امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سال 2018ء کے پہلے ٹویٹ نے ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات پہلے ہی تنائو کا شکار تھے‘ اب مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اس 'نئے سال کے پیغام‘ میں کہا کہ ''امریکہ نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو گزشتہ 15 سالوں کے دوران 33 ارب ڈالر کی خطیر مالی امداد دی‘ اور اس کے بدلے میں پاکستان نے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پاکستان ہمارے لیڈرز کو احمق سمجھتا ہے۔ پاکستان نے اُن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے ‘ جنہیں ہم افغانستان میں تلاش کرتے رہے اور اُنہیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔نو مور‘‘۔ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوراً جوابی ٹویٹ کیا ''ہم پہلے ہی امریکہ کو آگاہ کر چکے ہیں کہ مزید کچھ نہیں کر سکتے، چنانچہ ٹرمپ کا 'نو مور‘ ہمارے لیے بے معنی ہے‘‘۔
اکنامک سروے آف پاکستان 2016-17ء کے مطابق اکتوبر 2001ء میں امریکہ کے کابل پر حملے کے بعد پاکستان کو مجموعی طور پر 123.13 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ یہ امریکہ کی 'خطیر‘ امداد سے 89.73 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ دسمبر میں ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں اور اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے جنرل اسمبلی میں امریکہ کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک کی امداد روک دینے کی دھمکی دی تھی۔
پاک امریکہ تعلقات بگڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دونوں اطراف کی قیادتیں سخت پوزیشن لے چکی ہیں‘ جس سے پرانا سامراجی آقا اور ایک ترقی پذیر ریاست بظاہر ٹکرائو کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن واشنگٹن میں قائم وڈرو ولسن سینٹر کے تجزیے کے مطابق ''تعلقات کے مکمل خاتمے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں قابل عمل تعلقات میں دونوں اطراف کا فائدہ ہے، لیکن آنے والے دن تاریک ہوں گے‘‘۔
گزشتہ منگل کے روز اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ''وجوہات صاف ظاہر ہیں۔ پاکستان برسوں سے ڈبل گیم کھیل رہا ہے... کبھی وہ ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ افغانستان میں ہمارے فوجیوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں... موجودہ امریکی حکومت کے لیے یہ گیم نا قابل قبول ہے‘‘۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ امریکہ کی اعلیٰ سفیر کو علم نہیں کہ امریکہ بیس سال سے اس 'ڈبل گیم‘ کو بخوبی جانتا ہے اور تمام امریکی حکومتیں شدید تنقید کے باوجود پاکستان کو 'دہشت گردی کے خلاف پارٹنر اور نان نیٹو اتحادی‘ کے طور پر چلا رہی ہیں۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے کے وقت سے ہی تمام امریکی حکومتیں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی سے بخوبی واقف ہیں‘ بلکہ پینٹاگان اور سی آئی اے کے کچھ حصے 'سٹریٹیجک گہرائی‘ کے نظریے کو فروغ دینے میں ملوث رہے ہیں۔ ٹرمپ کے ٹویٹ نے تعلقات کی ناگزیر کشیدگی میں اسلام آباد کو واشنگٹن پر اخلاقی برتری کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ ایک کمزور سول حکومت کو طاقت کی نمائش کا بہترین موقع میسر آ گیا ہے جس کی حکمرانوں کو اشد ضرورت تھی اور اب فوج کی قیادت کے ساتھ وہ بھی نمایاں ہو سکتے ہیں۔
حال میں واشنگٹن نے تنبیہہ کی تھی کہ اگر اسلام آباد نے ان گروپوں کے خلاف کارروائی نہ کی‘ جنہیں وہ شاید سٹریٹیجک اثاثے سمجھتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نے خدشے کا اظہار کیا کہ امریکہ پاکستان میں یک طرفہ کارروائی کر سکتا ہے‘ جیسے 2011ء میں اسامہ بن لادن کے خلاف کی گئی تھی۔ پاکستان کی جانب امریکہ کا یہ نیا جارحانہ رویہ بہت خطرناک ہے جس سے پاکستان پر واشنگٹن کا رہا سہا اثر و رسوخ بھی ختم ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کچھ حلقوں کو جواز فراہم کر رہا ہے کہ وہ ہندوستان پر پاکستان میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے امریکہ کو ''بھارت کی زبان‘‘ بولتا قرار دے سکیں۔ دوسری جانب اس سے مذہبی جنونی مودی کی ہندوتوا سرکار کو جبر اور شائونزم بھڑکانے میں مدد ملے گی۔ دوسرے لفظوں میں ٹرمپ کا یہ بیان خطے میں رجعتی قوتوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہو سکتا ہے‘ جو مذہبی اور قومی منافرتوں پر پلتی ہیں اور جنگی جنون اور مذہبی جبر کے ذریعے محنت کش عوام کو دبائے رکھتی ہیں۔
یہ ٹویٹ ٹرمپ کی سادہ لوحی نہیں بلکہ اس کی شاطرانہ چال ہے‘ جس کا مقصد دشمنیوں کو بھڑکا کر امریکہ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی توجہ ان کے مصائب اور محرومیوں سے ہٹانا ہے۔ اسی طرح ایران میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے بیانات کو اشرافیہ اس تحریک کے خلاف استعمال کر رہی ہے‘ کیونکہ ایران میں سامراج مخالف جذبات بہت شدید ہیں۔ یہ بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کو ظاہر کر رہی ہیں۔
امریکہ سابقہ نوآبادیاتی ممالک پر بالا دستی اور سفارتی غلبہ برقرار رکھنے کے لیے درکار معاشی طاقت کھو چکا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ 'واحد‘ سپر پاور تھا لیکن محض پچیس سال میں یہ حالت ہو چکی ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت واشنگٹن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے چین کے عالمی انفراسٹرکچر کے منصوبے کی حتمی کامیابی میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکومت نے فوراً اور واضح الفاظ میں پاکستانی حکومت بالخصوص پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے حمایت اور یکجہتی کے بیان جاری کیے ہیں۔اسی روز سٹیٹ بینک آف پاکستان نے چین کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے ڈالر کی بجائے یوہان کو زرمبادلہ کی کرنسی قرار دے دیا۔ یہ سفارتی تنازع اور سامراجی چالیں عام لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ ان کی جانی اور معاشی مشکلات بد تر ہو گئی ہیں۔ امریکی سامراج 1947ء سے ہی پاکستانی ریاست کو اپنے جیو سٹریٹیجک اور معاشی مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے‘ لیکن انہوں نے بھارت سے کبھی کنارہ کشی نہیں کی جہاں کہیں بڑی منڈی موجود ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کے نقطہ نظر سے بھی امریکی اس وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں جب پاکستانی ریاست کو شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بڑی مثال 1965ء کی جنگ ہے‘ لیکن پاکستان کی چور اور بھکاری اشرافیہ ہمیشہ امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کرتی رہی ہے۔
1950ء کی دہائی میں حقیقی سامراج مخالف قوتوں کو کچلنے کے لیے سی آئی اے نے کئی دوسرے ممالک میں بنیاد پرستی کو متعارف کروایا تھا۔ 1978ء میں افغانستان میں نور محمد ترکئی کی بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے 'جہاد‘ شروع کیا گیا۔ یہ جنون کی دہشت کی شروعات تھی جو کئی نسلوں سے اس خطے کو تاراج کر رہا ہے۔ تاریخ کا ایک مکافات عمل ہوتا ہے۔ یہ شیطان اب سامراجیوں اور ریاستوں کے ان دھڑوں سے برسر پیکار ہیں جو انہیں قابو کرنا چاہتے ہیں۔
اب بھی کئی گروپوں کو سامراج کی حمایت حاصل ہے اور کئی سٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی کے اثاثے ہیں۔ امریکی سامراج کی شکست کے عمل میں علاقائی سامراج افغانستان میں بالا دستی حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس جنگ میں کئی متحارب قوتیں برسر پیکار ہیں‘ اور اس کا کوئی انت نہیں۔ محکوم طبقات اور غریبوں کے لیے اس جنگ اور اس نظام میں صرف بربادی ہے۔ معاشی بالا دستی کی جارحانہ حرص کے ہوتے ہوئے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ صرف عوام ہی ایک تحریک میں اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اس نظام اور سامراجی قبضے کو ختم کر سکتے ہیں۔