پاکستان کے وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی‘ احسن اقبال نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پاکستانی سفارتخانے کی منعقد کردہ میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ''جب ہم اقتدار میں آئے تھے تو پاکستانی کی شرح نمو 3 فیصد تک گر چکی تھی۔ پچھلے سال شرح نمو بڑھ کر 5.3 فیصد ہو گئی تھی اور اس سال یہ 6 فیصد سے تجاوز کر جائے گی‘‘۔ احسن اقبال کے مطابق صنعتی ترقی میں اضافہ نواز لیگ کی حکومت کی جانب سے نیشنل گرڈ میں اضافی 11,000 میگاواٹ بجلی کے پیداوار کی وجہ سے ہوا ہے۔ کراچی میں ایک سو فیکٹریاں یا تو نئی لگی ہیں یا پھر پرانی بند فیکٹریاں دوبارہ چالو ہو گئی ہیں۔ موصوف وزیر کے یہ اعداد و شمار درست تو ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ اور معیشت کا سطحی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
نواز لیگ حکومت میں اس میکرو یعنی سرکاری حاکمیت کی معیشت میں سطحی ترقی کی گنجائشیں موجود تھیں۔ ان میں پہلا عنصر 2007ء تک ہونے والی مشرف دور کی شرح نمو میں 6.7 فیصد کا اضافہ تھا جو کہ شوکت عزیز کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے عارضی طور پر ممکن ہو سکا تھا۔ انفرادی معیشت دانوں اور سرمایہ دارانہ اقتصادی ماہرین کی مہارت اور معاشی ذہانت تھوڑی بہت تو کار فرما ہو سکتی ہے لیکن معیشت کو اس قابل بنانا کہ ہمارے جیسے ممالک میں سماج کی مساوی اور وسیع تر پرتوں اور خطوں کی اجتماعی ترقی ہو سکے‘ آج کے دور کے اس سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں ممکن نہیں رہا۔ اس کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ 2008ء میں جب مشرف
حکومت کا خاتمہ ہوا اور پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو میکرو معیشت کے اس دھارے کا عروج گزر چکا تھا۔ مشرف دور میں معیشت کی شرح نمو ابھارنے کے لئے شوکت عزیز نے کریڈٹ فنانسنگ کی واردات سے لوگوں کو آسان قسطوں پر قرضے دلوا کر ان کی قوت خرید میں جعلی اضافہ کیا تھا۔ کاروں سے لے کر ائیرکنڈیشنرز تک بینکوں کے قرضوں سے براہ راست حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اس سے منڈی میں حرکت بڑھی اور پیداوار و کھپت کے اضافے سے معیشت کی شرح نمو بھی 7 فیصد تک چلی گئی۔ کریڈٹ فنانسنگ کا یہ کھلواڑ ایک عرصے تک چلا۔ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں بھی انہی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن اب اس طریقہ واردات سے ہوا نکل چکی تھی اور اس میں معیشت کے مزید پھیلائو کی گنجائش اور صلاحیت کم ہو چکی تھی۔ ان طریقوں کے منفی اثرات بھی پڑے، قرضوں پر سود کی کم ترین شرح کی وجہ سے افراطِ زر اور مہنگائی میں ہولناک اضافہ ہوا۔ مشرف کے بعد عوامی تحریک کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے جمہوریت کے نام پر زائل کرکے پسپائی سے دوچار کیا اور زیادہ زور اپنے نو دولتیے اہلکاروں، وزیروں اور لیڈروں کی ہوس زر کی تکمیل میں صرف کیا۔ اس معاشی بحران کا ایک بھیانک نتیجہ لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی قلت کی صورت میں برآمد ہوا۔ پیپلز پارٹی کی2013ء کے انتخابات میں شکست فاش کی سب سے بڑی وجہ لوڈ شیڈدنگ تھی جس کو درست کرنے میں ان کے ماہرین اور معیشت دان زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آئے اور قیادت نے معیشت کا سارا کاروبار عالمی مالیاتی اداروں کے سابقہ ملازمین کے ذمے لگا کر خود کو دوسرے کارناموں میں مشغول کر لیا۔ حکمرانوں کی معیشت‘ زوال پذیری میں نسبتاً آسانی سے پُر کیے جا سکنے والی سطحوں میںخلا پیدا کرا دیتی ہے۔ نواز لیگ حکومت کا پہلا تُکا ان خلاؤں کو پُر کرنے پر لگا لیکن اس سے بڑھ کر‘ میکرو معیشت کی ترقی کو عوام تک رسائی دینے والی‘ مائیکرو معیشت تک وسعت دینے کی صلاحیت اس نظام میں اب نہیں ہے۔
نواز حکومت کے لیے دوسری موافق صورتحال تیل کی قیمتوں میں شدید کمی تھی۔ حکومت کے ابتدائی سالوں میںفی بیرل تیل کی قیمت 115 ڈالر سے گر کر 45 ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ حکومت کا تیسرا طریقہ واردات ایک رسک لینے والے جواری کے دائو لگانے والا تھا۔ اس حکومت نے تیزی سے بڑے بڑے قرضے لینے شروع کر دیئے۔ بے دریغ جنون میں قرضے لینے کی دوڑ شروع کر دی گئی۔ ان قرضوں کے حصول کی بے دھڑک پالیسی سے اس حکومت نے ملک پر کل بیرونی قرضوں کو بوجھ 67 ارب ڈالرسے 88.9 ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ قرضوں سے وقتی طور پر تو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے اور بجلی کے دیوہیکل پراجیکٹ لگ گئے یا لگ رہے ہیں لیکن ان قرضوں کا بوجھ اور ان کے سود اور قسطوں کی ادائیگی کا عمل اب معیشت پر ضربیں لگا رہا ہے۔
اسی دوران 2008ء کے مالیاتی کریش کی وجہ سے جب مغربی سامراجی ممالک سے پاکستان کو حاصل ہونے والی کمائی اپاہج ہوئی اور بڑے سرمایہ دار اور اجارہ داریاں مزید صنعتی پیداوار اور ترقیاتی منصوبوں میں کوئی بڑی سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہوئے تونواز لیگ حکومت نے پھر چین کے ساتھ سی پیک (CPEC) منصوبے شروع کروا کے کافی حد تک چینی سرمایہ کاری سے کام چلانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی یورپ اور دوسرے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی محنت کشوں نے وہاں اخراجات میں کمی کرکے زیادہ بچت اور رقوم کی ترسیل کا سلسلہ تیز کرنا شروع کر دیا۔ 2014ء تک یہ تقریباً 19 ارب ڈالر سالانہ ہو چکے تھے جو کہ حکمرانوں اور ان کی معیشت کے لئے کافی سود مند ثابت ہوا لیکن آج یہی عناصر ایک جدلیاتی عمل میں اپنے الٹ اثرات میں بکھرنے جا رہے ہیں۔ 2017ء کے وسط سے بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں کمی خصوصاً خلیج کے ممالک میں معاشی تنزلی کی وجہ سے واضح نظر آ رہی ہے۔ قرضے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان پر سود اور قسطوں کی ادائیگی کیلئے کارپوریٹ بینکوں سے مزید مہنگے قرضے لیے جا رہے ہیں۔ معیشت میں اس سنگین بوجھ سے دراڑیں بڑھ سکتی ہیں۔
2008ء سے2013ء تک کی معاشی ترقی کے سبب بننے والا خلا اور گنجائش اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ شرح نمو میں 6 فیصد سے مزید اضافے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ 2019ء میں یہ ایک نئی تنزلی کا شکار ہو گی۔ خام تیل، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور اگلے تین ماہ میں یہ 80 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتا ہے۔ اس سے حکومت کو ایک اہم موافق معاشی عنصر سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں۔ مہنگائی میں ہونے والا موجودہ اضافہ اس کے براہِ راست نتائج ہیں۔ سی پیک سے نئی ملازمتوں کے پیدا ہونے کے بہت قلیل امکانات ہیں چونکہ 2005ء کے بعد سے ہونے والی زیادہ تر سامراجی سرمایہ کاری Labour Instensive کی بجائے Capital Instensive کے طریقۂ کار پر مبنی ہوگئی ہے‘ اس لئے ماضی کی طرح اب CPEC کی سرمایہ کاری سے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ اس پس منظر میں جائزہ لیا جائے تو معیشت ایک زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سیاسی خلفشار اس تنزلی کو تیز کرے گا۔ ہر حکومت کو ایک شدید بحران کا سامنا ہو گا۔ یعنی وہ اپنے آغاز سے ہی انتشار اور بحران زدہ حاکمیت ہو گی۔
اگر یہ صورتحال حکمرانوں کی معیشت کی ہے تو دوسری جانب محنت کشوں اور غریب عوام کی زندگیاں بلند ترین معاشی شرح نمو میں بھی بہت کم سہل ہوتی ہیں۔ صرف درمیانہ طبقہ جو آبادی کا تقریباً 12 سے 15 فیصد ہے‘ کسی حد تک اس ٹریکل ڈائون سرمایہ دارانہ معیشت سے کچھ فائدہ حاصل کرتا ہے لیکن جب حکمرانوں کی معیشت زوال کا شکار ہو تو حکومت چاہے تمام بڑی پارٹیوں میں سے کسی کی بھی ہو‘ محنت کش عوام پر مزید جبر و استحصال کی پالیسیاں ہی اپنائے گی۔ تحریک انصاف سے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے مذہبی جماعتوں تک‘ سب کی سب اس نظامِ زر کی معیشت پر یقین رکھتی ہیں لیکن عوام یہ عذاب کب تک برداشت کریں گے۔ اس ذلت، محرومی اور افلاس سے نکلنے کیلئے صرف ان کی تحریک ہی ایک ایسی انقلابی پارٹی کو جنم دے سکتی جو چہرے نہیں نظام بدلے۔ حکومتیں نہیں ریاست کا کردار بدلے۔