"DLK" (space) message & send to 7575

کون اپنا ‘کون پرایا؟

جب کسی معاشرے پر ز و ا ل آ تا ہے تو اس کے ر شتوں، نا طوں، قد ر و ں ا و ر ڈھانچوں کا اصل روپ بے نقاب ہوتا ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ ''برے وقت میں تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ لیکن انسان ہے کہ مانتا نہیں۔ سب کچھ جان کر بھی جھوٹے رشتوں اور سرد مہر آسروں پر تکیہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
سما جی نظا م کا بحر ا ن صر ف ا سکی معیشت ‘ سیاست ‘ثقا فت‘ صحا فت ا و ر ر یا ست کی ہی تنزلی کا مرتکب نہیں ہو تا بلکہ ا سکے ہر ڈ ھا نچے ہر ر شتے کو کھو کھلا ا و ر نا قابل ا عتبا ر بنا د یتا ہے ۔ عا م طو ر پر لو گو ں میں ا س بیگانگی کے عا لم میں خا ند ا ن پر ا نحصا ر کا ایک لا شعو ر ی سا آ سر ا ہو تا ہے ۔ لیکن جب مفا د ا ت ا و ر مالیات کے تقاضوں کے تھپیڑ و ں کا سا منا ہو تا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کو ن ا پنا ‘ کو ن پر ا یا ہے۔ خا ند ا ن کا ڈ ھا نچہ سما ج کا بنیا د ی یو نٹ تصو ر کیا جا تا ہے ۔ ظا ہر ی ا و ر ر و ایتی طور پر جذبات اور لگن کے رشتوں پر مبنی اس خاندان میں ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کے تصورات سماجی نفسیات میں پائے جاتے ہیں۔ ایک مخصوص عہد اور نظام میں شاید اسکی افادیت بھی تھی۔لیکن جوں جوں نظامِ زر نے اس معاشرے میں کسی طاعون کی طرح سرایت کی ہے‘ اس کے خاندان کو بھی کھوکھلا کر ڈالا ہے۔ رشتوں کی پہچان اب مالیاتی حیثیتوں اور سماجی رتبوں پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی بیروزگار نوجوان کی جانب اس کے جاذب ترین خونی رشتوں کی نظریں بھی بدل جاتی ہیں‘ اجتناب کرنے لگتی ہیں۔امارت اور غربت کا فرق خاندان کو بھی طبقاتی بنیادوں پر دولخت کردیتا ہے۔امیر گھرانوں میں پلنے والے غریب رشتہ دار جس اذیت سے گزرتے ہیں عمر بھر اس کے عذاب سے نکل نہیں سکتے۔ ماضی کے وہ خاندان جس کا تصور افسانوں اور داستانوں میں ملا کرتا تھا آج سردمہری سے مٹ گیا ہے۔
ا ب سما جی حیثیت خا ند ا نی ر تبے کا تعین کر تی ہے ا و ر یہ سما جی حیثیت د و لت ا و ر طاقت کی لو نڈ ی ہوتی ہے۔ ایک طبقا تی نظا م میں خا ند ا ن ر جعتی کر د ا ر کا ا س لیے حامل ہو جا تا ہے کیو نکہ خا ند ا ن میں مقام بنانے کے لیے ہر نا طہ‘ ہر خو نی رشتہ ا و ر ہر جذبا تی لگا ؤ کا تعلق صر ف یہی ترغیب د یتا ہے کہ ''معا شرے میں ا پنا مقا م بنا ؤ!‘‘ یہ مقا م بنا نے کے لیے ا س سماج میں نہ صر ف ضمیر کے سودے کر نے پڑ تے ہیں بلکہ دولت کے حصول کی اس ا ند ھی د و ڑ میں ہر کسی کو ر و ند کر آ گے بڑ ھنے کی دیوانگی اپنے خونی رشتوں ا و ر قر یبی عز یز و ں کو بھی معا ف نہیں کرتی۔ 
ہر و ہ کا و ش‘ ہر و ہ جد و جہد جو ا ن گھٹیا ا و ر ما د ی مفا د ا ت سے ہٹ کر ہو‘ فن ا و ر ثقافت کے مید ا ن میں ہو یا ا س سماج کو بد لنے ا و ر نسلِ انسانیت کی نجا ت کے عظیم مقصد کے لیے ہو خا ند ا ن کی نظر میں ہیچ ا و ر تضحیک آمیز بن جا تی ہے۔ کیو نکہ جس خاند ا ن کی ا پنی بنیا د یں سر ما ئے کی بیسا کھیو ں کے آ سر ے پر ہو ں و ہ ا س معا شر ے کی د ی ہو ئی نفسیا تی ا و ر جذ بو ں کی اپا ہجی سے بھلا کیسے آ ز ا د ہو نے د ے گا۔ جب ہر معیاد‘ ہر تقدس ‘ ہر محبت ا و ر ہر نا طے کی قیمت لگ جا ئے تو و ہ ایک با ز ا ر ی جنس کے علاوہ کیا ر ہ جا تا ہے۔ 
سماجی بحران کی وجہ سے بیروزگاری بھی بڑھتی ہے۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی کا زیادہ تر حصہ 18 سے 28 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ زیادہ تر بیروزگاری کا شکار بھی یہی نوجوان ہیں جو مہنگی مہنگی ڈگریاں ہاتھوں میں لیے دفتروں کی خاک چھان رہے ہیں۔ پاکستان کے صرف 5 بڑے بزنس سکولوں سے ہر سال 2000 کے قریب طلبا و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ہر سال تقریباً 15 لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ نوجوان حصولِ روزگار کے لیے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں لیکن نہ سرکار کے پاس اور نہ ہی پرائیویٹ اداروں میں اتنی سکت ہے کہ ان کو کھپایا جا سکے ۔ پاکستان کی رسمی معیشت کے اندر حقیقت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو نوکریاں دی جا سکیں۔ پاکستان کے سرکاری اعداد و شمارکے مطابق بیروزگاری کا تناسب 6 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق یہ تناسب 6.8 فیصد ہے ۔ ایسے لوگوں کو بھی روزگار کے دائرے میں شمار کیا گیا ہے جو برائے نام کام کر رہے ہیں، دہاڑی دار محنت کش ہیں، اپنی اہلیت سے کم کام کرتے ہیں یا ٹھیلا وغیرہ لگاتے ہیں۔1930ء کی دہائی کے معاشی بحران میں بیروزگار ہونے والوں کو جنگ اور اس کے بعد کی بحالی کے ذریعے استعمال میں لایا گیا مگر آج کی سرمایہ داری میں کبھی پہلے جیسی بحالی ممکن نہیں' اور نہ ان معاشی حالات میں سامراج کسی بڑی جنگی مہم کا آغاز کر سکتا ہے ۔ منافع کی معیشت کبھی بے روزگاری کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتی۔ امریکی معیشت میں اپنے عروج کی انتہاؤں کے دوران مئی 1953ء میں بھی 5.2 فیصد بے روزگاری پائی جاتی تھی۔ سوویت یونین واحد ایسا خطہ تھا جہاں تمام تر کمزوریوں کے باوجود منصوبہ بند معیشت کے تحت بے روزگاری کا مکمل طور پر خاتمہ کیا گیا تھا۔ 1934ء تک بے روزگاروں کو باقاعدہ رجسٹر کرکے روزگار دینے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچا اور پانچ سالہ منصوبوں نے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی پیمانے پر 15 سال سے زائد عمر کے افراد میں سے 1991ء میں 62 فیصد لوگوں کو روزگار مہیا تھا لیکن 2014ء میں 59۔ فیصد لوگوں کے پاس روزگار تھا۔ ان 23 سالوں میں جہاں جدید ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی' وہیں لوگوں کو روزگار ملنے کی بجائے ان کا روزگار چھینا گیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2008ء سے ایک دہائی پہلے دنیا میں 12 کروڑ افراد بے روزگار تھے ۔ آئی ایل او کے مطابق 2009ء میں 20 کروڑ لوگ بے روزگار تھے ۔ اگر ہم اس میں ہر قسم کا جبری کام کرنے والوں، اپنی صلاحیت سے کم تر کام کرنے والوں اور نوکری نہ ملنے پر مجبوراً اپنا کام دھندہ کرنے والوں کو شامل کریں تو ڈیڑھ ارب لوگ عالمی سطح پر بے روزگار ہیں۔ سپین میں 24 فیصد لوگ بے روزگار ہیں جبکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 57 فیصد ہے ۔ یونان میں ہر تین نوجوانوں میں سے دو بے روزگار ہیں۔ اسی طرح فرانس میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے ۔ امریکہ میں ہر ماہ جتنی نئی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں اس سے زیادہ تعداد میں لوگ بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں جو نئی نوکریاں پیدا ہوئیں' ان میں زیادہ تر غیر مستقل اور عارضی ملازمتیں ہیں۔ ماضی کی طرح مستقل ملازمتیں اب قصہ ماضی ہو چکی ہیں۔ 
خا ند ا ن کا بنیا د ی ستو ن ما ں ہو تی ہے۔ ما ں ہی جنس ا و ر د و لت کے د و ہرے استحصا لو ں میں جکڑ ی ہو ئی ہو تو پھر و ہ خا ند ا ن کیسے کسی کا آ سر ا بن سکتا ہے۔ ا س نظا مِ ز ر سے چھٹکا ر ا صر ف معا شر ے ا و ر خا ند ا ن کی آز ا د ی کا نا م نہیں ہے بلکہ ہر ا س لطیف جذ بے‘ خو نی ر شتے ا و ر سچے پیا ر کو ز ر کی غلا می سے آ ز ا د کر و اکے ا س کو ا س پاکیز گی سے منو ر کر و ا نا مقصو د ہو تا ہے۔ جس کو ا س نظام نے مجر و ح ا و ر گھا ئل کیا ہے۔ ا یسا خاندان جو مفا د ا ت ا و ر سما جی ر تبوں کے لیے ا پنوں کو فر ا موش کر د ے‘ سچے جذ بے ر کھنے و ا لے ر شتوں کو بے دخل کر د ے خو د ا س قا بل نہیں کہ اس کا حصہ بنا جا سکے۔ا س خا ند ا ن کو ا نسا نی ر شتوں کی لطا فت ا و ر لگن کا گہو ا ر ہ بنا نے کے لیے پہلے اس ز ہر سے آ لود ہ ہر ر شتے سے آ ز ا د ہو نا پڑ تا ہے۔ کچھ غر یب لو گ خا ند ا نوں سے دُھتکا ر ے جا نے کے بعد حا د ثا ت ا و ر و ا قعا ت کے ذ ر یعے جب ' ' بڑ ے آ د می‘ ‘ بن جا تے ہیں تو یہی خا ند ا ن خو د ا نکی قد م بو سی کر تا ہے ۔ لیکن ا س نظا م میں بڑ ا آ د می ہمیشہ بہت چھو ٹا ہو تا ہے ۔ نیچ ہو ئے بغیر ا س میں بڑ ا کو ئی بن نہیں سکتا۔ ا یسی لڑ ا ئی کو انسا نیت ا و ر تا ر یخ کے حو ا لے سے د یکھا جا ئے تو یہ کسی لعنت سے کم نہیں ہے ۔ بڑ ا ئی صر ف و ہ ہو تی ہے کہ ا نسا ن ‘ز ند گی میں ایک ا یسا مقصد حا صل کر کے ا س کے لیے ا پنی ز ند گی و قف کر د ے جو مقصد ا س ز ند گی سے بھی بڑ ا ہو ۔ جو کسی ا نسا ن کی ا نفر ا دی زندگی کے لیے محد و د نہ ہو بلکہ نسلِ انسان کی ز ند گی کو فلا ح ا و ر خو شحا لی بہم پہنچا نے کیلئے ہو۔ا س معا شر ے میں ا پنا صر ف و ہی ہو سکتا ہے جو ا ستحصا ل سے پا ک سماج کے حصول کے لمبے سفر میں آ خر ی منز ل تک مطلب ا و ر مفا د کے بغیر سا تھ نبھا سکے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں