی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں تو یہ اب میرے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔چین میں ایسے مزدوروں کی تعداد کروڑوں میں بڑھ رہی ہے اور اگر چینی سرمایہ داری چین کے عوام اور محنت کشوں کو خوشحالی کی بجائے غربت اور بھوک دے رہی ہے تو پاکستان کے محنت کش عوام کو وہ کیسے خوشحال اور ترقی یافتہ مستقبل دلواسکتی ہے! لیکن جہاں چین کے محنت کشوں کے لیے جبرواستحصال ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے وہاں یہ غم و غصے کا لاوا پاکستان کے سماج میں بھی بھڑک رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں