ہمارے حکمران جمہوریت کو اس سرمائے کی حاکمیت کے تحت رہنے والے محروم، غریب اوراستحصال زدہ عوام کی تقدیر گردانتے ہیں۔ہمیں اس بات کوماننا پڑے گا کہ اس جمہوری حاکمیت میں صرف امیر، مراعات یافتہ، طاقتور طبقات اور نودولتیے ہی اپنی لوٹ مار،بلیک میلنگ اوربھتہ خوری کے جرائم کے ذریعے منتخب ہوکر طاقت کے ایوانوں میں جاسکتے ہیںاورحاکمیت کا حق رکھتے ہیں۔ حکمران طبقات اوران کے سامراجی آقا میڈیا، انٹیلی جنشیا اورملائیت پراپنے کنٹرول کے ذریعے اپنی جابرانہ حاکمیت کواس جمہوری ناٹک کے ذریعے نافذ کرتے ہیں۔
لیکن اس عمل نے محکوم عوام کو مزید مایوس اوربد دل کردیاہے اورسیاست سے مجموعی طور پر ایک شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان کرپشن کے الزامات کے گرد ہونے والی نوراکشتی نے سیاسی منظرنامے کو عوام کے لیے مزید کراہت آمیزبنا دیاہے۔ عدلیہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمی اورایک فوجی بغاوت کے خطرے کوسیاسی اشرافیہ،جمہوریت کے نام پر،اپنے جرائم اورلوٹ مارکوچھپانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔لیکن سب سے بڑھ کریہ کہ میڈیاسیاسی اورریاستی اشرافیہ کے درمیان ان مصنوعی تنازعات اورنوراکشتی کوبڑھاچڑھاکرپیش کر رہے ہیں تاکہ عوام کی توجہ کوان کے حقیقی مسائل سے ہٹاکر ان مسائل کو ہی منظرعام سے غائب کیا جاسکے جس نے ان کی زندگیوں کو محرومیوں اورعذاب میں مبتلاکررکھا ہے۔
معاشی حالت اتنی خراب اورسماجی انتشاراتنازیادہ ہے کہ فوج براہ راست مداخلت نہیں کرسکتی۔جرنیلوں کو اس بات کابخوبی ادراک ہے۔ لیکن فوجی بغاوت کے خطرے کو مبالغہ سے پیش کیا جارہا ہے تاکہ عوام کو فریب دیا جاسکے اور انکو یہ باورکرایاجاسکے کہ جمہوریت ان کی حتمی منزل ہے۔جبکہ اسی جمہوریت میں ان کی زندگیاں مزید اجیرن ہوگئی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اس تاثرکو مزیدتقویت مل رہی ہے۔بدعنوان سیاست دانوں کو اپنی لوٹ مار کے لیے ریاستی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ براہ راست فوجی حکمرانی کے ادوار کی نسبت 'جمہوری‘ حکومتوں کے دوران فوجی اشرافیہ کی مراعات اور بجٹ میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے کئی مواقع آئے جب براہ راست مداخلت کے ذریعے مارشل لا کانفاذکیا جا سکتا تھا تاکہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے معیشت اور سماج میں پھیلائے ہوئے انتشار کو قابو کیا جاسکے۔ لیکن کوئی بھی جابر حکومت بالآخر مزید بدعنوان اور غیر مستحکم بن جاتی ہے۔ نتیجتاً 'جمہوریت‘ کی طرف واپسی کاراستہ ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ماضی کی فوجی آمریتوں کے دوران سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ محنت کش طبقے کا شعور پیچھے چلا گیا اور سماجی شعور میں اس بات نے سرائیت کی کہ بورژوا جمہوریت شاید اس نظام کی خرابیوں کو دور کرسکتی ہے۔ لیکن چیزیں بالکل الٹ ہوگئیں اور پچھلی جمہوری حکومتوں نے عوام کو وہ سزا دی ہے کہ اب جمہوریت کے نام پر عوام کو مزید دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔
تاہم جمہوریت ایک ایسی پُر فریب چیز ہیجو ہٹلر جیسے فاشسٹوں کو فتح دلاسکتی ہے اور مذہبی بنیادپرستوں کو اقتدار میں لاکر سماج پر سیاہ رجعت نافذ کرسکتی ہے۔2007-8ء کے عالمی سرمایہ داری کے بحران کے بعد ہونے والے حالیہ انتخابات نے واضح کردیا ہے کہ کس طرح غیر منتخب اور قابل نفرت بینکار اور مالیاتی سوداگر درحقیقت کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کے اہم ترین فیصلے کرتے ہیں۔ بریگزٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات نے ایک دفعہ پھر، حتیٰ کہ جوترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں جمہوریت کا ماخذ کہلاتے ہیں ،ان جمہوری حکومتوں پر سے نوجوانوں اور محنت کشوں کے یقین کو ختم کردیا ہے۔
گارڈین میں ایک حالیہ مضمون میںصورت حال کو اس طرح پیش کیا گیا ہے، ''انتخابات کا تعین پیسہ، لابیاں اور میڈیا کرتے ہیں،تمام بڑی پارٹیوں کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں، کوئی حقیقی متبادل نہیں؛ پارلیمنٹ اور دوسرے سیاسی اداروں کا کردار ختم ہورہا ہے اور ان کے اختیارات غیرجوابدہ اداروں کو منتقل ہورہے ہیں؛ یہ مایوسی اور بددلی کا مکمل نسخہ ہے۔۔۔ سیاست میں پیسے کی طاقت نے ہر چیز کو زہر آلود کردیا ہے۔بینک پرفریب مالیاتی اوزار ایجاد کررہے ہیں؛ دواساز کمپنیاں زائدالمیعاد ادویات فروخت کر رہی ہیں، جوئے باز کمپنیاں قواعد کو توڑ رہی ہیں، غذائی کمپنیاں موٹاپے کی وجہ بننے والی غذائیں فروخت کر رہی ہیں؛ ریٹیل کمپنیاں مزدوروں کا استحصال کررہی ہیں۔ اکائونٹنٹس ٹیکس چوری کے طریقے ایجاد کررہے ہیں، سب سیاسی برتری کے حصول میں مصروف ہیں۔۔۔نظام ان کی توقعات کو پورا کرنے میں لگا ہواہے۔‘‘
لینن کو سرمایہ دارانہ سماج میں اس جمہوریت کی اصل کردار کے بارے میں خوب پتاتھا۔اس نے لکھا، ''یہ محنت کش طبقے اور استحصال زدہ طبقات کے ساتھ کھلا مذاق ہے کہ جمہوریت ، خالص جمہوریت، مساوات، آزادی اور آفاقی حقوق کی بات کی جائے جبکہ سرمایہ دارانہ اجرتی غلامی اور چار سالوں کی غارت گر جنگوں کی وجہ سے محنت کش طبقے کو خوراک اور پوشاک میسر نہیں اور وہ برباد ہوچکے ہوں۔جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار اور منافع خور'پہلے سے موجود‘ ریاستی طاقت کی مشینری اور 'جائیداد‘ کے مالک ہوں۔ ۔۔۔یہ مارکسزم کی بنیادی تعلیم کو پامال کرنے کے مترادف ہے جو مزدوروں کو یہ سکھاتی ہے کہ آپ کو بورژوا جمہوریت سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو جاگیرداری کی نسبت ایک عظیم تاریخی پیشرفت ہے لیکن آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی اس 'جمہوریت‘ کے بورژوا، مشروط اور محدود کردار کو نظروں سے اوجھل نہیں کرنا چاہیے۔ کبھی بھی ریاست پر توہماتی عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے اور یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ریاست نہ صرف شہنشاہیت بلکہ حتیٰ کہ سب سے جمہوری ریپبلک میں بھی ایک طبقے کو دبانے کے لیے دوسرے طبقے کا آلہ ہے۔ بورژوازی کو منافقت کرنی پڑتی ہے کہ وہ عمومی طور پر جمہوریت یا خالص جمہوریت یا بورژوا جمہوری رپبلک کو 'عوامی حکومت‘ کے طور پر پیش کرے جو عملاً بورژوازی کی آمریت ہی ہے۔ محنت کش طبقے پر استحصال کرنے والوں کی آمریت ۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ نابرابری، استحصال اور محرومی کی حامل معیشت اور سماج میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت نہیں ہوسکتی۔ ایک ایسا سماج میں جہاں پیسے والوں کو سماجی اور اخلاقی برتری حاصل ہو وہاں محکوم طبقات کی اکثریت کو کبھی بھی حقیقی جمہوریت تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اپنی سیاست کے ذریعے شریک یا اثرانداز ہوسکتی ہے۔ مذہبی بنیادپرستی سے لے کر قوم پرستی، لبرل ازم اور سیکولرازم تک تمام نظریات کو سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ مار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام اب انتمام 'نظریات‘ سے تنگ آچکے ہیں۔ ان سب نے انہیں صرف بھوک، بے روزگاری، صحت اور تعلیم کی زوال پذیری اور غربت اور محرومی دی ہے۔ اسی وجہ سے ٹائم پیو انسٹیٹیوٹ کے سروے کے مطابق پاکستان کی صرف 12فیصد آبادی موجودہ سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے۔
تاہم سیاست سے اس بیزاری کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عوام مکمل طور پر غیرمتحرک ہیں یا بے حس ہوچکے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے مفاد میں نہیں ۔ انہیں ان بدترین حالات میں بھی جینا اور زندہ رہنا اور زندگی کی ضروریات کے لیے جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔ اگرچہ سیاسی اشرافیہ سے وہ شدید نفرت کرتے ہیں اور سیاسی افق پر کوئی ایسا سیاسی متبادل نہیں ہے جو ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی محرومی کوختم کرنے کی بات کرے لیکن اس کے باوجود ان کی تبدیلی کی خواہش کبھی بھی نہیں مرسکتی۔ تحریک انتہائی غیر متوقع حالات میں بھی جنم لے سکتی ہے۔ عوامی تحریک جب انقلابی کردار اپنا لیتی ہے تو طبقاتی جدوجہد کی حدت کے دوران سماج کی کوکھ سے ہی انقلابی قیادت تراش لاتی ہے۔ اگر یہ تحریک جبر اور استحصال کے اس سماجی معاشی نظام کو اکھاڑ کر پھینک دے تو ایک ایسا سماج جنم لے گا جو محرومی اور مانگ کا خاتمہ کرے گا۔ اس محرومی اور مانگ کے نظام کو ختم کرکے ہی ایک ایسی جمہوریت جنم لے سکتی ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہو۔