آج اگر ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے تو مغربی سرحد پر بھی کشیدگی کی کمی نہیں ہے۔ پچھلے چالیس سال کی افغانستان خانہ جنگی، انقلاب اور رجعتی ردِ انقلاب کے تصادم اور بنیاد پرستی کی وحشت اور سامراجی جارحیت کے تصادم نے سارے خطے کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔
امریکی سامراج اور اس کے علاقائی گماشتوں نے 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے جن جنگجوئوں کو تخلیق کیا وہ اب اس ملک میں مسلسل بربادی اور بربریت کا باعث بن ر ہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص پاکستان‘ بھی ان بنیاد پرست اور رجعتی قوتوں کی وجہ سے مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ سامراجی ممالک کی تمام تر فوجی کارروائیوں، 'ترقیاتی کاموں‘ اور امن مذاکرات کے باوجود افغانستان کے اندر خلفشار مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر فوجی کارروائی مزید خونریزی، ہر مذاکرات مزید دھڑے بندیوں اور مختلف مسلح گروہوںکے درمیان باہمی لڑائیوں اور چپقلشوں کو جنم دیتی ہے۔ تین دہائیوں کی اس خانہ جنگی اور خلفشار سے اب تک لاکھوں غریب افغان اپنی جان گنوا چکے ہیں اور ملک معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر مزید پیچھے جا چکا ہے۔ ایسے میں امن ایک سراب بن گیا ہے۔
بظاہر تو افغانستان پر امریکی حملے کا مقصد القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو گیارہ ستمبر کے حملوں کی سزا دینا تھا‘ لیکن درپردہ اور بھی بہت سے عوامل تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی سامراج اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نئی آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی لوٹ مار بھی ان بڑے عوامل میں سے ایک تھی۔
امریکی سامراج نے افغانستان میں انفراسٹرکچر کے شعبے میں جو سرمایہ کاری کی وہ صرف افوج کی نقل و حرکت کو مدنظر رکھ کر کی۔ مثلاً ایک رنگ روڈ تعمیر کی گئی جو 2200 کلومیٹر طویل ہے اور جو افغانستان کے بڑے شہروں ہرات، کابل، قندھار، جلال آباد اور مزار شریف کو جوڑتی ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ میں ہونے والی بربادی پر اب تک ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ اس کے برعکس اس کی تعمیر نو پر بمشکل 50 ارب ڈالر خرچ کیے۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سامراجی ریاستوں کے لیے افغانستان نے مزید اہمیت اختیار کر لی ہے۔ یہ اہمیت معاشی، سیاسی اور عسکری حوالوں سے ہے۔ افغانستان کے ردِ انقلابی اور رجعتی جہاد کے دوران بننے والے ان گنت جہادی گروہوں کے بعد کی شکلوں نے صورت حال کو نہایت گمبھیر بنا دیا ہے جس میں تمام تر گروہوں کی ڈوریں کسی نہ کسی ریاست کے پاس ہیں‘ اور جن کی وفاداریاں کرائے پر دستیاب ہیں۔ برطانوی اخبار ''دی انڈی پنڈنٹ‘‘ کے مطابق کچھ طالبان گروہوں کو ایران کی مالی اور عسکری حمایت حاصل ہے اور ایران کے شہروں تہران، مشہد اور زاہدان میں ان کے تربیتی کیمپ موجود ہیں۔ اسی طرح طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2012ء تک افغانستان میں ہندوستان کی سرمایہ کاری 10.8 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ یہ سرمایہ کاری خام لوہے کی کانوں، سٹیل پلانٹ، بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں، ٹرانسمشن لائن وغیر ہ کے شعبوں میں ہے۔ حال ہی میں ایران، افغانستان اور ہندوستان کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ ہوا ہے۔ اسی طرح ہندوستان نے 218 کلومیٹر لمبی زرنج دلارام ہائی وے تعمیر کی ہے‘ جو ایرانی بارڈر کے قریب افغانستان کے شہر زرنج کو فرح صوبے کے شہر دلارام سے جوڑتی ہے۔ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق افغانستان میں تقریباً تین ہزار ارب ڈالر (ٹریلین) کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر کے حصول کی کوششوں میں اس وقت چین پیش پیش ہے‘ جس میں مس ایناک (Mes Aynak) کے تانبے کے ذخائر کا ٹھیکہ اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے‘ جس کی مالیت دو ارب ڈالر ہے۔ چین کی طالبان کے ساتھ 'امن‘ مذاکرات میں دلچسپی کی ایک وجہ انہی وسائل کو حاصل کرنا بھی ہے۔ اس تناظر میں ان سرمایہ کاریوں اور مداخلتوں سے مزید تضادات جنم لیں گے اور پاکستان کے ساتھ اس کی پراکسی جنگ مزید شدید ہو جائے گی۔
افغانستان کی تیس سالہ جنگ میں اب تک تیس لاکھ افغان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ان تمام متحارب قوتوں کی موجودگی میں افغانستان کبھی ایک صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست نہیں بن سکتا۔ امریکی تسلط کے پندرہ سالوں میں افغان سماج کے مسئلے مزید گمبھیر ہو گئے ہیں۔ معاشی بنیادیں انتہائی کمزور ہیں۔ ملک کی صنعتی بنیادیں نہیں ہیں۔ جی ڈی پی کا سائز تقریباً 20 ارب ڈالر ہے جس میں سب سے بڑا حصہ بیرونی امداد ہے۔ روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ ملکی آبادی کا صرف 38 فیصد بجلی کے نیشنل گریڈ سے مستفید ہوتا ہے۔ باقی آبادی بجلی سے محروم ہے۔ مرکزی حکومت کے پاس نہ تو اہلیت ہے اور نہ ہی وہ وسائل ہیں کہ وہ ملک میں بجلی کی پیداوار کے ایسے منصوبے شروع کر سکے جس سے پورا ملک مستفید ہو۔ اس کیفیت میں مختلف ممالک اور سامراجی کمپنیوں کی جانب سے بجلی کی فراہمی کے لیے مجوزہ سرمایہ کاری نے افغانستان میں قومی محرومی کو ایک دفعہ پھر بھڑکا دیا ہے جس کی واضح شکل ہمیں کابل میں ہزارہ عوام کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں میں ملتی ہے۔
عمومی طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور خلفشار کا آغاز سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے ہوا‘ اور اس مداخلت کے خلاف خطے کے دوسرے ممالک اور امریکہ بھی اس جنگ میں کھود پڑے‘ لیکن تاریخ کا معمولی سا علم بھی اس دعوے کو جھٹلا دیتا ہے۔ ثور انقلاب کے خلاف ردِ انقلابی جہاد کا باقاعدہ آغاز 03 جولائی 1979ء کو ہوا‘ جب اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ایک صدارتی فرمان کے تحت افغانستان کے بنیاد پرست مجاہدین کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرنا شروع کی، یعنی سوویت یونین کے حملے سے چھ مہینے پہلے۔ یہ مہم بدنام زمانہ 'آپریشن سا ئیکلون‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس آپریشن کا بنیادی مقصد خلق پارٹی کی قیادت میں بننے والی انقلابی حکومت کا خاتمہ تھا کیونکہ اس انقلابی حکومت نے افغانستان سے سرمایہ داری اور جاگیرداری اور پسماندہ قبائلیت کے خاتمے کا آغاز کر دیا تھا۔ پاکستان میں موجود دائیں بازو کے دانشور دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کی وجہ مجاہدین کی افغانستان میں فتح کو قرار دیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کا تناظر روسی انقلاب کے معمار لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی کتاب 'انقلاب سے غداری‘ میں پیش کیا تھا‘ جس میں اس نے کہا تھا کہ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت پر بیوروکریٹک کنٹرول جلد ہی اس معیشت کو برباد کرکے سرمایہ داری کی بحالی کی طرف لے جائے گا۔
جب کو ئی معیشتی نظام شدید بحران کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے حکمران طبقات کے منافعوں، دولت اور سماجی مرتبوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس سے وہ ایک ذہنی جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر درندگی پر اتر آتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی اسی کا نتیجہ تھیں۔ افغانستان میں پچھلی کئی صدیوں سے جاری مختلف عہدوں کی ''گریٹ گیمز‘‘ بھی ان مخصوص ادوار کے سامراجیوں کے انہی بحرانوں کا نتیجہ تھیں۔ آج بین الاقوامی اور علاقائی سامراجوں اور ریاستوں کی پراکسی جنگیں اس چوتھی ''گریت گیم‘‘ کی آگ کو بھڑکا رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے شمال مغربی علاقے اس گریٹ گیم کا میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ جوں جوں ان حکمرانوں کی دولت کی ہوس پوری نہیں ہوتی یہ مزید خون بہا کر اپنی اس پیاس کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اب اس نظام میں معاشی بحالی اور سماجی استحکام کی یہ گنجائش کم ہو چکی ہے۔ ان یہ سوچنا کہ مذاکرات، سفارت کاری، اقوام متحدہ یا کسی دوسرے نحیف عالمی ادارے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو وہ محض خود فریبی یا دھوکہ دہی ہے‘ افغانستان میں نور محمد ترکئی نے ایک مرتبہ انقلاب کرکے یہاں سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے دکھایا تھا۔ اس کے خطے کے باسیوں کے پاس یہ سب سے بڑی نجات کی میراث ہے۔ آج بھی اس نظام کا اس خطے میں تبدیل کئے جانا صرف انقلاب کے ذریعے ممکن ہے‘ لیکن آج کی نسل کے انقلابیوں کو یہ سبق سیکھنا پڑے گا کہ تنگ نظر قوم پرستی اور دوسری غلطیاں‘ جو افغانستان کے انقلابیوں سے ہوئی تھیں‘ ان کو دہرایا نہ جائے بلکہ ان تجربات سے سیکھتے اور اسباق حاصل کرتے ہوئے زیادہ بلند پیمانے پر انقلاب برپا کیا جائے جسے کوئی سامراج اور کوئی قوت زچ نہ کر سکے۔