"DLK" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی آخر کس کی پارٹی ہے؟

اس سال پھر 18 اکتوبر 2007ء کو ہونے والی کارساز کی دہشت گردی اور خونریزی کی ''برسی‘‘ کے طور پر پیپلز پارٹی نے ایک بڑی ریلی کا اہتمام کیا‘ لیکن ان 9 سالوں میں پیپلز پارٹی کہاں سے آگئی۔ اگر تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو 1967ء میں جنم لینے والی پیپلز پارٹی اور آج کی پارٹی میں اتنا فرق ہے کہ کرسٹینا لیمب کے مطابق ''اگر بھٹو اپنی قبر سے نکل کر آئیں اور اس پارٹی کو دیکھیں تو اس کو پیپلز پارٹی ماننے اور پہچاننے سے بھی انکار کر دیں گے‘‘۔
طویل عرصے کے بعد عوام میں 18 اکتوبر 2007ء کو پھر ایک جذبہ اور حوصلہ پید ا ہوا اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کی آمد پر استقبال میں حصہ لے کر ایک مرتبہ پھر اپنی امیدیں‘ آرزوئیں اور توقعات اس جماعت سے وابستہ کر لی تھیں۔ 1960ء کی دہائی کے برعکس 2007ء میں پاکستان میں معاشی اور سماجی بحران کی شدت سے ریاست اتنی کمزور اور حاکمیت اتنی کھوکھلی ہو چکی تھی کہ اس ''استقبال‘‘ سے حکمرانوں پر لرزا طاری ہو گیا‘ کیونکہ ان کے قریبی یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ استقبال‘ استقبال نہیں رہا تھا۔ جم غفیر ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے اپنی حکومت میں پاکستان کے اقتصادی اعداد و شمار اور ظاہری صحت نسبتاً بہتر رکھی تھی‘ لیکن اگر شرح نمو میں ترقی اور اضافہ تھا تو اس سے معاشرے میں تضادات کم نہیں ہو رہے تھے۔ ٹریکل ڈائون معیشت کے تحت یہ ترقی ضروریات اور محرومی کے حجم کے حوالے سے آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اس سے تضادات بھڑکنے لگے تھے۔ ان کی شدت سے بالادست طبقات اور ریاستی اشرافیہ کے مابین تضادات ابھرے اور پھر بحران نے ایک تصادم کی 
شکل اختیار کر لی، بعد ازاں درمیانہ طبقہ بھی اس میں شریک ہو گیا۔ لیکن 3 مارچ سے بالائی سطح پر چلنے والی اس وکلا کی تحریک کے نیچے جو طبقاتی تضادات ابھر رہے تھے‘ وہ 18 اکتوبر کے کراچی میں لاکھوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی صورت میں سامنے آئے تھے۔ عوام بے نظیر کے استقبال کے لیے جہاں ''لائے گئے‘‘ تھے وہاں اس سے زیادہ از خود آئے تھے۔ یہ محروم و محکوم محنت کش اور دوسرے طبقے ایک مرتبہ پھر ماضی کی یادوں کے تحت وہ مبہم سی امید لے کر آئے تھے‘ جو پارٹی کی پچھلی دو حکومتوں میں بہت حد تک مجروح ہونے کے باوجود قائم تھی۔ امید کے آخری دیے شاید ٹمٹما رہے تھے۔ لیکن جہاں وکلا کی تحریک ریاست کے لئے بے ضرر تھی اور کارپوریٹ میڈیا بھی اس سے بھرپور طریقہ سے اجاگر کرنے میں حکمران طبقے اور 'نظام زر‘ کے لئے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کر رہا تھا‘ وہاں اٹھارہ اکتوبر کا عوام کا یہ ابھار حکمرانوں کے لیے ایک حقیقی تشویش کا باعث بنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز سے دہشت گردی کی یہ ہولناک واردات کروائی گئی‘ جس میں 177 غریب کارکنان شہید اور سینکڑوں گھائل ہو گئے تھے۔ لیکن اس حملے سے پسپا اور شکست خوردہ ہونے کے بجائے تحریک مزید بھڑک اٹھی۔ اس کی امنگیں اور مانگیں بھی ریڈیکلائز ہونا شروع ہو گئیں۔ عوام اس تحریک یا استقبال میں کسی ''جمہوریت‘‘ یا ''آئین کی پاسداری‘‘ کے لیے نہیں آئے تھے۔ یہ روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم، علاج اور روزگار کے حصول کے لیے سیاسی میدان میں اترے تھے۔ زندگی کی سلگتی ہوئی ضروریات اور اذیتوں کی تکلیف سے چھٹکارا حاصل کرنا ان کا مقصد تھا‘ جبکہ ہر تحریک اور انقلابی سرکشی کی حتمی منزل بھی عوام کو محرومیوں سے آزاد کرانا ہی ہوتا ہے۔ تحریک بعد ازاں کراچی سے نکل کر پاکستان کے دوسرے صوبوں اور علاقوں میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔
یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی کے سٹیجوں سے ایک طویل عرصے بعد روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگنا شروع ہو گیا تھا‘ لیکن ''سوشلزم‘‘ سے انحراف اور اس پر قیادت کی ایک پُراسرار خاموشی جاری رہی۔ پھر صورتحال کشیدہ ہونا شروع ہو گئی تھی۔ حکمرانوں کے خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور تحریک کی حرارت بھی بڑھ رہی تھی۔ اسی کشمکش میں حکمرانوں کے حصے نے 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل کرا دیا۔ تحریک پھٹ گئی۔ بینک‘ عدالتیں‘ پولیس سٹیشن، لوگوں کی محرومیوں کو بڑھانے، عوام کو کچلنے اور ان کا استحصال کرنے والے مراکز‘ محنت کشوں اور نوجوانوںکے غیظ و غصب کا نشانہ بنے۔ یہ تحریک ایسے پھٹی جیسے کوئی بجلی کوندی ہو۔ لیکن پیپلز پارٹی کی ''نئی‘‘ قیادت اس نظام اور ریاستی نظم و نسق کو کوئی نقصان پہنچانے کے سخت خلاف تھی۔ جیسی مشرف کی ایک کھوکھلی نام نہاد آمریت تھی‘ ویسی ہی ایک لاغر جمہوریت حکمرانوں کے تمام حصوں کی ملی بھگت سے استوار کروائی گئی۔ نوجوانوں کے انتقام کی آگ کو سوگ کے آنسوئوں میں ٹھنڈا کروایا گیا۔ تحریک پسپا ہو گئی اور حکومت پیپلز پارٹی کی بنی‘ لیکن سب کے اتفاق سے اس کو مخلوط ہی رکھا گیا تاکہ عوام کی امیدیں اور بغاوت کہیں پھر بھڑک نہ اٹھیں۔ لیکن جس مایوسی کی کھائی میں عوام کو دھکیلا گیا تھا اس جمود اور ٹھہرائو کا فائدہ سامراجیوں اور حکمران طبقات نے پیپلز پارٹی کے نام پر بننے والی حکومت سے ریکارڈ مہنگائی، قلت اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP) جیسی مزدور دشمن پالیسیوںکو جاری کروا کے اٹھایا۔ اس سے پیپلز پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی۔ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کا اکثر علاقوں میں بائیکاٹ کیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ روایتی دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ حکومت ن لیگ کی صورت میں اقتدار میں لائی گئی۔ لیکن جب نظام میں گنجائش ہی نہ ہو تو اس کی اپنی کلاسیکی پارٹی بھلا معاشرے کو کیا ترقی دے سکتی ہے۔ آج عوام شاید خاموش ضرور ہیں‘ لیکن ان کو ''اپنی‘‘ پارٹی کی تلاش ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی'ان کی‘ پارٹی ہوا کرتی تھی۔ آج کوئی اور پارٹی بھی نہیں ہے، جو غریبوں کی پارٹی کہلوائے۔ لیکن پیپلز پارٹی یہ کہنے سے گریزاں ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا: ''پیپلز پارٹی صرف غریبوں کی پارٹی ہے‘‘۔ کیا آج کی قیادت یہ کہنے کے لیے تیار ہے کہ یہ محنت کشوں یعنی صرف ایک طبقے کی پارٹی ہے۔ حکمران طبقات اور امیروں سے اس پارٹی کی کھلی جنگ ہے؟ لیکن آج پارٹی پر جس قسم کی قیادت براجمان ہے وہ ساری کی ساری ہی بالادست طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ بالادست طبقات جن کے خلاف پیپلز پارٹی بنی تھی۔
اتوار 16 اکتوبر کو بلاول بھٹو کی کراچی میں ریلی اور جلسوں سے خطاب کو پیپلز پارٹی کو ایک نئی جہت دینے کے عمل کو تقویت دینے کے لیے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی ایک کاوش قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پارٹی کے زوال کے بعد اب اس کی بحالی ہو سکے گی؟ ایسے میں عوام اب عوامی باتیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے بھی پوسٹر لگانے سے لے کر الیکشن لڑنے، جلوس نکالنے یا جلسے کرنے تک کے تمام طریقہ کار وہی ہیں جو مسلم لیگ یا تحریک انصاف کے ہیں۔ ہر چیز پر پیسے لگائو اور پھر اقتدار میں آ کر نہ صرف ان کو پورا کرو بلکہ ان کو دگنا چوگنا کرو! عوام کی جلسوں اور جلوسوں میں لانے والی سیاست انہی کی ہوتی ہے‘ جو اس پر انویسٹمنٹ کرتے ہیں یا حکومتی ذرائع استعمال کرکے مجمع اکٹھا کرتے ہیں۔ تحریکیں مجمعے اکٹھے کرنے اور انہیں ٹرانسپورٹ، کھانا یا 'دھرنا الائونس‘ دینے سے نہیں بنا کرتیں، عوام لائے نہیں جاتے، خود آگے بڑھ کر ایک جوش‘ جذبے‘ امید اور جرات کے ساتھ سیاسی عمل میں سرگرم ہوتے ہیں۔ کمیٹیاں بنا کر تنظیم نو میں ایک سرمایہ دار، ایک جاگیردار اور چار ''ورکروں‘‘ کو عہدے دے کر پارٹیاں بحال نہیں ہوا کرتیں۔ وہ جذبہ، وہ احساس، وہ جستجو عوام کے دلوں اور دماغوں میں ابھارنی پڑتی ہے جو ان کو متحرک کر دے۔ پیسوں سے مجمعے تو خریدے جا سکتے ہیں، لوگوں کے دل و دماغ نہیں۔ جب تک پیپلز پارٹی امرا سے ہر ناتہ نہیں توڑتی، محنت کش طبقے کی پارٹی ہونے کا اعلان نہیںکرتی، پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور پروگرام کو خلوص سے نہیں اپناتی اور عملی طور پر اس پر سرگرم نہیں ہوتی وہ کبھی بحال نہیں ہو سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں