کئی سالوں سے عدلیہ کی مختلف ریاستی، معاشرتی اور اقتصادی شعبوں میں مداخلت بڑھ گئی ہے۔ حال ہی میں اعلیٰ عدالت کے ایک جج صاحب نے تمام سرکاری اور معاشرتی شعبوں میں اردو کو نافذ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے، لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیںہوا ہے۔ ایسے قوانین اور فیصلے حکمرانوں کے ایوانوں میں ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد70سال بعد بھی نہیں ہوسکا۔ ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس نااہلی کی بنیادوں سے یا تو بالکل ہی بے بہرہ ہیں یا پھر یہ جانتے ہوئے کہ اس مروجہ نظام کے اندر موجود وسائل میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ نظام کو ترقی دینے پر درکار اخراجات کرسکیں،اس لیے ایسے ایشوز کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ اردو برصغیر کی نسبتاً نئی زبانوں میں شامل ہوتی ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں فارسی زبان کئی صدیوں تک سرکاری وکاروباری معاملات میں استعمال ہوتی تھی ۔
انگریزشاید وہ واحد بیرونی حملہ آور تھے جو یہاں کی تہذیب اور معاشرت میں اپنے آپ کو سمو نہیں سکے۔ ان سے پیشتر جتنے بھی بیرونی حملہ آور آئے، جن میں آریائوں سے لے کر مغل سلطنت کے بادشاہ شامل تھے، نسبتاً پسماندہ ، کٹھن اور غیر زرخیز علاقوں سے آئے تھے۔ سندھ اور گنگا کے دریائی سلسلوںاور ہمالیہ سے نکلنے والی پانی کی لہروں میں مٹی کے جزیات اس زرخیزی اور لہلاتے کھیتوں اور جنگلات کا باعث بنے۔ اس لیے یہاں کی مخصوص سماجی پرتوں اور ڈھانچوں کو چھیڑے بغیر بیرونی حملہ آور عسکری
طاقت سے حاکمیت تو حاصل کرسکتے تھے لیکن یہاں کی بنیادی دیہات اور کھیتوں کی زندگی صدیوں سے ایک ہی طرزِارتقا پر چلتی رہی ۔ انگریز اس لیے یہاں کی ثقافت اور معاشرت میں نہیں سموئے جا سکے کہ برطاینہ میں صنعتی انقلاب واقع ہوچکا تھا اور اس کی ٹیکنالوجی برصغیر میں موجود ان ذرائع پیداوار وتیکنک سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی تھی۔ انگریزوں کے آنے سے برصغیر کی نئی ابھرنے والی اشرافیہ نے انگریزی سیکھنے کی ضرورت کو محسوس کیا، تاکہ وہ بالادست پرتوں کا حصہ بن سکے۔ انگریزوں نے یہاںہر شعبے میں ہر طرح کی''ترقی‘‘ اور ''تبدیلی‘‘ کو سامراجی غلبے اور لوٹ مار کے نقطہ نظر سے ترویج دیا۔ ان کے ہر عمل کے پیچھے ان کے راج کے مفادات اور تقاضے ہوتے تھے۔ یہاں کے مقامی باسیوں کو تقسیم کرنے کا قدیم روم والا طریقہ کار ہر طرح سے رائج کیا گیا ۔ اور اس میں زبانوں کی تقسیم بھی تھی۔ جہاں ہندو بنیاد پرستوں نے سنسکرت کو ابھارا وہاں انگریزو ں نے مذہبی تفریق کو ابھارنے کے لیے اردو کو ایک محدود حد تک ترقی دی۔ یہ کام زیادہ تر فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور گورنمٹ کالج لاہورجیسے اداروں میں کیا جاتا رہا۔ لیکن انگریز سامراج کے تحت اردو کو ایک مسخ اور ناہموار انداز میں رائج کیا گیا۔ سائنس، قانون اور دوسرے کلیدی ریاستی اور اقتصادی شعبوں پرانگریزی ہی حاوی رہی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے کسی بھی علاقے کی مادری زبان اردو بھی نہیں تھی۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمران طبقات کی ایک نئے ملک ،ریاست اور معاشرے کے تہذیبی واقتصادی اور ثقافتی مظاہر کے لیے کوئی زیادہ تیاری نہیں تھی۔ اسی لیے پاکستان بننے کے 70سال بعد بھی پاکستان ایک جدید صنعتی ریاست اور سماج نہیں بن سکا‘ یہی زبان اور ثقافت کا بھی مسئلہ ہے۔
کارل مارکس نے لکھا تھا کہ '' کسی سماج پر حاوی زبان اس معاشرے کے تجارتی تعلقات کے لیے درکار زبان ہوتی ہے‘‘۔ انگریزی زبان کا دنیا بھر میں غلبہ میں ان کے اقتصادی اور معاشی‘ سامراجی تسلط کی وجہ سے ہی ہے۔ اس گلوبلائزیشن کے عہد میں یہ زبان ضرورت سے زیادہ مجبوری بن گئی۔عمومی طور پر جدید سائنس اور علوم کے لیے زبان کو ان معیاروں کے لیے ترقی دینا ناگزیر ہوتاہے کہ اس زبان میں یہ پیچیدہ امور طے کیے جاسکیں۔ عدلیہ کا ہی سلسلہ دیکھ لیں آج بھی بیشتر عدالتی فیصلے اور معمولات انگزیری میں ہی چلتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم شعبے مثلاً طب، جراحی وغیرہ ایڈوانس سائنس کے مضامین ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹری ادویات اور نسخے سبھی انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ بہت سے جدید آلات ، نئی ایجادات اور معمول کی عام اشیاء اور محاورے انگریزی میں ان پڑھ انسانوں کے لیے پڑھنا آسان ہیں۔ اگر اردو میں صرف ا س شعبے میںزبان تبدیل کردی جائے تو اس کے لیے بھی بے پناہ اخراجات،محنت اور وسیع کام درکار ہے۔یہی صورتحال دوسرے سائنسی اور جدید علوم کی ہے۔ لیکن اس نظام ِزر اور حکمران طبقے کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ عام انسانوں کو علاج ،غذا، تعلیم ، پانی ،بجلی اور دوسری بنیادی اوراجتماعی ضروریات فراہم کر سکے تو یہ زبان کی ترقی پر کیا خرچ کرسکتے ہیں اور اسے کیسے جدید بنا سکتے ہیں !اس کے لیے بہت سے ادارے بنتے رہے ہیں اور بن بھی رہے ہیں لیکن اردو مختلف قومیتوں اور علاقوں کے درمیان عام سمجھ بوجھ اور ہمکلامی کی زبان تو کسی حد تک بنی ہے لیکن جب گفتگو اور موضوعات زیادہ پیچیدہ اور ایڈوانس ہوتے جاتے ہیں وہاں اس کے استعمال کی محدودیت رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اسی طرح علاقائی زبانوں کو بھی قطعاً ترقی نہیں دی جاسکی۔ سندھی کے علاوہ کوئی مقامی وعلاقائی زبان لکھنے پڑھنے کے لیے ناکافی ہوتی چلی گئی ۔ پنجاب کے حکمرانوں نے سب سے زیادہ بربادی تو پنجاب کی ثقافت اور پنجابی زبان کی‘ کی ہے ۔یہ درست ہے کہ اس میں بٹوارے کا ایک تباہ کن کردار تھا لیکن اردو کو ہی ترقی دیتے دیتے ان حکمرانوں نے پنجابی کو اب زوال پذیر زبانوں کی فہرست میں شامل کروادیا ہے۔ لیکن اردو کو بھی اتنی ترقی نہیں دے سکے کہ وہ ایک جدید قومی اور سائنسی زبان بن سکتی۔
جب 1948ء میں اسرائیل کی مصنوعی ریاست ایک صیہونی اور سامراجی سازش کے لیے تشکیل دی گئی تو سامراجیوں نے ایک متروک اور قدیم 'عبرانی ‘زبان کو زندہ اور اسکو جدیدیت دینے کے لیے اس وقت کے 80 ملین ڈالر صرف کیے تھے، جو آج کی قیمتوں میں اس سے 10گناہ زیادہ رقم بنتی ہے۔ لیکن پاکستان کی ریاست تو آغاز سے ہی اُسی نوآبادیاتی ڈھانچے پر چلانی پڑی تھی جس کو برصغیر میں انگریزوں نے رائج کیا تھا۔ آج بھی وہی ڈھانچے موجود ہیں۔ رویے اور طریقہ کار بھی گوروں کی جگہ گندمی حکمرانوں کے آنے سے قطعاً نہیں بدلے لیکن آغاز سے ہی اس معاشی طور پر کنگال اور سماجی طو ر پسماندہ مملکت میں اتنی مالیاتی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ اردو کو ترقی دے سکے۔ مسئلہ یہی ہے کہ جب حکمران اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت ہی بدعنوانی اور ناجائز ذرائع کے بغیر قائم نہیں رکھ سکتے تووہ روٹی روزی سے لے کر زبانوں کی ترقی کی فراہمی کو کیسے حقیقت بنا سکتے ہیں! جو نظام محرومی اورکنگالی کا شکار ہو وہاں معاشرے کی زندگی، ثقافت اورتہذیب بھی ناہموار، پیچیدہ اور اذیت ناک بن جاتی ہیں۔