"DLK" (space) message & send to 7575

فلسطین سے بیگانگی

فلسطین پر صہیونی قبضے اور فلسطینی عوام پر نسل در نسل اسرائیل کے مظالم اور ریاستی دہشت گردی کو کارپوریٹ میڈیا نے انتہائی عیاری سے تقریباً فراموش ہی کر دیا ہے۔ بیشتر ممالک میں مین سٹریم میڈیا عالمی ایشوز پر بڑی میڈیا اجارہ داریوں کی تقلید ہی کرتا ہے اور فلسطینیوں کی زندگی کے جہنم اور اس جبر کے خلاف ان کی جدوجہد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بنیاد پرستوں کی جانب سے اس مسئلے کو ایک الگ رنگ دے کر فرقہ وارانہ تنگ نظری میں مزید محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ مظلوم عوام اور طبقات کی جدوجہد کی جڑت میں کسی حد تک رکاوٹ کا باعث بھی ہے۔
جمود کے ادوار میں جہاں بنیاد پرستی سیاسی خلا کر پُر کرتی ہے تو وہیںصہیونی ریاست عام اسرائیلیوں میں یہودی رجعت کو ہوا دے کر اپنی حکمرانی کو مضبوط بناتی ہے۔ صہیونی ریاست کی سپریم کورٹ کے سابق صدر اہرون باراک کے مطابق ''اسرائیل دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔ یہ نہ صرف ایک جمہوری ریاست ہے بلکہ ایک یہودی ریاست بھی ہے‘‘۔ اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کو قانون، زمین، رہائش، خاندانی امور اور امیگریشن میں ایک منظم امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیلی حکومتیں ایک ہی بستی، گائوں اور شہر میں رہنے والے یہودیوں اور فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کی مسلسل کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ''فلسطینیوں کو محض ان کی نسل، قوم اور قومی پس منظر کی بنیاد پر منظم امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ انہیں بجلی، پانی، سکولوں اور سڑکوں تک کی رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے جبکہ نزدیک ہی رہنے والی یہودی آبادکاروں کو ریاست یہ تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسرائیل کے 43 فیصد شہروں میں رہائشی داخلہ کمیٹیاں، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے سے عدم مطابقت کی بنیاد پر درخواستوں کو مسترد کر دیتی ہیں‘‘۔ قانون کے دائرہ کار میں کام کرنے والی یہ کمیٹیاں ''عربوں کو یہودی علاقوں میں رہنے سے روکتی ہیں‘‘۔
خاندانی امور میں بھی فلسطینیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اسرائیلی شہریوں کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے شریک حیات اور بچوں کے لیے اسرائیل میں داخلے اور خاندان کے طور پر رہائش اختیار کرنے کے پرمٹ پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ یہ نسل پرستانہ قانون فلسطینی خاندانوں کو تقسیم اور میاں بیوی کو جدا کرتا ہے۔ 1948-50ء میں مقبوضہ علاقوں میں قائم نئی اسرائیلی ریاست نے متعصب قانون متعارف کروایا کہ دنیا بھر میں کوئی بھی یہودی اسرائیل میں سکونت اور شہریت حاصل کر سکتا ہے لیکن بے دخل کیے گئے فلسطینی مہاجرین سے شہریت چھین لی گئی اور وہ اب بھی واپس نہیں آ سکتے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تقریباً 5000 فلسطینی گھر مسمار کیے جا چکے ہیں۔ یہودی ریاست میں رہنے والے 17 لاکھ فلسطینیوں کو ملک کی صرف2.3 فیصد زمین حاصل ہے‘ جس کی وجہ سے ان کے شہر اور دیہات شدید گنجان ہو چکے ہیں اور وہ پرمٹ کے بغیر مکان تعمیر کرنے پر مجبور ہیں۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک کوئی نیا فلسطینی شہر یا گائوں نہیں بنا، جبکہ اسی دوران 600 نئی یہودی بلدیات قائم ہوئی ہیں۔
1967ء میں اسرائیلی قبضے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں 45 لاکھ فلسطینی اسرائیل کے فوجی جبر میں رہتے ہیں۔ اس نوآبادیاتی غلامی کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیلی فوج راتوں کو چھاپے مارتی ہے، فلسطینیوں کو بغیر کسی مقدمے یا الزام کے گرفتار کر لیتی ہے اور قیدیوں پر تشدد کرتی ہے۔ پُرامن احتجاج سمیت کسی بھی طرح کی مزاحمت کو جان لیوا تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن ستر برس کی تمام تر مشکلات اور جبر کے باوجود فلسطینیوں کے جذبۂ حریت کو دبایا نہیں جا سکا۔ کئی تحریکیں چلی ہیں‘ جن میں بڑی تحریکوں کو انتفادہ کہا جاتا ہے۔ تازہ ترین مثال اکتوبر2015ء میں غزہ، یروشلم اور مغربی کنارے میں ہونے والے مظاہرے ہیں جن میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 42 فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی کر دیے گئے تھے۔ فلسطینی مظاہرین کی سنگ باری کے خلاف اسرائیلی فوج ربڑ کی گولیاں، ربڑ چھڑی، سٹیل گولیاں اور براہ راست فائرنگ کرتے رہے۔ اسی دوران اسرائیل کے فلسطینی شہری بھی سڑکوں پر آ گئے اور ملک بھر میں کاروبار اور سکول بند کرکے عام ہڑتال کر دی۔ فلسطین کی بڑی پارٹیاں فتح، حماس اور پی ایل ایف پی کافی عرصے سے نسبتاً خاموش ہیں جبکہ صدر محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی ہر تحریک میں مظاہرین کو پُرامن رہنے کی تلقین کرتی ہے۔
فلسطینیوں کی کئی نسلوں کی جدوجہد قومی یا طبقاتی آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ 60 اور 70ء کی دہائیوں کی مسلح جدوجہد سے لے کر مذاکرات تک کئی طرح کی حکمت عملیاں نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔ سب سے موثر طریقہ انتفادہ کی عوامی بغاوت رہی‘ لیکن یہ بھی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کی بڑی وجہ واضح پروگرام، تناظر، حکمت عملی اور نظام کا خاتمہ کرنے کی انقلابی قیادت کی کمی ہے۔
مسلح جدوجہد کے انفرادی تشدد کے واقعات سے وقتی طور پر فلسطینی کاز کی تشہیر تو ضرور ہوئی لیکن آخری تجزیے میں یہ الٹا نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ صہیونی ریاست نے ان کارروائیوں کو یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جس سے ظالم اسرائیلی ریاست کے حکمرانی جبر کو تقو یت پہنچی۔ صہیونی جرنیلوں نے اس کارروائی کو ریاستی دہشت گردی کا جواز بناتے ہوئے نہتے فلسطینی عوام پر ظلم اور جبر کو مزید بد تر کر دیا۔ تشدد کی ہر کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج فلسطینی عوام پر ظلم کا ایک نیا پہاڑ توڑ دیتی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ، اوسلو اور امریکی اور یورپی سامراجوں کی پشت پناہی سے ہونے والے دوسرے معاہدے پہلے دن سے ہی ناکام ہیں۔ اسرائیل مذہب کے نام پر قائم ایک مصنوعی ریاست ہے جس کا مقصد ہی خطے میں سامراجی مقاصد اور مفادات کا تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں مسلسل عدم استحکام رکھنا ہے تاکہ سامراجی اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکیں۔ وہ اسرائیل کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں! اقوام متحدہ، نام نہاد عالمی برادری اور دیگر ایسے فریب بار بار بے نقاب ہوتے رہے ہیں جب عوام تحریکوں میں شامل ہو کر سرمایہ داری اور سامراج کے مفاد کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان عالمی اداروں کی جانبداری اور سامراج کی کاسہ لیسی فلسطین سے کشمیر تک عیاں ہے۔
اسی طرح فلسطینی قیادت میں بائیں بازو کا زوال اور بنیاد پرستوں کی جانب سے کارروائیوں سے اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے درمیان تعصب اور اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔ صہیونی قیادت یہی تو چاہتی ہے۔ دونوں اطراف کا تعصب اور نفرت ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں‘ لیکن اس سے بھی بدتر وہ قدیم اور خوفناک قوانین اور جبر ہے جو بنیاد پرست فلسطینی عوام پر مسلط کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام ثقافتی اور سماجی لحاظ سے مشرق وسطیٰ کے کئی دوسرے سماجوں سے زیادہ ترقی پسند رہے ہیں۔ بنیاد پرستوں کی وجہ سے فلسطینی تحریک کا ترقی پسند اور انقلابی تشخص مجروح ہو گیا ہے۔
اسرائیل میں طبقاتی جدوجہد کی سب سے بڑی تحریک 2011ء کے اگست میں ابھری تھی۔ بنیادی طور پر یہ شمالی افریقہ اور عرب ممالک میں چلنے والی تحریکوں سے متاثر تھی۔ ان تحریکوں کے پیچھے جانے سے خطے میں خونریزی، دہشت گردی، بربادی اور بربریت کے عناصر سامنے آئے۔ اسرائیل میں رجعت کو تقویت ملی اور نیتن یاہو کی خونخوار حکومت مضبوط ہوئی ‘ لیکن یہ سب عارضی ہے۔ یہ واضح ہے کہ نشیب اور فراز، انقلاب اور رجعت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور عرب ممالک، فلسطین اور اسرائیل میں یہ ایک ہی وقت میں سامنے آئے ہیں۔
اس کا سبق یہ ہے کہ جدوجہد کے ان تمام دھاروں کو یکجا کرکے ہی حقیقی معنوں میں قومی، سماجی اور معاشی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ دو ریاستوں پر مبنی حل پہلے دن سے ناقابل عمل تھا۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں بسنے والے سترہ لاکھ فلسطینی باقی فلسطینی آبادی سے کٹ جائیں گے۔ ایک طاقتور صہیونی ریاست کی موجودگی میں ایک کمزور اور دوسروں پر منحصر فلسطینی ریاست معاشی اور سیاسی طور پر کس طرح آزاد اور خودمختار ہو سکتی ہے؟ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں نے ہمیشہ اس مسئلے کو اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو زائل کر نے کے لیے استعمال کیا۔ اس کا واحد حل صہیونی نو آباد کاریوں اور اس خطے کی بوسیدہ حکومتوں کے خاتمے کے لیے مظلوم محنت کشوں اور نوجوانوں کی طبقاتی جڑت اور انقلابی جدوجہد ہے۔ فلسطین کی آزادی کا راستہ یروشلم کی گلیوں سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں