"DLK" (space) message & send to 7575

جولین اسانج سامراجی جکڑ میں

پچھلے منگل کے روز ایک سینئر برطانوی ڈسٹرکٹ جج، ایما اربتھنوٹ، نے جولین اسانج کی آزادی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے گرفتاری کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایکواڈور کے سفارت خانے کے احاطے کو چھوڑنے کی صورت میں اسانج کو بدستور گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا اور مجبوراً اسے سفارت خانے کے اُسی چھوٹے سے کمرے میں رہنا پڑے گا‘ جہاں وہ پچھلے پانچ سال سے رہ رہا ہے۔ اسانج کے وکلا نے عوامی مفاد میں اس کی گرفتاری کے وارنٹ کے خاتمے اور سفارت خانے سے آزادانہ نکلنے کی ایک الگ درخواست دائر کر دی ہے۔
جولین اسانج نے 2012ء میں لاطینی امریکی ملک ایکواڈور، جہاں بائیں بازو کے رہنما رافیل کورایا برسر اقتدار تھا، کے سفارت خانے میںجا کر پناہ لی تھی تاکہ بے بنیاد جنسی تشدد اور بلادکار کے الزامات کی پاداش میں ملک بدری سے بچ سکے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی ضمانت کے مقدمے کی پیشی میں بھی حاضر نہ ہو سکا۔ سویڈن میں اس کے خلاف تحقیقات بند ہونے کے باوجود لندن میں سفارت خانے کی عمارت سے نکلنے کی صورت میں اسے گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی تعطل کے حل کے لیے ایکواڈور نے اسے شہریت بھی دے دی ہے۔ اسانج کو سفارتی رتبہ دینے کے لیے بھی برطانوی حکام کو قائل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، جس کی بنا پر اسانج آزادانہ برطانیہ سے نکل سکتا تھا۔
اسانج کی قانونی ٹیم کے سربراہ نے کہا، ''ہم اس بات کی یقین دہانی کی کوشش بھی کریں گے کہ برطانیہ اسے امریکہ ملک بدر نہ کر سکے اور وہ بغیر کسی مداخلت کے آزادانہ طور پر ملک چھوڑ سکے‘‘۔ اس فیصلے کے چند گھنٹوں بعد اسانج نے ٹویٹ کیا کہ سفارت خانے میں اس کے نام پر کچھ سامان بھیجا گیا ہے‘ جس میں کچھ سفید مواد اور دھمکی آمیز باتیں شامل ہیں۔ لندن پولیس اس کی 'تحقیقات‘ کر رہی ہے۔ اسانج کو خطرہ یہ بھی ہے کہ وکی لیکس کے انکشافات کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے اسے خفیہ طور پر فرد جرم کا سامنا ہے۔
ایکواڈور کے سابق صدر رافیل کورایا نے 20 جنوری کو خبردار کیا تھا کہ لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں جولین اسانج کے دن کم رہ گئے ہیں۔ کورایا نے کہا کہ نئی حکومت کے اس کیس سے متعلق اقدامات سے وہ 'جولین اسانج کی حفاظت کے بارے میں فکرمند‘ ہے۔ اس نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ شاید صدر لنین مارینو سابقہ دور میں اسانج کو ملنے والی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔ اے ایف پی میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق کورایا نے کہا، ''یہ حکومت امریکی دبائو میں آ کر اسانج کی حفاظت سے دستبردار ہو گی اور یہ کام پہلے ہی سے شروع ہو چکا ہے۔ شاید حتمی فیصلے کے لیے 4 فروری کے ریفرنڈم کے نتائج کا انتظار کیا جا رہا ہے‘‘۔
اسانج کے اپیل میں اس کے وکیل 'سمرز‘ نے پچھلے مہینے عدالتی دلائل میں کہا: چونکہ سویڈن میں اس کے خلاف مقدمہ ختم ہو چکا ہے اس لیے یہ وارنٹ ''اپنی افادیت اور مقصد کھو چکا ہے‘‘۔ لیکن منگل کے روز جج نے یہ کہتے ہوئے دلیل کو مسترد کر دیا کہ، ''میں وارنٹ کے خاتمہ کے حوالے سے قائل نہیں ہوا‘‘۔ اس برطانوی جج کی یہ رعونت برطانیہ اور دوسرے جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں عدلیہ کی نام نہاد غیر جانبداری کے ڈھونگ کو ننگا کرتی ہے۔ تین صدیاں قبل اپنی نوآبادیاتی حکمرانی کے عروج کے وقت برطانوی سامراجیوں نے ماہرانہ انداز میں ایک ایسا ریاستی ڈھانچہ تخلیق کیا‘ جو نہ صرف داخلی بلکہ خارجی سطح پر مفتوحہ علاقوں میں ان کی حکمرانی کے لیے مؤثر تھا۔ اس دور میں برطانوی سامراجی حکمرانی براعظم ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے وسیع علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور ایک کہاوت تھی کہ برطانوی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔
ان شاطر اور چالاک یورپی سامراجیوں کے تعمیر کردہ ریاستی ڈھانچوں میں ایک اہم ادارہ عدلیہ بھی تھا۔ اگرچہ براہ راست سامراجی حکمرانی ختم ہو گئی لیکن سابقہ نوآبادیات میں ان کا عدالتی نظام اسی طرح قائم ہے۔ برطانوی دور میں اس عدالتی نظام اور ادارے کے قوانین، اقدار، شقیں اور دوسرے معاملات کو سرمایہ دارانہ استحصالی طبقے کے جبر کو مسلسل قائم رکھنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ داخلی طور پر محکوم طبقات کو پیسے کے اس عدالتی جالے میں اس طرح پھنسایا جاتا تھا کہ وہ کچلے جائیں اور تاریخوں پر تاریخیں بھگتتے رہیں جبکہ خارجی سطح پر یہ سامراجی جبر اور حاکمیت کو درکار قانونی جواز فراہم کرتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ ایک میکائولیائی ادارہ تھا جو محنت کش طبقات پر سامراجیوں کے جبر اور ظلم پر پردہ ڈالتا تھا۔ اس برطانوی عدالتی نظام پر ایسا جمہوری پردہ ڈالا جاتا‘ جس میں صرف دولت مند اور طاقت ور ہی سماج پر حکمرانی کر سکتے تھے۔
یہ نظام آج بھی برطانیہ اور اس کی کئی سابقہ نوآبادیات میں رائج ہے‘ لیکن نوآبادیاتی ممالک میں برطانوی سامراج کے تخلیق کردہ یہ حکمران طبقات چونکہ نہایت کمزور اور بدعنوان ہیں‘ اس لیے یہاں بورژوا نظام اور ریاست پوری طرح قائم نہیں ہو سکی۔ برطانیہ نے جانے کے بعد اپنی حکمرانی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے سیاسی سازشوں، مذہبی منافرتوں اور عدالتی چالوں کا سہارا لیا۔ ان ممالک کی کمزور ریاستوں اور مسخ شدہ سرمایہ داری کی وجہ بحران شدت اختیار کر جاتے ہیں اور نتیجتاً ان بحرانوں کو حل کرنے کے لیے عدلیہ کو لاشعوری طور پر وہ اتنا استعمال کرتے ہیں کہ عوامی نفسیات پر اس کا تقدس اور اثر بے اثر ہو جاتا ہے۔ ان ممالک میں عدلیہ کے حد سے زیادہ استعمال نے اس ادارے پر عوامی اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔
سرمایہ داری کی نسبتاً بہتر معاشی اور سماجی بنیادوں کی وجہ سے برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں اس کا استعمال کم ہوا ہے: تاہم بحران زدہ نظام میں اس نسبتی استحکام اور سماجی تقدس کو قائم رکھنا مشکل ہوتا جائے گا۔ جولین اسانج اور وکی لیکس کے معاملے نے برطانوی عدلیہ کی غیر جانبداری اور دہرے معیار کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے۔
اسانج نے امریکی سکیورٹی اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کو جرأت مندانہ انداز میں چیلنج کیا ہے۔ وکی لیکس نے گوانتانامو بے میں امریکی ٹارچر سیل، کیمپ ڈیلٹا کی کارروائیوںکی تفصیل ویب سائٹ پر پوسٹ کرکے امریکی ریاست کے وحشیانہ کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ 2007ء کی ایک ویڈیو پوسٹ میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر کی فائرنگ دکھائی گئی‘ جس میں دو صحافی اور متعدد عراقی شہری ہلاک ہوئے۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ ان کے خیال میں وہ شہری نہیں بلکہ مسلح دہشت گرد تھے۔ 25 جولائی 2010ء کو افغانستان کی جنگ سے متعلق 90,000 دستاویزات پوسٹ کی گئیں۔ 22 جولائی 2016ء کو ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کی تقریباً 20,000 ای میلز شائع ہوئیں‘ جن میں دکھایا گیا کہ کس طرح کمیٹی متوقع ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کی خفیہ حمایت کر رہی تھی‘ اور برنی سینڈرز کو صدارتی دوڑ سے باہر نکال رہی تھی۔
سامراجی اس طرح کے ''جرائم‘‘ کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ برطانوی سامراجی امریکیوں کے اتنے دم چھلے بن چکے ہیں کہ وہ سفارت خانے کو چھوڑنے کی صورت میں اسانج کو لازماً امریکہ ملک بدر کریں گے۔ یعنی امریکی ریاست کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کی پاداش میں اسانج کو قید‘ حتیٰ کہ موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اسانج اس سفارت خانے میں تقریباً پچھلے ساڑھے پانچ سال سے مقیم ہے۔ اس کی صحت مسلسل بگڑ رہی ہے لیکن نام نہاد یورپی انسانی اقدار اس معاملے پر لاگو نہیں ہوتے۔ ایک دفعہ پھر اقوام متحدہ کی کمزوری اور سامراجی گماشتگی واضح ہو گئی ہے۔ فرانس اور دوسرے یورپی حکمرانوں نے اسانج کو کوئی ریلیف دینے سے انکار کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کا آبائی ملک آسٹریلیا بھی اس کی مدد کو تیار نہیں۔
اسانج کی رہائی کے لیے سول سوسائٹی اور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے متعدد مظاہرے اور اپیلیں کی گئیں‘ جو برطانوی یا امریکی سامراجیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ ایکواڈور میں تبدیلی کی صورت میں لندن کے سفارت خانے کی چاردیواری میں اسانج کی پناہ کا خاتمہ ہو سکتا ہے؛ تاہم ایک وسیع عوامی تحریک ہی، بالخصوص برطانیہ اور امریکہ میں، اسانج کو ایک نئی زندگی دے کر اس کی اس آزمائش کا خاتمہ کر سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں