"DLK" (space) message & send to 7575

کشمیر: لہو اور زہر

ہندوستان کی نام نہاد آزادی کی سترویں سالگرہ کے موقع پر دہلی کے لال قلعے میں نریندر مودی کی تقریر نے کشمیری عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی ہے‘ جو پچھلے ستر سالوں سے بھارتی ریاست کے جبر و تسلط سے نبرد آزما ہیں۔ اپنی نوے منٹ کی آج تک کی سب سے طویل تقریر میں مودی مبالغہ آرائی میں کچھ زیادہ ہی آگے چلا گیا۔ اپنے خطاب میں اس نے کہا: ''بلوچستان، گلگت اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام نے پچھلے چند دنوں میں میرا شکریہ ادا کیا ہے اور میں ان کا مشکور ہوں‘‘۔ کسی بھی عقلمند آدمی کے لیے اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہو گا کہ بلوچستان، گلگت اور کشمیر کے لوگ اپنی مشکلات کے حل کے لیے مودی جیسے شخص کا شکریہ ادا کریں گے۔ 
بلوچستان، گلگت، کشمیر اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں لوگ اس نظام کے معاشی، سیاسی اور ریاستی جبر و استحصال سے نبرد آزما ہیں جس کا جارحانہ اور جابر نمائندہ ہندوستان میں مودی ہے اور جو خود وہاں کے غریب عوام پر زندگی کو تنگ کر رہا ہے۔ جہاں کہیں بھی سرمایہ داری موجود ہے وہاں غربت، جبر اور انسانی محنت کا استحصال کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔ مودی کا یہ بیان نہ صرف کشمیر بلکہ ان دوسری محکوم قومیتوں کی جدوجہد پر بھی ایک زہریلا حملہ ہے جس سے ریڈکلف لائن کے دونوں اطراف ان پر غداری اور ایجنٹ ہونے کے الزامات لگیں گے۔ 
مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت اور بھارتی ریاست کے سامراجی تسلط کے خلاف ایک بغاوت جاری ہے۔ جس وقت مودی تقریر کر رہا تھا تو عین اسی وقت کشمیر میں نوجوانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جا رہی تھی جو نسلوں سے اس قبضے کے خلاف بار بار بغاوت کر چکے ہیں۔ نام نہاد آزادی کے دن ریاستی جبر کے دوران کشمیر میں مزید چار نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ منگل کے دن مرکزی کشمیر کے ضلع بڈگام کے علاقے مگام میں مزید تین نوجوان قتل کر دیے گئے۔ حالیہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 70 سے تجاوز کر چکی ہے‘ جبکہ درجنوں شدید زخمی یا پیلٹ گن کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ چالیسویں دن بھی پورے ضلع سری نگر اور اننت ناگ میں کرفیو جاری رہا۔ معمولات زندگی درہم برہم ہو چکے ہیں، دفاتر میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے اور پوری وادی میں انٹرنیٹ اور موبائل فون نیٹ ورک معطل ہیں۔ جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے آزادی کے دن جب ہندوستانی پرچم کو کھول کر لہرانے کی کوشش کی تو پرچم زمین پر گر گیا۔ اس کی تقریر کے دوران دو سپاہیوں کو ہندوستانی پرچم کو اپنے ہاتھوں سے بلند رکھنا پڑا۔ 
نام نہاد سیکولر ہندوستان میں برسر اقتدار ہندو بنیاد پرست‘ محکوم کشمیری عوام کی تحریک کے اس دوبارہ ابھار اور تسلسل کی وجہ سے خاصے سیخ پا اور پریشان ہیں۔ بی جے پی کی حمایت یافتہ راجیہ سبھا کے ایک ممبر نے یہاں تک کہہ دیا کہ سکیورٹی فورسز کو مزید جبر کرنا چاہیے کیونکہ یہ کشمیری عوام کے اپنے فائدے میں ہے۔ ریاستی جبر جتنا بڑھتا ہے اس سے ریاستی ادارے اتنا ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں انتظامی معاملات بکھر چکے ہیں اور قابض فوجوں کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔ جنوبی علاقوں میں حالات زیادہ تشویشناک ہو گئے ہیں۔ پولیس تھانوں سے بھاگ رہی ہے اور کئی اہلکار اپنی وردیاں پھینک کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ پولیس اہلکار تو ہندوستان مخالف مظاہروں میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
اجوئے گوش نے اس حوالے سے لکھا ہے: ''جنوب کے کئی علاقوں میں انتظامیہ غائب ہو چکی ہے۔ محبوبہ مفتی کی حکومت عملی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکی ہے اور مرکزی فورسز کہیں نظر نہیں آتیں، ایسا لگتا ہے کہ ریاست نے جنوبی کشمیر کے بڑے حصوں کو آزادی دے دی ہے۔ شمالی علاقوں میں، جہاں فوج اور نیم فوجی فورسز کی تعیناتی زیادہ ہے، کسی حد تک مرکزی اتھارٹی کی موجودگی کا شائبہ ملتا ہے لیکن یہاں بھی مقامی پولیس اور سول انتظامیہ کی غیر موجودگی واضح نظر آتی ہے۔ جموں و کشمیر پولیس عملی طور پر وادی سے غائب ہو چکی ہے۔ وزرا اور پی ڈی پی اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی وادی میں آزادانہ نقل و حرکت کی جرات نہیں کرتے۔ بی جے پی کے بہت سے ارکان اسمبلی جموں میں اپنے گھروں تک محدود ہو گئے ہیں جبکہ پی ڈی پی کے ارکان اسمبلی سری نگر میں اپنی سرکاری رہائش گاہوں میں سخت پہروں میں رہ رہے ہیں۔ پی ڈی پی کے اکثر ارکان اسمبلی، بشمول وزیر اعلیٰ، اپنے حلقوں میں جانے سے خوفزدہ ہیں‘‘۔ 
بعض اطلاعات کے مطابق محبوبہ مفتی نے سری نگر تک میں بھی عوامی سطح پر اپنی نقل و حرکت محدود کر دی ہے کیونکہ چند دن پہلے اسے ایک تلخ تجربہ ہوا تھا‘ جب ایک امتحان کے دوران وہ خواتین کے ایک کالج میں گئی تو طلبہ کے والدین نے اس پر آوازیں کسیں۔ پی ڈی پی کے وزرا اور ارکان اسمبلی سوچ میں پڑے ہیں کہ اس غیر مقبول حکومت کے ساتھ کس طرح چلا جائے۔ اپنے بی جے پی کے ہم منصبوں کے ساتھ ان کے کوئی رابطے نہیں اور دونوں کے درمیان چپقلش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اس وقت شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور اب انہدام کے قریب ہے۔ درحقیقت وادی میں حکومت کی عوامی حمایت اور کنٹرول کے خاتمے کے بعد ایک منتخب حکومت کا وجود مذاق بن چکا ہے۔ 
2016ء کی سرکشی کئی حوالوں سے 1990ء کی بغاوت سے مختلف ہے۔ پہلی صفوں پر موجود کشمیریوں کی نئی نسل زیادہ جرات مند اور باغی ہے۔ ان کے اندر ایک نئی جرات، تڑپ اور اعتماد ہے۔ کشمیر میں نوجوانوں کی نئی نسل قومی آزادی کو سماجی و معاشی آزادی کے ساتھ جوڑتی ہے۔ ان نوجوانوں کی یہ آرزوئیں برصغیر کی بوسیدہ سرمایہ دارانہ ریاستوں میں کہیں بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے کشمیری عوام کی یہ شاندار جدوجہد اور قربانیاں پورے خطے کے محکوم عوام، بالخصوص نوجوانوں پر بڑے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر کشمیر کی موجودہ تحریک طبقاتی جدوجہد پر مبنی وسیع بغاوت میں بدل سکتی ہے جس میں ابتدائی طور پر نوجوان پہلی صف میں ہوں گے۔ 
سامراجی لوٹ مار اور سرمایہ دارانہ جبر کو جاری رکھنے کے لیے برطانوی راج نے تقسیم ہند اور کشمیر کے تنازعے کے ذریعے اس قدیم تہذیب پر جو گھائو لگائے تھے، یہی زخم ایک متناقضہ انداز میں سامراجی جبر اور مقامی استحصالی اقتدار کے خلاف وسیع بغاوت کو بھڑکا سکتے ہیں۔ ظاہری جاہ و جلال کی مالک مودی حکومت کشمیر کے معاملے میں لڑکھڑا رہی ہے۔ بلوچستان، گلگت اور کشمیر سے متعلق بیہودہ اور منافقانہ نعرے بازی سے مودی کو کچھ نہیں ملے گا۔ ان خطوں کے عوام طبقاتی اور قومی جبر و استحصال سے نجات کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ نریندر مودی اس نظام اور نظریے کی نمائندگی کرتا ہے جو نہ صرف ہندوستان میں قومی و طبقاتی جبر و استحصال کی بنیاد ہے۔ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو بھارتی ریاست کے خلاف جدوجہد میں طبقاتی بنیادوں پر ہندوستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور یکجہتی درکار ہے۔ یہ طبقاتی جڑت بظاہر ناقابل شکست نظر آنے والی دیوہیکل ریاستوں کو کس طرح بوکھلاہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے اور انہیں پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کی صرف ایک جھلک گزشتہ عرصے میں دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU) کے طلبہ کی تحریک میں نظر آئی تھی۔ درحقیقت قومی آزادی کی ہر تحریک پورے خطے کے محنت کش عوام کی طبقاتی جڑت اور حمایت کی متقاضی ہے۔ کسی بھی تحریک کی حمایت میں مودی جیسے درندہ صفت حکمران کی لفاظی اسے مجروح اور بدنام ہی کر سکتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے ڈیڑھ ارب عوام کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کوئی آسودگی اور بہتری میسر نہیں آ سکتی۔ محرومی، بیروزگاری، جبر اور استحصال کے خاتمے کے لیے جنوب ایشیا کے محنت کشوں کو اس نظام اور اس کے رکھوالے حکمرانوں کے خلاف ایک مشترکہ طبقاتی جنگ لڑنا ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں