"DLK" (space) message & send to 7575

فراموش خلق

اس نظام زر میں سال بدلتے ہیں حالات نہیں بدلتے ۔ حکمران بدلتے ہیں عام انسان کی زندگی کے معمولات نہیںبدلتے۔ وہی گھسے پٹے دعوے اور عوام کے عذابوں سے دور موضوعات کی گردان چلتی رہتی ہے۔
دہشت گردی کی درندگی ہو یا اس کوکچلنے کے ریاستی دعوے،اعلیٰ عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات کی پیچیدگیاں ہوں یا وکلاء اور سیاست دانوں کی بے مقصد اور کم ظرف تکرار، فوجی سربراہوں کی بدلیاں ہوں یا سپریم کورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے ردوبدل ہوں، پارلیمنٹ کی بیزار کن کارروائیاں ہوں یا پیچیدہ آئینی ترمیم جن کا بنیادی زندگی سے تعلق ہی نہ ہو، الیکشن کے بارے میں اتنی شدید بے چینی ہو اور پھر انتخابات کے دھاندلی زدہ ہونے کا کھیل ہو۔ ہر روز حکومت کے خاتمے کی پیشین گوئیاں ہوں اور حکمرانوں کا اپنی نسل کو ہی وراثتی اقتدار دینے کے اشارے ہوں۔ معیشت کی کامیاب کے دعوے ہوں اور اس کے بیمار ہونے کے الزامات ہوں۔ فوجی سویلین کشمکش ہو یا پھر فوج کی سویلین ترغیب کے بیانات ہوں۔ جمہوریت اور مارشل لاء کے ''تضادات‘‘ پر بے معنی بحث ہو یا پھر طرز اقتدار کے بارے میں مسلسل نئے منصوبے پیش ہورہے ہوں، المیہ یہ ہے کہ یہاں کی مسلط کردہ سیاست اور میڈیا میں یہی موضوعات ہیں جن تک تمام بحثیں اور خبریں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی بھر مار ہے اور ٹریفک ہر طرف جام ہوتی جارہی ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مال میں بے دریغ اخراجات کرنے والی بالادست اور درمیانے طبقے کی قدامت پرست وماڈرن فیشنوں والی خواتین کی بھیڑہے۔ ریستوران بڑے شہروں اور پوش علاقوں میںرش سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہائوسنگ سکیموں کی بھرمار ہے جن سے مکان تو ملتے ہوں گھر اور گرہستی کا سکون نصیب نہ ہوسکتا ہو۔ درمیانے طبقے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ ہر طرف اتنی دولت ہے کہ سب امیر ہی امیر ہیں۔ ایک ایسی کیفیت پیدا کردی گئی ہے جس میں ایک فیس بک اور سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس میں غرق افراد اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہیں کہ اس ملک میں82 فیصد آبادی بنیادی انٹرنیٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے۔فیس بک اور سوشل میڈیا کی تخیلاتی دنیا میں معاشرے کی محنت کش عوام پر مبنی بھاری اکثریت کی اصل زندگی کی دنیا کو فراموش کررکھا ہے۔
سیاست اور میڈیا پر کثرت سے جن موضوعات پر واویلا مچا ہوا ہے ان کی یہاں کے محروم اور مظلوم عوام کی زندگیوں کے سلگتے ہوئے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم غورسے دیکھیں تو یہ دو مختلف دنیائیں ہیںجن میں ایک اقلیتی دنیا نے اکثریت کی زندگی اور رائے کو اندھیرے میں ڈبو رکھا ہے۔ یہ بالادست اور درمیانے طبقات کی دنیا درحقیقت 4 کروڑ کے قریب افراد پرمشتمل ہے جبکہ اس ملک کی کل آبادی بیشتر سماجی سائنس پر مبنی تجزیوں اور جائزوں کے مطابق22 کروڑ بنتی ہے۔ اس طرح 20فیصد سے بھی کم آبادی کی روایات ،اقدار، قدریں،ثقافت اور ذہنیت آج کے عہد میں فلم سے لے کرٹیلی ویژن اور ادب سے لے کر سیاسی تجزیوں تک حاوی ہے۔ لیکن ان میں بھی اپنے تضادات ہیں ۔لبرل ازم اور قدامت پرستی اورسیکولر ازم اور مذہبیت کے درمیان ایک درمیانے طبقے کی تکرار اور بے معنی بحث جاری ہے جس میں محرومی اور ذلت کا نہ ذکر ہے نہ حل اور نہ ہی ان اذیتوں سے چھٹکارے کا کوئی لائحہ عمل موجود ہے۔
اس عہدکا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کی 50 فیصد سے زیادہ دولت اور وسائل ایک فیصد کی ملکیت ہیں ۔باقی 4 کروڑ کے قریب درمیانے طبقے کی مختلف پرتیں ان کی پیروی بھی کررہی ہیں اور ان میں شامل ہونے کی ایک ایسی اندھی دوڑ میں بھاگے چلے جارہے ہیں کہ زندگی کو جی لینے اور اس کو محسوس کرنے سے بھی قاصر معلوم ہوتے ہیں۔ سیاست بھی یہی ہے کہ اور ثقافت بھی یہی۔ رشتے بھی اسی کے گرد مرکوز ہیں اور سماجی تعلقات بھی۔ فریب ،جھوٹ اور دھوکہ دہی فن کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ سچائی اور معاشرے کی ان اذیتوں سے نجات کے نظریات کو اس نظام کی موجودہ عہد کی بالادست پرتوں اور ان کے اداروں نے پرانا،ناکام اور بیکار کہہ کر بے دخل کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اگر محنت کش عوام آج ششدری اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو کر سہل ہونے کی کوئی راہ تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں تو درمیانے اور بالاست طبقات کی سیاست اور ریاست اور معاشرت بھی شدید انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ درمیانے طبقات اس دوڑ کو کبھی جیت نہیں سکتے اور حکمران سرمایہ دار وجاگیردار طبقات اپنی دولت اور طاقت کی ہوس کوکبھی مٹا نہیں سکتے۔ جتنا لوٹتے ہیں مال کی مزید ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔وقتی طور پر حکمران عوام کی بغاوت کے خطرے کو بے ضرر اورلاغر سمجھ کر فراموش کرچکے ہیں لیکن اتنی دولت اور طاقت حاصل کرلینے کے بعد بھی کوئی سکون اور استحکام استوار کرنے میںناکام ہیں ۔ دولت اور طاقت کی حصہ داری میں حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں مسلسل کشمکش اور سطحی تصادم جاری ہیں۔ لیکن معاشرے میںنہ چین ہے نہ کوئی سکون ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ جیسے رک سا گیا ہو۔ اتنی تیز تر حرکتیں جاری ہوںلیکن سماجی سفر ٹھہر گیا ہو۔ اگر بمشکل یہ سرک رہا ہے لیکن اس کی بھاری اکثریت آگے بڑھنے کی بجائے مزید محرومی میں گررہی ہے۔ اچھی خبروں کی جعل سازی ،ان کی سنائی کے ساتھ ہی، بے نقاب ہوجاتی ہے۔ ترقی کے دعوئوں سے زندگی پر کوئی بہتر ی کا اثر محسوس نہیںہورہا ہے۔ اس سماجی گھٹن میں جہاں کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے تو ہم پرستی اور جھوٹے سہاروں پر امیدوں کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ لیکن پھر ایسی آس بھلا کب تک بھوک، ننگ اور افلاس کی اذیت کو قابلِ برداشت بنائے رکھ سکتی ہے۔ سیاست میں پارٹیوں نے محنت کشوں کی اس ذلت کے خاتمے کے عندیے دینے بھی بند کردیئے ہیں۔ سیاست جن موضوعات کی پیروکاری کرنے پر مجبورہے اس میں دولت کے بغیر کے چل نہیں سکتی اور دولت جس سیاست کو چلاتی اور چلواتی ہے اس میں دولت مندوں کے مفادات اور موضوعات پر ہی یہ کھلواڑ جاری رہتا ہے۔ خیرات سے سماجوں کی بھوک اور محرومی تو نہیں مٹا کرتی،اور نہ تعلیم، علاج اور ر وزگار کی فراہمی ہوسکتی ہے۔
زندگی ایک دن کی خیرات کے بعد باقی دن میںبھی چلتی ہوتی ہے ۔ اس کو چلانے کے لیے درکار وسائل لٹ گئے اور مزید لٹ رہے ہیں۔ یہی لٹیرے کبھی سیاست دانوں کے روپ میں‘ کبھی سماجی راہنمائی کی شکل میں‘ کبھی نیک پرہیزگارپیشوائوں کے ڈھونگ میں ذرائع ابلاغ عوام پر مسلط رکھتے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن تاریخ اس امر کی بھی گواہ ہے کہ ایسا لامتناہی طور پر کبھی چل نہیں سکا۔ ایسے ادوار آتے ہیں جب کارپوریٹ میڈیا کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے ۔ مسلط کردہ اقتدار بکھر جاتا ہیں ۔ انفرادیت اور خودغرضی کے بندھنوں کو توڑ کر محنت کش ایک یکجہتی اور طبقاتی بھائی چارے میں اپنی محرومیوں اور ذلتوں کے گرد یکجا بھی ہوجاتے ہیں۔اس سماجی واقتصادی جبر سے نکل کر وہ معاشرے اور سیاست کے میدان میں زوردار انداز میں داخل ہوتے ہیں ۔ ان کا شعور طبقاتی جدوجہد کی روشنی سے منور ہوجاتا ہے۔ ان کی سوچ اجاگر ہوتی ہے اور وہ تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنے مقدر کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں ۔ دولت اور وسائل جن پر چند افراد اور خاندانوں کا قبضہ ہے۔ جن کو تخلیق اورجنم دینے والی انسانی محنت ہے۔ وہ محنت پھر اپنا حق وصول کرتی ہے۔ دولت کی سیاست کو محنت کی تحریک شکست دیتی ہے۔ منافع خوری کی بیڑیوں سے آزاد ہو کر جدید ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی معاشرے میں ضروریات کی بہتات پیدا کرنے لگتی ہے ۔ جس سے مانگ مٹتی ہے انسان کو سانس لینے اور اپنے آپ زندگی اور اس جہاں کے بارے میں سوچنے کا وقت ملتا ہے۔محسوسات میں جمالیاتی حسن پیدا ہوتا ہے۔ رشتوں میں خلوص آجاتا ہے۔ انسان حیوانیت سے نکل کر انسانیت کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے یہی وہ تبدیلی ہے جس کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ نسلوں سے فراموش یہ محروم محنت کرنے والے انسان سیاست، ریاست، صحافت اور معاشرت پرچند کی اجارہ داری ختم کرتے ہیں ملکیت کے نئے رشتوں کی استواری سے اشتراکی معاشرہ حتمی نجات کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں