"DLK" (space) message & send to 7575

ترکی: ناکام فوجی بغاوت کے مضمرات … (2)

اردوان اور اس کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کا ابھار بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی کے حکمران طبقات ایک جدید صنعتی معاشرہ بنانے اور قومی جمہوری انقلاب کے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ سماجی اور معاشی حالات میں زوال سے ترکی کا سیکولرازم بھی ہوا ہو گیا ہے۔ اردوان کی حکومت کے پہلے نو سالوں میں خواتین کے قتل کی شرح میں 1400 فیصد اضافہ ہوا۔ اس روز افزوں مردانہ بالادستی کے سماج میں بنیاد پرست اور قدامت پسند مردانہ شائونسٹ دھڑلے سے غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل کر رہے ہیں۔ 2002ء میں حکومت میں آنے کے بعد اردوان نے بیوروکریسی اور ریاست کے اداروں میں ہر حد تک دخل اندازی کی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے جماعت اسلامی نے ضیاالحق کے گیارہ سالہ تاریک دور میں پاکستان میں کیا اور اس نفرت انگیز اور رجعتی عمل کے نتائج آج بھی ہمیں بنیاد پرستی، رجعت، قدامت پرستی، دہشت گردی اور پراگندگی کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ترکی میں AKP کی حکومت نے تعلیمی نصاب میں رجعت اور انتہاپسندی کو شامل کیا تاکہ آنے والی نسلوں کے شعور کو بھی پراگندہ کیا جا سکے۔ بنیاد پرست رجحان رکھنے والوں کو مواقع دیے جا رہے ہیں کہ وہ سائنسی علم اور قابلیت کے بغیر ہی ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں سکالرشپ لے کر گھسیں اور مراعات حاصل کرکے اہم پوزیشنوں اور عہدوں پر آئیں۔ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت بھی نظام تعلیم اور نصاب کے ساتھ وہی کر رہی ہے جو ترکی میں AKP اور پختونخوا میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف والے کر رہے ہیں۔ اردوان اور اس کے خاندان نے اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں پر تسلط قائم کیا اور وہ انہیں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصب پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ چند حقائق ترکی میں سرمایہ داری کے تحت کمال اتاترک کے سیکولر انقلاب کی تاریخی ناکامی کو واضح کرتے ہیں۔ مصطفی کمال پاشا دراصل ایک 'سیکولر جمہوری آمر‘ تھا۔ 
ترک کمیونسٹ پارٹی باکو (سوویت یونین) میں 1919ء میں قائم ہوئی۔ ترکی میں اس وقت پہلے سے ہی جنگِ آزادی چل رہی تھی اور ایک بورژوا انقلاب کی طرف بڑھ رہی تھی جس کی قیادت منتشر عثمانی فوج (جسے پہلی جنگ عظیم میں شکست ہو گئی تھی اور فاتحین نے انہیں غیر مسلح کر دیا تھا) کے ینگ آفیسرز کر رہے تھے۔ ترک کمیونسٹوں کی جنگ آزادی میں مداخلت اور نئی ترک ریاست کے قیام کے عمل میں شرکت کی پہلی کوشش جان لیوا ثابت ہوئی۔ جنوری 1921ء میں ترکی کے شمال مشرقی شہر تربزن میں ترک سرزمین میں داخل ہونے پر ہی کمیونسٹ پارٹی کی تقریباً پوری قیادت کو ختم کر دیا گیا۔ انہی مہینوں کے دوران انقرہ میں نیشنل اسمبلی کا لیڈر (اور ریگولر فوج کا کمانڈر ان چیف) مصطفی کمال کسانوں کی گوریلا فوج کو ختم کرنے میں مصروف تھا‘ جو اس کی حکومت سے آزادانہ طور پر قائم ہوئی تھی تاکہ یونانی قبضہ گیروں اور ان کے مقامی گماشتہ جاگیرداروں کے خلاف لڑ سکے۔
تمام تر وحشیانہ جبر، قیادت کی نظریاتی غداریوں اور غلطیوں کے باوجود پچھلی ایک صدی سے ترکی میں کمیونسٹ اور بائیں بازو کی قوتیں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دانشور حلقے فوجی بغاوتوں اور سویلین جمہوری حکومت کے بارے میں تو بات کرتے ہیں لیکن کارپوریٹ میڈیا جس چیز کی بات نہیں کرتا وہ ترکی کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کی درخشاں تاریخ اور مزدوروں اور نوجوانوں کی بائیں بازو کی تحریکیں ہیں۔ فوجی آمریتوں اور جمہوری حکومتوں کا ہدف ہمیشہ بایاں بازو، ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ تحریکیں رہی ہیں۔ حتیٰ کہ 2013ء کی غیزی پارک کی تحریک اور اردوان کے خلاف ابھرنے والی مختلف تحریکوں میں ہمیشہ کمیونسٹ اور ٹریڈ یونین کے کارکنان ہی پیش پیش رہے ہیں۔ حکومت اور ریاست مخالف مظاہروں اور ریلیوں میں ہمیشہ ہتھوڑا درانتی والے سرخ جھنڈے نمایاں رہے۔
اگرچہ اردوان کو 'مرد آہن‘ اور ایک مقبول رہنما کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘ لیکن فوجی بغاوت کی ناکامی اس کے لئے انتہائی نحیف فتح ہے۔ اس کی جانب سے فوج کی تطہیر کی کوشش سے شدید ردعمل سامنے آئے گا جیسا کہ تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے ۔ رائے عامہ کے اکثر تجزیوں کے مطابق ترکی میں پچاس فیصد سے زائد لوگ اس کے خلاف ہیں۔ اس کا جبر اور روز افزوں آمریت ناگزیر طور پر ماضی کی تحریکوں کی نسبت کہیں زیادہ بڑی عوامی بغاوت کو جنم دیں گے۔ اردوان حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے زیادہ تر شہری علاقوں کے محنت کش اور نوجوان ہیں۔ اس حکومت کے بنیاد پرستی اور قدامت پرستی کے جبر سے ترک سماج کی باشعور پرتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ پہلے سے ہی معیشت چند سال پہلے کی 7 فیصد کی شرح نمو سے گر کر 3.8 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اس سے محرومی اور غربت اور بڑھے گی۔ اپنے اقتدار کے پاگل پن میں اردوان اپنے آقائوں، یعنی امریکہ اور نیٹو، کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔ اردوان کی کیفیت درحقیقت ضیاالحق کے آخری دنوں سے مماثل ہے جب وہ مادی حقائق سے یکسر کٹ کے افغانستان اور وسط ایشیا میں بھی اپنی 'خلافت‘ کے خواب دیکھنے لگے تھے اور اپنے امریکی آقائوں کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ عین ممکن ہے اس کا انجام بھی ضیاالحق سے مماثل ہو۔
اردوان اس وقت نیٹو کے فوجی اڈوں کو بند کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور ان پر فتح اللہ گولن کو بچانے کا الزام لگا رہا ہے (فتح اللہ گولن اس وقت امریکہ میں جلا وطن ہے) امریکی اور یورپی حکمران صرف وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ سامراج کے سنجیدہ تجزیہ نگار پہلے سے اس کا سر بڑا ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ سامراجی پالیسی سازوں کے نزدیک اردوان اب ایک اثاثے کی بجائے بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اردوان کو ہٹانے کا نہیں ہے۔ اس بوسیدہ نظام کو اسی طرح کے 'جمہوری‘ یا فوجی آمروں کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن واحد حقیقی قوت جو اس وحشیانہ اقتدار کو اکھاڑ سکتی ہے وہ ترک محنت کشوں کی ایک انقلابی تحریک ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی تحریکیں ابھریں لیکن وہ محدود اور الگ تھلگ تھیں۔ جہاں فوجی حکومتوں نے ترک محنت کشوں پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے ہیں، وہیں جمہوری حکومتوں نے اردوان کی آمریت کی شکل اختیار کی ہے جس سے محنت کشوں اور غریبوں کے استحصال اور محرومی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سرمایہ داری کے تحت مستقبل بھی خوش آئند نہیں ہے۔ لیبیا اور یمن کی طرح ترکی کے نواح میں بھی عراق اور شام کی ریاستیں کم و بیش منہدم ہیں اور ایسے میں ترکی میں بھی استحکام ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں بائیں بازو اور کمیونسٹ قوتوں کا کردار انتہائی اہم ہے کہ وہ ایک متبادل مارکسی انقلابی قوت تعمیر کریں۔ جب ترکی کے محنت کش اور نوجوان جدوجہد کے میدان میں اتریں گے تو ایک انقلابی کیفیت تیزی سے جنم لے گی۔ ایک مارکسی قیادت کی موجودگی میں ایک سوشلسٹ تبدیلی ترکی میں بالکل مادی حقیقت بن سکتی ہے۔ ترک عوام کے سامنے یہی ایک راستہ ہے۔ استنبول میں آبنائے باسفورس ایشیا اور یورپ کو جدا کرتا ہے۔ ترکی کا انقلاب دونوں خطوں میں طبقاتی جدوجہد کو جلا بخشے گا اور دونوں اطراف کے انقلابات کو جوڑتے ہوئے ایشیا اور یورپ کے محنت کشوں کو یکجا کرے گا۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں