ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے چیف پروکٹر نے گزشتہ ایک حکم نامے کے تحت یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کے ''اکٹھے بیٹھنے اور ٹہلنے‘‘ کو ممنوع قرار دے دیا ۔ بعض تعلیمی اداروں میں ایسے کئی ''احکامات‘‘ پچھلے کچھ عرصے میں جاری کیے جاتے رہے ہیں۔ جب پریس نے پروکٹر صاحب سے دریافت کیا کہ اس حکم نامے کی وجہ کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ''یہ طلبہ کے مفاد میں ہے تاکہ ان کا وقت ضائع نہ ہو‘‘۔ اس حیران کن بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پروکٹر صاحب اور اس سوچ کے علمبردار چاہے جس بھی ادارے میں ہوں سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی لڑکا اور لڑکی آپس میں مل بیٹھتے اور گفتگو کرتے ہیں تو وہ فضول ہی ہو گی اور وقت کے زیاں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا‘ لیکن اس سوچ کے پیچھے یہی ذہنیت ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی ملاقات محض ایک مقصد کے لئے ہوتی ہے۔یعنی طبعی میدان کو پورا کرنے کے لئے۔ رجعتیت سے آلودہ سوچ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ طلبااور طالبات آپس میں فن ، ادب ، سائنس ، تعلیم ، نصاب، فلسفہ، سیاست ، ثقافت ، تاریخ ، فلم، عالمی حالات اور معاشرے کے بحران جیسے موضوعات پربات چیت یا بحث مباحثہ بھی کرسکتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہمارے مقدر اور اخلاقیات کے ان ٹھیکیداروں کی یہ پسماندہ ذہنیت اس فہم سے عاری اور اس کو حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتی ہے کہ جنسی تفریق کے جسمانی پہلوئوں کے سوا ہر شعبے اور علم میںخواتین اور مرد برابر کی صلاحیتیں رکھ سکتے ہیں۔ان کی سوچ کا تبادلہ اور مختلف سائنسی اور ثقافتی موضوعات پر بحثیں زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ نتائج اور علم کے بہتر حصول کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔لیکن آ ج کے معاشرے میں یہ سوچ بے سبب نہیں ہے۔کسی بھی سماج میں جب اقتصادی اور ثقافتی تنزلی ہوتی ہے تو اس کے معیار گرنے شروع ہوجاتے ہیں۔رجعتیت حاوی ہوجاتی ہے۔
اگر بھارت میں ''لَوجہاد‘‘ کے وحشت پھیل رہی ہے تو یہاں بھی رجعتیت کے ٹھیکیداروں نے نوجوانوں کے لئے سماجی زندگی کو کم زک نہیں پہنچائی ہے۔قدامت پرستی کے جبر کی شدت اور گھٹن سے جنسی بے راہ روی اور ہوس میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔جب سماجی قدریں رجعتی حاکمیت کی جکڑ میں گھٹنا شروع ہوجاتی ہیں تو معاشرے میں منافقت، جھوٹ اور ہر عمل کو پس پردہ کرنے کی روش عام ہونا شروع ہوجاتی ہے۔لیکن اس سوچ کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسی نفسیات رکھنے والے حضرات عورت کو کم تر اور محض استعمال کی چیز سمجھتے ہیں۔برابری کی بجائے ان خیالات کی بھینٹ چڑھا کر ''تحفظ‘‘کے نام پرعورت کو زیادہ سے زیادہ سماجی تنگ نظری اور گھٹن کی نذر کردیا جاتا ہے۔ا س سے عورت شاید جسمانی طو ر پر تو''محفوظ‘‘ ہوجائے لیکن ذہنی طور پر ایک محدود''چادر اور چاردیواری‘‘ کے ماحول میں اپنی بہت سی صلاحیتوں کو استوار کرنے اور سوچ کو وسیع کرنے سے محروم ہوجاتی ہے۔جنرل ضیاالحق نے اسی سوچ کا استعمال کرکے وحشیانہ آمریت کے تسلط کو بڑھاوا دینے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اس سے جہاں لسانی ، فرقہ وارانہ، قومیاتی اور مسلکوں کی تفریق اور مخاصمت سے منافرتوں نے جنم لیا وہاں معاشرے میں تشدد اور ثقافتی گھٹن میں اضافہ بھی ہو گیا۔اس کے بعد کی آنے والی لبرل حکومتوں نے اس ذہنیت کو ریاستی وسماجی اداروں اور رجحانات سے نکالنے کی نہ کوشش کی اور نہ ہی شاید ان میں ایسا کچھ کرجانے کی صلاحیت تھی۔سماجی بحران کی شدت بڑھنے سے ا ب یہ رجعتیت مزید گھنائونی شکل میں معاشرے کو دبوچ رہی ہے۔اس تسلط سے جنسی بے راہ روی صرف پس پردہ چلی گئی ہے۔صنفی تعلقات میں منافقت عروج پرہے اور سماجی واخلاقی قدر بن گئی ہے۔جھوٹ عام ہوگیا ہے۔جنسی تشدد اور بلادکار کے واقعات ایک معمول سا بن گئے ہیں۔معاشرے میں یہ اخلاقی گھٹن جس ہوس کو بڑھاوا دے رہی ہے وہ واقعی خطرناک او ر سنگین ہے۔خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات نے ان کی محرومی اور محکومی کو مزید اذیت ناک بنا دیا ہے‘جس سے ان کے احساس کمتری میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن اگر یہ قدامت پرست‘ عورت کو مقید کرنے کے ذمہ دار ہیں تو پھرلبرل ازم اور سیکولرازم پرمبنی سوچ اور سماجی اخلاقیات بھی عورت کی آزادی کو مجروح ہی کررہی ہیں۔یا تو عورت کے چادر اور چاردیواری میں مقید رہنے کواس سماجی بدچلنی سے پناہ کا راستہ بتایا جاتاہے یا پھر لبرل سوچ ہے جس نے عورت کو محض تشہیر کی چیز بنا کر رکھ دیا ہے‘جس کی ظاہری نمائش کی نفسیات سے پھر خواتین کو مسلسل احساس کمتری میں مبتلا کراویا جا رہا ہے۔ا س نمائش کے لئے بیوٹی پارلروں کا کاروبار کہیں زیادہ تیزی سے بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔تقابلی حسن کی اندھی دوڑ میں فیشن، جوہرات اور کاسمیٹکس وغیرہ کی صنعت بھاری منافع خوری کی مرتکب ہورہی ہے۔ان صنعتوں کی بنائی ہوئی مصنوعات کا انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات سے کوئی واسطہ نہیں۔جب رنگ روپ کوعورت کی کامیابی، شہرت ،سماجی مرتبت اور دولت کی عظمت کا پیمانہ بنا دیا جائے تو پھر ذہنی صلاحیتیں بری طرح مجروح ہوتی ہیں۔سکارفوں اور ڈیزائنربرقعوں کی صنعت بھی تیز ی سے پھل پھول رہی رہے۔
سب سے کلیدی مسئلہ طبقاتی ہے۔غریب محنت کش عورت نہ تو چادر اور چاردیواری میں بند ہو کر روٹی روزی کماسکتی ہے اور نہ ہی برقعہ پہن کر فصلوں کی کٹائی یا فیکٹری میں کام کرسکتی ہے۔لیکن یہ غریب خواتین نہ میک اپ کے سازوسامان کے لئے پیسے رکھتی ہیں اور نہ ہی ان کو روپے کی نمائش کے زیادہ مواقع میسرآتے ہیں۔یہ ظاہریت کے رجحانات کھوکھلی‘ منافقانہ اخلاقیات اور گرتی ہوئی سماجی قدروں کی غمازی کرتے ہیں۔درحقیقت ہر عارضی طور پر ساکت سماج کے ان ادوار میں درمیانہ طبقہ خودیہ رجحانات اپناتا اور پھر نچلے طبقے پر مسلط کرتا رہتا ہے۔یورپ‘ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی اور سماجی سہولیات کی ترقی کی انتہا کے ادوار میں بھی عورت کا سٹیٹس مرد سے کم تر ہی رہا۔محنت کشوں میں بھی خواتین کی اجرتیں مردوں سے کم ہی رہیں۔لیکن آج جب بحران کی شدت سے سرمایہ دارانہ ممالک کی فلاحی ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوچکی ہے‘ ان سہولیات کے خاتمے سے پھر محنت کش عورتیں ہی سب سے بڑے نقصانات کا نشانہ بن رہی ہیں۔اس نظام زر کے تحت کسی معاشرے کی کتنی بھی ترقی کیوں نہ ہوجائے یہ صنعتی استحصال جاری رہتا ہے۔
تعلیمی اداروں سے لے کرپورے معاشرے میں امیری اور غریبی کی بہتات اور محرومی نے مردوں اور خواتین کے رشتوں اور باہمی جذبوں کو جس طرح مجروح کیا ہے وہ المناک ہے۔مالیاتی حیثیت انسانی جذبوں کو تاراج کردیتی ہے۔قدامت پرستی اور لبرل ازم دونوں رجحانات مالیاتی سرمائے کے تابع ہیں۔عورت کی محکومی اور صنفی استحصال وتشدد اسی عدم برابری اور ضروریات کے حصول کی اندھی دوڑ کی پیداوار ہیں۔ہوس اور خود غرضی کو اگر زندگی کا محور بنادیا جائے تو پھر رشتوں کو استعمال کرنے کی نفسیات ایک بیمار سماج کی غمازی کرتی ہے۔ لیکن صنفی جبر اور ہوس پرستی کا یہ سماج خصوصاً محنت کش خواتین کی زندگیوں کو ایک عذاب مسلسل بنا کر رکھ دیتا ہے۔ ہر دوسرے استحصال کی طرح صرف عورتوں پر مبنی جدوجہد سے اس صنفی جبر کی اذیت سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوسکتا۔اس کے لئے مردوں اور خواتین محنت کشوں کو یکجا ہو کر ان فرسودہ قدروں اور سماجی ڈھانچوں کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ 1918-19ء کی جرمن انقلابی سرکشی کی قیادت کرنے والی مارکسسٹ قائد روزا لکسمبرگ( جس کواس جدوجہد کی پاداش میں قتل کردیا گیا تھا) نے1912ء میں لکھے گئے مضمون'' خواتین کی ذلت او ر طبقاتی جدوجہد‘‘ میں کہا تھا''عمومی طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ اصل مقصد خواتین کی ذلت واستحصال کا خاتمہ ہے۔لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے وسیع تر تحریک صرف خواتین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مردوں اور عورتوں کے مشترکہ تعلق، طبقاتی تشویش اور مزدور تحریک کا مسئلہ ہے‘‘۔