کئی برسوں سے اس ملک کے عوام کا سیاست کی سموگ میں دم گھٹ رہا ہے۔ پھر معاشی طور پر کبھی بھی یہاں کے محنت کشوں اور غریب عوام کو سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ لیکن جہاں اس معاشی اور سیاسی نظام نے ملک کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے وہاں آلودگی نے صاف ستھرے دیہات اور لہلہاتے کھیتوں کو بھی صحت افزا مقامات سے مضر صحت علاقوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ چاروں جانب گندگی کے ڈھیروں نے اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو سب سے زیادہ غلاظت اور تعفن کا گڑھ بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح پچھلے کئی دنوں سے 'سموگ‘ نے وسطی اور شمالی پنجاب اور پختونخوا کے وسیع حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کی وجہ سے مختلف کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ یہ سموگ اب ہر سال ایک معمول بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ سموگ لاہور کی آبادی کو ہلکان کر رہی ہے۔ دہلی دنیا میں سب سے زیادہ سموگ اور آلودگی والا شہر قرار دیا جا چکا ہے۔ لاہور اب اس سے زیادہ پیچھے نہیں رہا۔ خدشہ ہے کہ جلد ہی یہاں بھی سموگ کے حوالے سے حالت دہلی جیسی ہو جائے گی۔ سگریٹ نوشی سے انسان کی عمر اوسطاً 10 سال کم ہو جاتی ہے۔ لیکن آلودگی کی وجہ سے دہلی میں رہنے والے انسانوں کو اوسط عمر سے 9 سے 15 سال کم زندگی نصیب ہوتی ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال پاکستان سمیت دنیا بھر کے دوسرے تمام آلودہ شہروں کی ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی کی شکست کے بعد جب دہلی کو تاراج کیا گیا تو میر تقی میرؔ کو بھی ہجرت کر کے لکھنو جانا پڑا۔ جب خستہ حالی کا تمسخر اڑا کر لکھنو کے لونڈوں نے ان کی تضحیک کرنے کے لئے مشاعرے میں شمع محفل میر کے سامنے رکھ دی تو میر نے یہ کلام پیش کیا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں منتخب ہی روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
دہلی کو تو برطانوی سامراج نے غارت گری کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن آج برصغیر کے انہی تاریخی شہروں اور ثقافتی مراکز کو اس سرمایہ دارانہ نظام کی بے ہنگم تعمیرات، منصوبہ بندی سے عاری شہری پھیلائو اور منافعوں کی ہوس نے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ لاہور کی اشرافیہ نے کئی دہائیاں پہلے ہی وسطی شہر سے نکل کر امرا کی کالونیوں میں محلات بنا لیے تھے۔ لیکن تخت لاہور، جس کی 'ترقی‘ کی اتنی دھومیں ہیں، کے عام انسانوں کی زندگی میں تلخی اور ذلت کچھ کم نہیں ہے۔
دنیا اخبار کی انویسٹی گیشن ٹیم نے جو تحقیق کی ہے اس سے دل دہلا دینے والے حقائق اور اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ صرف لاہور میں لاکھوں انسانوں کا اس آلودگی اور سموگ سے پھیپھڑوں اور چھاتی کی دوسری بیماریوں میں مبتلا ہونا اس نظام کی سیاست کے لئے شرمناک ہے۔ لیکن شرمندگی اور غیرت کے احساس کے ساتھ تو دولت کے اس نظام میں اقتدار مل ہی نہیں سکتا!
لاہور میں ٹائر، کوئلہ اور دوسری زہر آلود اشیا جلانے والی 104 فیکٹریوں کے مالکان بہت عالی مرتبت، عزت دار، پرہیزگار اور مخیر حضرات ہیں۔ سیاست میں ان کے ''چندے‘‘ سیاسی پارٹیوں پر ایسی دھاک بٹھاتے ہیں کہ ان کے منافعوں کو کوئی ٹھیس پہنچانے کے بار ے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر بڑی پارٹیاں ایسے ہی کاروباری حضرات، ٹھیکے داروں اور پراپرٹی ٹائیکونوں کی اندھی دولت سے چل رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی کا ہر پارٹی پر راج ہے۔ ایک ''بڑی‘‘ پارٹی نے تو ان کی خوشنودی کے لئے اپنے منشور اور سیاست سے انقلابی سوشلزم کا نام ہی حذف کر دیا ہے۔ لیکن پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ مضر صحت کاروبار سرمایہ دار کوئی شوق سے تو نہیں چلاتے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہی ہے کہ اگر وہ پورا ٹیکس دیں، بینکوں سے قرضے معاف نہ کروائیں، آلودگی سے بچائو کی ٹیکنالوجی نصب کریں، مزدوروں کے تحفظ کے لئے درکار قواعد و ضوابط کی پابندی کریں تو مطلوبہ شرح منافع حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے میں نہ تو وہ سیاست میں 'سرمایہ کاری‘ کر سکتے ہیں نہ ہی خیرات دے کر 'مخیر‘ بن سکتے ہیں۔ اس لئے محنت کشوں کے استحصال سے نچوڑی ہوئی دولت سے اِس سیاست اور ریاست کو خریدتے ہیں۔ جب اعلیٰ افسران اور قائدین رات کو ان کی پارٹیوں میں بدقماشیاں کرتے ہیں تو پھر ان کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات کیسے کر سکتے ہیں۔ سرمائے کا ایک گھنائونا گھن چکر ہے جس میں سب نے غریبوں اور مزدوروںکے لہو سے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں‘ اور یہ گھن چکر ایک بیلنے کی طرح محنت کو نچوڑ کر عوام کا لہو بہا رہا ہے۔
پھر گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ جتنی سڑکیں بنتی ہیں ان سے کہیں زیادہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ٹڈی دل کی طرح ان پر ہلہ بول دیتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ منافعوں کی ہوس میں گاڑیوں پر ٹیکس کی کمی اور بینکوں کے ذریعے قرضوں پر گاڑیاں دینے کا وسیع عمل ہے۔ پارکنگ ناپید ہے، شہروں میں پیدل چلنے والوں کے لئے راستے اور فٹ پاتھ بھی بند کر دیئے گئے ہیں۔ پچھلے 40 برسوں کے دوران تمام حکومتوں نے اسی پالیسی کو نافذ رکھا ہے۔ ریلوے کے نظام کے تمام نمائشی اقدامات کے باوجود سفر‘ انگریزی کا 'Suffer‘ بن گیا ہے۔ انگریزوں کی بچھائی ہوئی پٹڑیاں بھی ''آزادی‘‘ کے بعد مسلسل اکھاڑی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے کا ٹریک آزادی کے 70 سالوں میں سکڑا ہے، وسیع نہیں ہوا۔ گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے وسیع اور مربوط نظام کے ذریعے ہی کم کیا جا سکتا ہے‘ لیکن یہاں جو نمائشی منصوبے لگ رہے ہیں ان کو بھی مکمل نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ اس محرومیوں والے سماج کی ضرورتوںکے صحرا میں یہ چند بوندیں ہیں۔ اس نظام میں ان محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جہاں تک میٹرو بس کا تعلق ہے تو یہ ایک بہت ہی معمولی اضافہ ہے۔ لیکن اضافہ تو ہے۔ اورنج ٹرین سے شاید سفر کی کچھ سستی سہولیات یہاں کے عام لوگوں کو مل جاتیں اور ٹریفک کی بھرمار میں کوئی کمی واقع ہو جاتی لیکن بعض طبقات ایسے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں‘ جو حکمران طبقات کی باہمی لڑائیوں میں ایک دھڑے کے دوسرے سے انتقام پر مبنی ہیں۔ عدالت کے حکم پر اس منصوبے پر تعمیر کا کام رُکا ہوا ہے اور صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی محال ہے۔ وہاں سے ہر وقت گرد اڑتی رہتی ہے۔ حکمرانوں کی اس بے ہودہ لڑائی میں عوام اس دھول، آلودگی اور سموگ کو پھیپھڑوں کے ذریعے اپنے اندر سمونے پر مجبور ہیں۔ نہ اِس نظام میں ان کی کوئی تاریخ کبھی لکھی جائے گی‘ اور نہ ہی اس کے تحت ان کا حال اور مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔ ظالم شہنشاہوں اور ان کی محبوبائوں کے مقبروں کے تحفظ کی بَلی یہ گمنام محنت کش چڑھ رہے ہیں۔ منافعوں کی ہوس نے جہاں عام انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے وہاں اس ماحول کو بھی اتنا آلودہ کر دیا گیا ہے کہ سموگ کی گھٹن میں ان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔ یہاں سیاست اور صحافت کے موضوعات حکمرانوں کی لڑائیاں ہیں، غریبوں کے عذاب نہیں۔ اس نظام نے اگر مر کر ہی جینے پر مجبور کر دیا ہے تو پھر آنے والی نسلوں کو ایک خوشگوار مستقبل دینے کے لئے اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں مرنا کون سا بُرا ہے۔