اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی بے ہنگم اور بدمست پالیسیوں کا جائزہ لیں تو دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کی بے بسی اور اس کے نظام کی تنزلی اور نامرادی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ اسرائیل کی صہیونی ریاست کی سفاکی، اسلامی سربراہی کانفرنس کی کمزوری یا پھر دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے خلفشار کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر اس سرمایہ دارانہ نظام کا بحران کتنا گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس نظام کے سیاسی اور ریاستی پاسبان مایوسی اور بدگمانی میں ایسی حرکات پر اتر آئے ہیں جو اس کے زوال میں اضافہ ہی کر رہی ہیں۔ ایک طرف چین اور ہندوستان میں کروڑوں لوگوں کو خط غربت سے بلند کرنے کے دعوے ہیں لیکن غربت کی لکیر کی سطح کو نیچے کر کے کچھ آبادی کو اس سے اوپر دکھانے کے اعدادوشمار سے کروڑوں کے مزید غریب ہونے اور تاریخ کی سب سے وسیع امارت اور غربت کی خلیج کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ اس ذلت سے اذیتیں بڑھ رہی ہیں اور غم وغصے کا آتش فشاں سلگ رہا ہے۔ دولت کا اجتماع اتنا بڑھ رہا ہے کہ پچھلے ایک سال میں 23 لاکھ نئے کروڑ پتی بنے ہیں۔ اگر دنیا بھر کی دولت کو برابر تقسیم کیا جائے تو ہر خاندان کے حصے میں 56,540 ڈالر یعنی تقریباً 63 لاکھ روپے آئیں گے ۔ اس کے برعکس صرف ایک فیصد امیر ترین افراد کا دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت پر قبضہ ہے۔ کل54 افراد ہیں جو غریب ممالک کی کل آبادی کی دولت سے زیادہ سرمایہ رکھتے ہیں۔ ان کے مالیاتی ذخائر بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ دوسری جانب جنگوں اور دہشت گردی سے کئی ممالک تاراج ہو رہے ہیں۔ غربت کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محرومی بڑھ رہی ہے اور آبادی کی بھاری اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی کا شکار ہو رہی ہے ۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں چارکروڑ سے زیادہ لوگ سرکاری معیار کے مطابق انتہائی غربت کا شکار ہیں۔
اس عالمی صورتحال میں پاکستان کا معاشی بحران شدید تر ہو رہا ہے۔ بیرونی قرضہ چھ ماہ میں 73.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 85.1 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ سے قرضوں پر سود کی مد میں حکومت کو اس سال 436 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑیں گے۔ اس سال جولائی سے ستمبر تک کے تین ماہ میں 2.1 ارب ڈالر اس سود اور اصل قرضوں کی ادائیگی پر صرف کئے گئے ہیں۔ لیکن روپیہ مزید گرے گا اور اس سے ہونے والے خساروں کا بوجھ ہمیشہ کی طرح عام انسانوں پر پڑے گا۔ نہ صرف پٹرول اور دوسری درآمدات کی قیمتوں میںاضافہ ہوگا بلکہ اس کے اثرات سے تقریباً ہر چیز کی قیمت بڑھے گی۔
پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور معاشی تنزلی کے جو ریکارڈ قائم ہوئے تھے ان کو مسلم لیگ حکومت ختم کرسکی ہے نہ کرسکتی تھی۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی، قرضوں، تعمیرات میں تیز اضافے اور سرمایہ کاری جیسے ہتھکنڈوں سے انہوں نے معاشی شرح نمو میں کچھ اضافہ تو کیا، لیکن دوسری طرف سماجی ابتری کا یہ عالم ہے کہ 'نیلسن‘ نامی ایک عالمی مارکیٹنگ فرم کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی حقیقی شرح 49 فیصد ہے جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری صرف 6 فیصد ہے۔ یہ ایک اعشاریہ ہی واضح کرتا ہے کہ حکمرانوں کی اِس بلند شرح نمو کا عوام کی معیشت سے کیا تعلق ہے۔حالیہ حکومت کے چار سال بعد جب اِس معاشی ترقی کا فریب بے نقاب ہونے کو تھا تو ریاستی آقائوں نے نواز شریف کو سبکدوش کر دیا۔ دل میں تو وہ خوش ہی ہوں گے۔ معاشی بحران میں اِس شدت کی ٹائمنگ نوا ز شریف کی برطرفی سے ایسی جڑی ہے کہ کچھ عرصہ تک معاشی اعشاریوں میں بہتری کا کریڈٹ اب وہ لے رہے ہیں۔
ہر معاشرے کا سماجی ڈھانچہ معیشت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس معاشی بنیاد پر ہی ریاستی اور سیاسی نظام بنائے اور چلائے جاتے ہیں ۔ اور جب یہ معیشت ہی جواب دینے لگے تو سیاست اور ریاست کے کھلاڑیوں کے نیچے سے زمین ہی سرکنے لگتی ہے۔ ایسے بحرانوں میں حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں میں حصہ داری کے تصادم جنم لیتے ہیں۔ یہ سیاسی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار حاکمیت کو اور بھی کٹھن بنا دیتا ہے۔حکمران اپنی آپسی چپقلش میں خود کو بے نقاب کرنے لگتے ہیں۔ یہ تضادات اور تصادم اگر حد سے بڑھ جائیں تو معاشروں میں انارکی اور خانہ جنگی کی صورتحال جنم لیتی ہے۔ جسٹس قاضی عیسیٰ کے ریمارکس کہ ''اب فیصلے سڑکوں اور گلیوں میں ہوں گے‘‘ غور طلب ہیں۔ ریاست میں کچھ افراد تو ہیں جن کو تناظر کا کچھ ادراک ہے ۔ بظاہر یہاں سیاسی بحران ہمیشہ رہتا ہے لیکن اب یہ بہت تشویشناک کیفیت میں داخل ہوگیا ہے۔ ایسے میں براہِ راست ریاستی مداخلت یا مارشل لا بھی اس عدم استحکام، جو گہرے خلفشار کی جانب بڑھ رہا ہے، کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ حکمرانوں کے سنجیدہ نمائندوں کی سوچ بھی چونکہ صرف اسی نظام کے خول میں بند ہوتی ہے اس لئے وہاں سے کوئی رجائیت کا تناظر سامنے نہیں آ رہا ۔ اس نظام کو مسلط رکھنے کے لئے اب محنت کشوں کا خون صرف چوسا نہیں بہایا بھی جائے گا۔ مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس نظام کی بنیاد منافع او ر شرح منافع پر مبنی ہے اور جو شرح منافع اِن حکمران طبقات کو درکار ہے وہ ایک تنزلی کے عہد میں ممکن نہیں ہے۔
اگر ہر فیصلے کے بعد سا لمیت اور غیر جانبداری کا یقین پریس ریلیزوں کے ذریعے دلانا پڑے تو حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔لیکن حکمران طبقات کے مختلف سیاسی اور ریاستی دھڑوں کی لڑائیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وہ اس نظام کے دفاع کے نعرے لگاتے ہوئے بھی اس کے کلیدی اداروںپر ضربیں لگاتے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تقدس کی قسمیں کھانے والے سیاستدان اب اس کی ناکامی کا اظہار ادھوری تنقیدوں سے کر رہے ہیں۔ لینن نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ کسی سماج کے انقلاب کے لئے پک کر تیار ہونے کی پہلی عکاسی حکمران طبقات کے شدید تضادات اور حل نہ ہونے والے تنازعات کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس وقت نواز لیگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ڈھونگ کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی او ر مذہبی جماعتیں بڑی سرکار کے پیروکار اور تابع ہونے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حکمرانوں کے لئے اس قسم کی صورتحال میں ایک نامراد صورت یہ ہوگی کہ اگر ایک طویل المدت ٹیکنوکریٹ یا عبوری حکومت نہیں چلتی تو پھر ماضی کی طرح لولی لنگڑی مخلوط حکومتوں کی تشکیل کی جائے جن میں عوام پر سرمائے کے اس بحران کا مزید بوجھ ڈالنے اور مظالم ڈھانے کے بہانے مل سکیں۔ کوئی بھی اس جبر کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ سبھی ''پارٹیاں‘‘ ایک دوسرے پر الزام ڈال رہی ہوں گی جبکہ سبھی اس کی ذمہ دار بھی ہیں۔ لیکن یہ کھوکھلا ڈھانچہ بھی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ پائے گا۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ انقلاب کے بغیر نظام وہی رہتا ہے۔ اب کیسی پارٹیاں اور کون سے نظریات؟ لیکن آنے والی حکومت چاہے کوئی بھی ہو، اسے ماضی کی حکومتوں کی نسبت یہ نظام جس ہولناک حد تک بحران زدہ شکل میں ملے گا، جسے سنبھالنا ناممکن ہو گا۔