"DLK" (space) message & send to 7575

طبقاتی سماج میں تہوار

رمضان کے مہینے میں بھی مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی رہی۔ غریب رسوا اور عوام برباد ہوتے رہے۔ کارپوریٹ میڈیا نے بیہودہ تماشے جاری رکھے۔ میڈیا نے بالخصوص پچھلے چند سالوں میں مذہبی تہواروں کو بری طرح سے کمرشلائز کرکے اپنی منافع خوری کا ایک نیا ذریعہ بنا لیا ہے۔ 
بھیک، خیرات، 'چیریٹی‘ وغیرہ اس طبقاتی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے بنیادی اجزا ہیں۔ رمضان کے مہینے اور عیدین کے تہواروں پر یہ عمل شدت اختیار کر جاتا ہے۔ محروموں کو خیرات دے کر مخیر حضرات اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیتے ہیں لیکن بھیک لینے والوں کی دنیا سنورتی ہے نہ آخرت۔ بھوکا رہ کر غریبوں کا درد سمجھنے کے درس دیے جاتے ہیں۔ فطرانہ دے کر ضمیر کے بوجھ ہلکے کئے جاتے ہیں۔ سارا سال محنت کش عوام کا خون چوسنے والے چند دن کی ''سخاوت‘‘ کے ذریعے اپنی لوٹ مار، استحصال اور کالے دھن کو جائز بنا لیتے ہیں۔ سامراج کی امداد پر پلنے والی این جی اوز ہوں یا ''چندہ‘‘ لینے دینے والی مذہبی تنظیمیں، جوں جوں بھیک کا کاروبار بڑھ کر کمرشلائز ہوا ہے، غربت زیادہ بھیانک شکل اختیار کر گئی ہے۔ یہاں ایک طرف اگر دولت کی اس قدر بہتات ہے کہ چند خاندان بیرونی امیر ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں بھی آسودہ حال اور انتہائی مہنگی رہائش گاہیں رکھتے ہیں تو دوسری طرف یہ عالم ہے کہ پاکستان کے اندر صرف 37 فیصد گھرانوں کو ہی اپنی چھت دستیاب ہے۔ پاکستان کی 82 فیصد آبادی کو چودہ افراد کے لیے محض ایک کمرے کا گھر دستیاب ہے۔
ایک طرف حکمرانوں کی افطار پارٹیوں اور ڈنرز میں لاکھوں روپوں کے پرتعش کھانے ضائع ہوتے ہیں تو دوسری طرف
غریبوں کو روزہ کھولنے کیلئے کھجوریں بھی میسر نہیں ہوتیں۔ مناسب اور صحت بخش غذا تو دور کی بات اس ملک میں آبادی کی اکثریت پینے کے صاف پانی کو ترس رہی ہے۔ رمضان میں بھکاریوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ خیرات کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ حکمران اور درمیانے طبقے کے افراد غریبوں کی طرف چند سکے اچھال کر مصنوعی مسرت حاصل کرتے ہیں۔ بھیک دینے والوں کو ایک طرف اپنے بالادست سماجی رتبے کا احساس ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ خود کو نیک، متقی اور اعلیٰ انسان ہونے کا دلاسا دیتے ہیں۔
خیرات کا عمل طبقاتی سماج کے آغاز سے ہی چلا آ رہا ہے۔ سماج پر مسلط کی جانے والی حکمران طبقے کی ہر اخلاقی قدر استحصالی نظام کو جواز اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔ خیرات امیر سے لے کر غریب کو دی جاتی ہے۔ یوں اس کے ذریعے اس چیز کو فطری قانون بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ غربت اور امارت کی تفریق ایک ازلی و ابدی سچائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بل گیٹس سے لے کر پاکستان میں کالے دھن کے بڑے بڑے ان داتائوں تک، ''چیریٹی‘‘ دنیا بھر میں حکمران طبقے کی منافقانہ اخلاقیات کا بنیادی جزو ہے۔ میرے خیال میں طبقاتی تفریق کو اخلاقی تقدس فراہم کرنے والی بھیک ایک بیمار اور غیر منصفانہ معاشرے کی علامت ہوتی ہے۔ بھیک یا 'چیریٹی‘ کے ذریعے غربت کے خاتمے کے خواب دیکھنا اصلاح پسندی کی سب سے مکروہ شکل ہے۔ غربت کے سمندر میں سے مٹھی بھر ناداروں کو 
بھیک یا خیرات کے ذریعے ایک وقت کی روٹی تو شاید مل جائے لیکن بھیک لینے والے کی روح چھلنی، نفسیات مجروح اور شعور مسخ ہو جاتے ہیں۔ 
دولت کے انبار لگا کر ''سخی‘‘ بن جانے اور پھر سخاوت سے شہرت حاصل کرنے والے خواتین و حضرات کون ہیں؟ یہ سرمایہ دار اور وڈیرے سب سے بڑے لٹیرے ہیں جن کی عیاشیاں اور مراعات محنت کش طبقات کے خون پسینے اور آنسوئوں کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے سے مشروط ہیں۔ حکمران طبقہ صرف ریاستی جبر کے ذریعے اپنی طبقاتی بالادستی قائم نہیں رکھ سکتا۔ اخلاقی جواز اور تقدس کے ذریعے استحصال کو ''قدرتی‘‘ ثابت کئے بغیر طبقاتی نظام ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ حکمران اپنے سرمائے سے سیاست اور ثقافت سمیت ہر سماجی قدر کو خرید لیتے ہیں۔ اس نظام کے تمام مفکر، اہل دانش، فنکار، ملا اور سیاسی رہنما بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر حکمران طبقے کی اقدار کا پرچار کرتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا غلامی کی سوچ عوام پر ٹھونستا ہے۔
اس سماج میں ثقافت اور سیاست مٹھی بھر سیٹھوں کی باندیاں ہیں۔ یہاں فن کی قیمت منڈی میںلگتی ہے۔ ہر اچھائی اور برائی کا تعین سرمائے کی اقدار کرتی ہیں۔ عوام کو کبھی دکھی کیا جاتا ہے تو کبھی جعلی خوشیوں کے ناٹک کروائے جاتے ہیں۔ ہر ثقافتی تہوار کو اس نظام کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پورا معاشرہ خوشحال اور اس کا ہر فرد تفریح میں مشغول ہے۔ درحقیقت اقلیتی طبقے کی یہ ''خوشیاں‘‘ مہنگائی اور بے روزگاری سے بدحال محنت کش عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کرتی ہیں۔ محرومی کے ان زخموں پر جعلی جشن کا نمک انڈیل کر محنت کشوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ 
یہ سرمایہ دارانہ سماج وحشت سے بھرا جنگل ہے جس پر بے بسوں کا گوشت نوچنے والے بھیڑیے راج کر رہے ہیں۔ عوام غربت، بھوک اور افلاس کی گہرائیوں میں غرق ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تہوار اور عید کی خوشیاں بھی طبقاتی ہیں۔ اِس نظام میں یہ خوشیاں حکمرانوں کی ملکیت ہیں اور غم غریبوں کا مقدر۔ حکمرانوں کے لئے ہر روز عید کا جشن ہوتا ہے اور محنت کش کے گھروندوں میں عید کے دن بھی بھوک اور محرومی ناچتی ہے۔ ہر شہر میں بسنے والے افراد بھی دو طرح کی عیدیں منا رہے ہیں۔ عید جہاں امیروں کے لئے خوشی کا باعث ہے وہاں غریبوں کو محرومی اور احساس کمتری کے تکلیف دہ احساس میں مبتلا کرکے چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف امرا اور ان کے بچوں کی ہر روز عید ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ اس ملک کے اکثریتی گھرانوں میں والدین کے سروں پر عید کی خبر بجلی بن کر گرتی ہے، کیونکہ بچوں کے لیے نئے کپڑے‘ جوتے اور دوسری اشیا خریدنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔
محنت کش بھلا اپنی محرومی کا جشن کب تک منائیں گے؟ وہ اس ذلت میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ ان کی زندگی تو صدا خوشیوں سے محروم رہتی ہے۔ وہ بچن سے سیدھے بڑھاپے میں داخل ہوتے ہیں۔ فن لطافت اور راحت تو حکمرانوں کی لونڈیاں ہیں۔ غریب کو تو مسکرانے کا ادھیکار بھی نہیں ہے۔
لیکن دکھ میں بھی ایک درد پلتا ہے۔ محکومی کی کوکھ سے بغاوت جنم لیتی ہے۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ جب یہ حد پار ہو جائے تو محنت کشوں کے لہو میں سرایت کرکے انقلاب شریانوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ تحریکیں ابھرتی ہیں، انقلابات کے طوفان امڈتے ہیں اور ذلت کے سماجوں کو نیست و نابود کر ڈالتے ہیں۔ اس نظام زر کو اکھاڑ دینے والے طوفان کے آثار سماجی افق پر واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سماجی اور طبقاتی تفریق کو ختم کیے بغیر اس معاشرے میں حقیقی خوشیوں کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا اور اس خواب کو تعبیر کرنے کے لیے محنت کشوں کو نوجوانوں اور کسانوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی عالمگیر تحریک چلانا ہو گی جو اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طبقات کا خاتمہ کر دے۔
یہ سرمایہ دارانہ سماج وحشت سے بھرا جنگل ہے جس پر بے بسوں کا گوشت نوچنے والے بھیڑیے راج کر رہے ہیں۔ عوام غربت، بھوک اور افلاس کی گہرائیوں میں غرق ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تہوار اور عید کی خوشیاں بھی طبقاتی ہیں۔ اِس نظام میں یہ خوشیاں حکمرانوں کی ملکیت ہیں اور غم غریبوں کا مقدر۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں