"DLK" (space) message & send to 7575

بگڑتے توازن!

امریکہ اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی چپقلش میں اوباما انتظامیہ نے اپنے آخری ایام میں روس کے35سفارتکار جاسوسی کے الزام میں امریکہ بدر کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ پیوٹن نے عیارانہ ردعمل میں پہلے اپنے دفتر خارجہ کے نمائندوں کے ذریعے 35 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا فیصلہ سنوایا اور پھر خود اعلان کیا کہ کوئی امریکہ سفارتکار روس بدر نہیں کیا جائے گا۔ روسی سفارتکاروں پر سی آئی اے اور دوسری امریکی ایجنسیوں کی جانب سے یہ الزام ہے کہ انھوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں دھاندلی کروائی ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کی ۔ یہ درست ہے کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں جو مراسلے ہیک کرکے بے نقاب کیے گئے اس میںہیلری کلنٹن کے جنگی جرائم کھل کر سامنے آئے ہیں ۔ روسیوں کو شاید یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر ہیلری کلنٹن برسراقتدار آگئی تو وہ شام، افغانستان اور مشرقی وسطیٰ کے دوسرے علاقوں میںامریکی فوجی جارحیت تیز کرے گی۔ ان پیغامات سے بھی یہ تاثر ملتا ہے ۔ لیکن یہاں روس سے زیادہ امریکہ کا مسئلہ بنتا ہے۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت کی کیا حالتِ زار ہوگئی ہے کہ روس جیسی بحران زدہ ریاست اس کے انتخابات کے نتائج کو بدل کر رکھ دے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اوباما کی اس بوکھلاہٹ کے اقدام میں امریکی سامراج کی شدید کمزوری کا راز کھلتا ہے۔ اوباما کے دور میں خصوصاً اس کی دوسری صدارت کے دوران امریکہ کی اقتصادی، فوجی اور سفارتی کمزوریاں بہت زیادہ عیاں ہوئیں۔ سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں عراق کی شکست اور شام پرحملے سے گریز اور پسپائی نے اوباما کو سامراجی آقائوں کی نظروں میں داغ دار کردیا ہے۔ لیکن اوباما نے جو پالیسیاں اپنائیں وہ اس سامراج کے معاشی بحران کے حوالے سے حقیقت پسندانہ تھیں۔ لیکن اس دیوہیکل سامراج کو جس رعونت اور تکبر کی عادت پڑ گئی ہے اس کے خمار سے اس کے حکمرانوں کے بڑے حصے ابھی تک نکلے نہیں ہیں۔ اگرامریکہ کی اقتصادی و معاشی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تو اس کے پاس وہ مالیاتی گنجائش ہی نہیں کہ وہ دنیا بھر میں اتنی مداخلتیں کر سکے اور جنگیں لڑسکے جتنی اس کے سامراجی جاہ جلال کو برقرار رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ اس لیے اوباما کے تحت امریکی حاکمیت نے پراکسی جنگوں اور سفارتکاری کے ذریعے اپنا کام چلانے کی کوشش کی لیکن تاریخ اور واقعات بہت تلخ اور بے رحم ہوتے ہیں۔ جعل سازی زیادہ دیر چل نہیںسکتی۔ جن دو حکمت عملیوں کو اس سامراجی حکومت نے اپنایا تھا ان میںناکامیاں اب عیاں ہیں ۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حکام نے حلب پر شامی افواج کے قبضے کے بعد وہاں جو بربادی ہوئی اس کا ذمہ دار صرف اور صرف بشار الاسد اور اس کے روسی حمایت کاروں کو ہی ٹھہرایا۔جبکہ شام کوبرباد کرنے والی داعش اور دوسری مذہبی جنونی گروہوں کا اس تباہ کاری اور انسانیت سوز مظالم ڈھالنے کے اعمال کو مکمل طورپر درگزر کرکے فراموش ہی کردینے کی کوشش کی۔ حلب کی تباہ کاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان نے سربیا،روانڈا، مصر، گوئٹے مالا اور دنیا میں دوسرے بہت سے مقامات پرہونے والی دہشت گردی اور جنگی بربادیوں کا ذکر تو کیا لیکن سب سے اہم خصوصاً امریکہ میں ہونے والی انسانی قتل وغارت اور دہشت گردی- 9/11 کونیویارک اور دوسرے شہروں میں ہونے والی دہشت گردی اور خونریز ی کا کوئی ذکر تک نہیں کیا۔ یہ بے وجہ نہیں 
تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جس تنظیم القاعدہ نے امریکہ پر یہ بھیانک حملہ کروایا تھا اس کو بدلے ہوئے نام 'النصرہ فرنٹ ‘کی دہشت گرد تنظیم کو شام میں امریکی سامراج او ر اس کے یورپی اور عرب حواری حکمران ہر قسم کی امداد اور حمایت فراہم کررہے ہیں ۔ اس امر کو رابرٹ فسک نے کھل کر انڈیپنڈنٹ میں بار بار لکھا ہے لیکن امریکی حکام خاموش ہیں۔ یہی حشر افغانستان میں امریکہ کی اتحاد ی پراکسیوں کے ساتھ ہورہا ہے کہ کل کے دشمن اور قاتل اس کے اتحادی بن گئے ہیں اور ماضی کے عظیم مجاہدین جن کے گیت ریگن اور کارٹر گایا کرتے تھے اب وحشی درندوں کے نام سے امریکی میڈیا اور حکام پیش کررہے ہیں۔ سفارتی محاذپر بھی امریکی سامراج کو شرمناک پسپائی کر سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑے حلیف اسرائیلی صہیونی حکمران اور عرب بادشاہتوں میں امریکہ کی اوباما کے تحت تخلیق پانے والی خارجہ پالیسی کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ کیونکہ امریکہ اور اس خطے میں اسکے اتحادیوں کے سب سے بڑے دشمن ایران سے امریکہ نے جوہری معاہدہ کرکے اس سے صلح کرنے اور اس کو معیشت میں لا کر امریکہ کی اجارہ داریوں کے لیے نئی منڈی حاصل کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ امریکہ کی افغانستان اور عراق میں شکست اور 2007-8ء کے مالیاتی کریش نے صرف اس کی قومی اور اقتصادی طاقت پر کاری ضرب نہیں لگائی بلکہ اس سے امریکہ کے حکمرانوں میں ایک شدید عدم اعتماد کی کیفیت پیدا ہوئی ہے جو اس کی سفارتکاری میں عیاں ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو وہ بڑی پسپائی برادشت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ جارحیت کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر ہیلری کلنٹن دوبارہ جنگی جارحیت اپناتی تو وہ امریکہ کے لیے ایک خود کش بمبار ہی ثابت ہوتی ۔ کیونکہ اب گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
لیکن اگر ان تمام محاذوں پر امریکہ کی یہ حالت ِ زار ہے تو روس کے حالات بھی اتنے درخشاں نہیں ہیں۔ شرح نمو بہت گر چکی ہے۔ بنیادی ضروریات کی قلت بڑھ رہی ہے غربت او ر محرومی میں شدید اضافہ ہورہا ہے۔ پیوٹن دوسری نئی شاونسٹ قوم پرستی کے جنون میں ابھرنے والے مختلف ممالک کے لیڈروں کی طرح اس قوم پرستی اور حب الوطنی کو ابھار کر اپنی داخلی حمایت بڑھانے اور کسی سماجی بغاوت سے بچنے کے لیے یہ ساری وارداتیں کررہا ہے۔ لیکن یہ آگ اور خون کا کھیل کب تک بھوک کے درد اور محرومی کی اذیتوں کو دبائے رکھے گا۔ قوم پرستی اور حب الوطنی سے نہ بھوک مٹتی ہے اور نہ زندگی کی تنزلی میںکوئی رکاوٹ یا بہتری آتی ہے۔ ایسے ہی حالات ہمیں دنیا بھرمیں نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اس معاشی اقتصادی نظام کی متروکیت ہے جو تاریخ کے ایسے عہد میں داخل ہوچکا ہے جہاں وہ سماجوں کی ترقی کی بجائے تنزلی، زندگی کو خوشی کی بجائے تلخی اور انسانیت کو خوشحالی کی بجائے ذلت ہی دے سکتا ہے۔ چونکہ یہ دنیا آج ایک معاشی اکائی بن چکی ہے اس لیے اس نظام کے بحران سے تمام موجودہ توازن اور ربط ٹوٹ رہے ہیں۔ 
2008ء میں عالمی اقتصادی اور مالیاتی توازن بگڑگیا ۔اس کے سماجی حالات کے توازن کے بکھرنے سے امریکہ کی ''آکوپائی وال سٹریٹ تحریک‘‘ سے لے کر 2011ء کی عرب انقلابی تحریک برپاہوئی۔ ان کو کوئی انقلابی قیادت نہ ملنے سے مشرق وسطیٰ میںرجعتیت کی آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ برسراقتدار آرہا ہے جو روم کے نیرو کی طرح امریکہ کی بانسری بجاسکتا ہے۔ پھر ہمیں یہی بحران ماحولیاتی آلودگی میں ایک معیاری ابتری کی صورت میںملتا ہے۔ سرمایہ دارانہ منافع خوری کے دھوئیں اس سیارے کی فضائوں کو تیزی سے آلودہ کررہے ہیں۔ موسم بدل رہے ہیں سیلابوں اور خشک سالی میںشدت آ رہی ہے ۔ عالمی تعلقات اور سفارتکاری کے توازن اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ کوئی پتہ نہیں کب ‘ کون ‘کس کا دوست اور کس کا دشمن ہوجائے۔ یہ خارج ازامکان نہیںکہ ٹرمپ پیوٹن کا اتحاد بن جائے۔ ویسے چند ماہ پہلے پیوٹن اورطیب اردوان سب سے بڑے دشمن تھے ۔ اب بہت بڑے حلیف بن کر انہوں نے شام میں جنگ بندی تک کروانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔کون جانے کب یہ دونوں اور دوسرے حلیف ‘حریف اور حریف‘ حلیف ہوجائیں۔ سب کچھ تیزی سے بدل رہا ہے ۔ عدم استحکام کا راج ہے نسل انسان کی بھاری اکثریت غربت، ذلت اور محرومی کی کھائی میںڈوبتی جارہی ہے ۔ اس محنت کش طبقے کی جدوجہد کی بات کرنا اور سوشلزم کا نام لینا ایک لفظ غلط قرار دے دیا گیا ہے۔لیکن اس سیارے کو ایک طبقاتی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کوانقلاب کے ذریعے بدلے بغیر نسلِ انسان کی بقا ممکن نہیں ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ نئی نسل جتنا جلد اس کوپڑھے اور عمل پیرا ہوگی اتنا ہی جیت کاامکان بڑھے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں