"DLK" (space) message & send to 7575

لسانی فسطائیت کی ٹوٹ پھوٹ

پچھلے کئی ماہ سے جاری ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ درحقیقت نسل پرستانہ بنیادوں پر منافرت اور تقسیم کی پالیسی کا عبرتناک انجام ہے۔ ایم کیو ایم اپنی ابتدائی شکل میں 1978ء میں معرضِ وجود میں لائی گئی تھی اور اس کے بعد کے چالیس سال اس نے بالخصوص کراچی اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں پر راج کیا۔ یہ درست ہے کہ ضیاء الحق نے جہاں مذہبی فرقہ واریت کو ایک نئی وحشت کے ساتھ ابھارا اور فروغ دیا وہاں نسل اور ذات پات کے تعصبات پر مبنی رجحانات کو بھی محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی توڑنے کے سیاسی اور سماجی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا، لیکن ضیاء الحق صرف اپنی آمریت کو طول دینے کے لیے ہی یہ وارداتیں نہیں کر رہے تھے۔ وہ امریکی سامراج سے گہرے مراسم رکھتے تھے اور ان کے مفادات کو تقویت دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال کو جاری رکھنے کے لیے دور رس اقدامات کر رہے تھے۔ پچھلے 70 سال میں سارے جنوب ایشیائی ممالک میں ضیاء الحق نے جتنا امریکی سامراج کے مفادات کو فروغ دیا اتنا اس خطے کا کوئی دوسراحکمران نہیں کر سکا۔ افغانستان کے ڈالر جہاد سے لے کر دوسرے خارجی اور داخلی محاذوں پر موصوف نے سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کے لیے بے پناہ خدمات سر انجام دیں۔ ان کی 'اسلامائزیشن‘ بھی اسی نظام کو تقویت دینے کی عیارانہ چال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام لبرل عالمی مالیاتی ادارے، بین الاقوامی اجارہ داریوں کے سربراہان اور مقامی سرمایہ دار ان کے مداح اور مرید تھے۔
ایم کیو ایم کو معرضِ وجود میںلانے کی واردات میں اگرچہ ضیاء الحق نے ریاستی مشینری اور کراچی کی مہاجر مڈل کلاس کے سرکردہ لیڈروں کو استعمال کیا، لیکن ہمیں اس موضوعی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے معروضی حالات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کا ابھار آخری تجریے میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے‘ بھٹو حکومت کی اصلاحات میں زائل ہونے کا نتیجہ تھا۔ انقلاب کا اپنی حتمی منزل تک نہ پہنچ پانا، طبقاتی جدوجہد کی پسپائی اور محنت کش طبقے کا سماج میں ہراول کردار سے پیچھے ہٹنا ایسی وجوہات تھیں جن سے درمیانے طبقے کے رجحانات نے سیاسی خلا کو پر کرنا شروع کیا۔ تنگ نظر قومیتی اور لسانی تضادات، جنہیں ایک وقت میں محنت کشوں کی انقلابی تحریک نے پس پشت دھکیل دیا تھا، اِس پراگندگی اور گھٹن میں زیادہ شدت سے ابھر کر سامنے آئے۔ ہجرت کی کئی دہائیوں کے بعد بھی مہاجروں کا اس معاشرے میں سمو نہ سکنا‘ ایک یکجا قوم کی تشکیل میں یہاں کے حکمران طبقات کی تاریخی ناکامی کی وجہ سے تھا۔ اِن تعصبات کے جراثیم معاشرے کو پھر سے بیمار کرنے لگے۔ پاکستان کے مزدور طبقے کے سب سے بڑے گڑھ، یہاں کے پیٹروگراڈ یعنی کراچی میں ملک کے کونے کونے سے مختلف قومیتوں، نسلوں، مذہبوں اور فرقوں کے غریب لوگ آکر مزدور بنے۔ طبقاتی بنیادیں ہی انہیں جوڑکر فرسودہ تعصبات کو مٹا سکتی تھیں لیکن ایک نئے ملک سے وابستہ عام مہاجروں کی امیدیں ٹوٹنے سے جو محرومی پیدا ہوئی تھی وہ ایک مزدور تحریک کی پسپائی کے عہد میں لسانی رجحانات کے ابھرنے کا باعث بنی۔
سرمایہ دارانہ سماج میں درمیانہ طبقہ ہمیشہ ایک مسلسل اضطراب کا شکار رہتا ہے۔ اپنا معیارِ زندگی نچلے طبقات تک گر جانے کے خوف اور اپنے سے بالا طبقات میں شامل ہونے کے خبط میں مبتلا رہتا ہے۔ یوں اس طبقے کی نفسیات میں محنت کشوں سے نفرت، 'انفرادیت‘، خود پسندی اور خود نمائی کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ وہ بالا دست طبقات سے حسد اور نفرت بھی کرتا ہے اور اُن جیسا بننے کی کوشش میں ان کی مسلط کردہ اقدار، ریت رواج، ثقافت اور اخلاقیات کو بھی اپناتا ہے۔ سیاسی طور پر یہ طبقہ اس لحاظ سے بانجھ ہوتا ہے کہ اس کا اپنا کوئی طبقاتی نظریہ نہیں ہوتا۔ معاشرے میں جب دو فیصلہ کن طبقات (سرمایہ دار اور مزدور) کے درمیان طبقاتی کشمکش ماند پڑ جاتی ہے تو یہ ناگزیر طور پر سیاست میں حاوی دکھائی دیتا ہے۔ بالعموم حاوی سرمائے کی نظریاتی پیروی کرتے ہوئے یہ ایسے شخصیت پرستانہ فسطائی رجحانات کو جنم دیتا ہے جن کی سیاست انتہائی ہٹ دھرم، بدبودار اور رجعتی ہوتی ہے۔ فسطائیت کی وحشت رنگ، نسل، مذہب، فرقہ واریت غرضیکہ کسی بھی زہریلے تعصب پر ابھر سکتی ہے۔
ایم کیو ایم بنیادی طور پر ایسا ہی فسطائی رجحان تھا۔ یہاں افغان جہاد کی فنانسنگ کے لئے منشیات کا دھندہ اور نیٹ ورک امریکی سامراج نے رائج کیا تھا۔ اسی طرز پر ایم کیو ایم بھی بھتہ خوری اور دوسرے جرائم کے ذریعے اپنی سیاسی تنظیم اور مسلح ونگ چلاتی رہی۔ اسی جبر، جنون اور خوف سے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار کے ذریعے اس کے لیڈروں نے اپنی مالیاتی بنیادوں کو بہت مضبوط کیا۔ لیکن جوں جوں کالا دھن کسی تنظیم میں سرایت کرتا ہے‘ ہوس بھی شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے، حصہ دار بڑھنے لگتے ہیں اور زیادہ حصہ داری کے لئے زیادہ دہشت اور وحشت کی ضرورت پڑتی ہے۔اس جماعت کا جبر بھی اِسی طرح وسعت اختیار کرتا گیا اور ایک نہج پر یہ اپنے آقائوں کے لئے مسئلہ بننا لگا۔ جب اس کی 'کانٹ چھانٹ‘ کی کوشش کی گئی تو رعونت سے بھرے نودولتی لیڈر زیادہ بپھر گئے۔ دوسری جانب پہلے پہل صرف درمیانے درجے کے دکانداروں اور تاجروں سے بھتے وصول کئے جاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو بھی پرچیاں ملنے لگی تھیں۔ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں کوئی بھی طاقت ایک مخصوص حد سے زیادہ بالادست طبقات کے افراد کو تنگ نہیں کر سکتی۔ مزید برآں حکمران طبقات ایسی فسطائی تنظیموں کو اسی وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک ان کا فائدہ‘ نقصان سے زیادہ ہوتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر حکمران طبقے کے دبائو کے تحت اس ریاست کو مداخلت کرنا پڑتی ہے جس کی تشکیل کا بنیادی مقصد ہی اس اقلیتی طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے ۔ 
درمیانے طبقے کا پس منظر رکھنے والے نودولتی مہاجر رہنما خود کو ریاست کی حاکمیت کے لئے ناگزیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں لیا جا سکتا۔ چنانچہ اس کے خالقوں نے کنٹرول میں لانے کے لئے اس کے مختلف دھڑوں میں پھوٹ کا طریقہ واردات استعمال کیا لیکن اِس سے سارا توازن ٹوٹ گیا ہے۔ نئے دھڑے انتہائی غیر مستحکم ہیں اور حصہ داری کی لڑائی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہی کر رہی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات نے ایک بار پھر اس جمہوریت کو مالیاتی سرمائے کی لونڈی کے طور پر بے نقاب کیا ہے۔ ایم کیو ایم میں حالیہ پھوٹ اسی پیسے کی لڑائی ہے۔ ایک دوسرے کی بدعنوانی کے پول بھی کھولے جا رہے ہیں اور سرکاری ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی لگ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ پھوٹ اور دھڑے بندی بڑھے گی۔ لیکن مہاجر محنت کشوں کے لیے تو ان کی کئی حکومتوں کی کارکردگی ان کی اصلیت ظاہر کرنے کے لیے پہلے سے ہی کافی تھی۔ اس نظام میں کوئی بھی لسانی، مذہبی یا قومی پارٹی محنت کشوں کی زندگیوں میں بہتری نہیں لا سکتی کیونکہ مسئلہ رنگ، نسل یا مذہب کا نہیں طبقے کا ہے۔ ایم کیو ایم کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ مزدور چاہے کسی قوم یا نسل کے کیوں نہ ہوں، اس نظام میں بالادست اور درمیانے طبقے کے لیڈروں کی حاکمیت، استحصال اور ذلت کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ اگر کراچی اور پورے پاکستان کے محنت کشوں نے اس ذلت اور محرومی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو انہیں طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر تاریخ کے میدان میں اترنا ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں