"DLK" (space) message & send to 7575

امریکی سامراج کا بحران

عالمی سرمایہ داری کا نامیاتی بحران سماجی گھٹن اور پراگندگی کی شکل میں اپنا اظہار پوری دنیا میں کر رہا ہے۔ اگر پاکستان اور ہندوستان جیسے معاشروں میں دل سوز واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے انسانیت مجروح ہو رہی ہے تو یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی سماجی گھٹن سنگین واقعات کو جنم دے رہی ہے۔ ایسے واقعات کسی فرد کی ذہنی بیماری کے برعکس عمومی سماجی بیگانگی اور گھٹن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک آزاد ادارے 'گَن وائلنس آرکائیو‘ کی رپورٹ کے مطابق صرف 2018ء میں 21 فروری تک امریکہ میں 34 ماس شوٹنگ کے واقعات ہو چکے ہیں۔ 2017ء میں ایسے 346 واقعات دیکھنے کو ملے۔ موسیقی کی سرگرمیوں سے لے کر سکولوں تک ایسے واقعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دی گارڈین کے مطابق امریکہ میں اس وقت 26 کروڑ 50 لاکھ اسلحہ موجود ہے یعنی امریکہ کی کل بالغ آبادی سے زیادہ۔ ان تمام واقعات میں ملوث مجرمین میں اکثریت سفید فام ہے۔ یہ حقیقت امریکی ریاست اور حکام کے اس پراپیگنڈے کے برعکس ہے کہ تمام تر جرائم میں سیاہ فام آبادی ملوث ہوتی ہے۔ حالیہ پارک لینڈ فلوریڈا سکول میں ہونے والی شوٹنگ میں 17 لوگوں کے قتل کے معاملے پر صدر ٹرمپ کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے کہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے سکول اساتذہ اور سٹاف کو اسلحہ سے لیس کر دیا جائے۔ ایسے بیانات امریکی حکام کی ان واقعات سے متعلق ذہنیت اور سنجیدگی کی غمازی کرتے ہیں۔
20 جنوری 2018ء کو ٹرمپ انتظامیہ کا ایک سال مکمل ہوا‘ اور اسی روز ہی دوپہر بارہ بجے امریکہ میں وفاقی حکومت کا شٹ ڈائون بھی ہوا۔ یہ اس ملک کی جدید تاریخ میں اٹھارہواں شٹ ڈائون تھا‘ لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ جب حکومت کے تینوں حصے یعنی وائٹ ہائوس، ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں اکثریت ایک ہی پارٹی (ریپبلکن) کے پاس ہوتے ہوئے حکومت بند ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے لیکن اس کے اثرات میڈیا کی جانب سے پھیلائی گئی سنسنی سے کہیں کم تھے۔
امریکی وفاقی حکومت کے مالی سال کا آغاز یکم اکتوبر سے ہوتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے سالانہ بجٹ منظوری میں ناکامی کی وجہ سے کانگریس وقتی اور قلیل مدتی مالیاتی بل پاس کر کے حکومت کو فنڈز مہیا کر رہی تھی‘ جو 19 جنوری تک قابل عمل تھے‘ اور کانگریس اسے 16 فروری تک توسیع دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ توسیع ایوانِ نمائندگان میں تو منظور ہو گئی لیکن سینیٹ میں درکار 60 ووٹ نہیں حاصل کر سکی، اس کے لیے سینیٹ میں اقلیتی جماعت ڈیموکریٹ کا تعاون ضروری تھا۔ 2013ء میں بھی ری پبلکن پارٹی کی جانب سے اوباما کیئر کی فنڈنگ روکنے کی کوششں کے نتیجے میں حکومت 16 دن تک بند رہی تھی۔ شٹ ڈائون سے مسلح افواج جیسے اہم وفاقی ادارے اور ہنگامی سروسز متاثر نہیں ہوتیں‘ لیکن خواتین اور بچوں کے لیے خوراک کی فراہمی جیسے کئی فلاحی پروگراموں میں رکاوٹ متوقع تھی۔ اسی طرح تعلیم، ٹرانسپورٹ اور کئی دوسری وزارتوں کے محنت کشوں کی بڑی تعداد کو اس مدت کی تنخواہ نہیں ملتی۔ شٹ ڈائون کے دوران کانگریس کے ممبران کی بھاری تنخواہوں میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی جبکہ کم اجرت والے کئی وفاقی ملازمین کی تنخواہیں بند ہو جاتی ہیں۔
ایک مستقل بجٹ پاس کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ڈاکا (ڈیفرڈ ایکشن فار چائلڈہڈ ارائیول) پالیسی کو برقرار رکھنا ہے‘ جسے ری پبلکن ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکا پالیسی ان تارکین وطن کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے‘ جو بچپن میں غیر قانونی طور پر ملک میں آئے تھے۔ 2017ء میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد اس پالیسی کے تحت رجسٹرڈ ہوئے‘ اور اب ان کے سر پر ڈی پورٹیشن کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی تمام بالغ زندگی امریکہ میں گزاری ہے‘ اور انہیں جبراً ان ممالک میں ملک بدر کیا جا سکتا ہے‘ جہاں وہ بالکل اجنبی ہیں۔ دوسری جانب ریپبلکن بالخصوص وائٹ ہائوس ڈاکا پر لچک کے بدلے میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے لیے فنڈز کی منظوری چاہتے ہیں۔ بورژوا ریاست کے نقطہ نظر سے بھی یہ دیوار ایک بیہودہ اور مضحکہ خیز منصوبہ ہے اور سنجیدہ پالیسی ساز یہ بخوبی جانتے ہیں‘ لیکن یہ ٹرمپ کی پاگل پن پر مبنی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ انتخابی مہم میں ٹرمپ نے ننگی نسل پرستی اور امیگرینٹ مخالفت سے سماج کی کئی پسماندہ پرتوں کو اپنی جانب مبذول کیا تھا اور ان پرتوں کو ساتھ رکھنے کے لیے یہ اب اس کی ضرورت بھی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے حال ہی میں افریقہ اور کریبین کے ممالک کے لیے غلاظت بھری زبان استعمال کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ان تارکینِ وطن کی حمایت بھی انتہائی منافقت پر مبنی‘ اور امیگرینٹ کمیونٹی کے ووٹ برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں ڈی پورٹیشن کا سب سے بڑا پروگرام ڈیموکریٹک صدر اوباما کے دور میں جاری ہوا‘ جس میں 25 لاکھ لوگوں کو جبراً واپس بھیجا گیا۔ تارکین وطن اور بالخصوص قانونی حیثیت سے محروم تارکین وطن امریکی سرمایہ داری کے لیے ناگزیر ہیں۔ ایک طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر صحت اور دوسری جدید ترین صنعتیں بڑے پیمانے پر دوسرے ممالک سے آئے محنت کشوں پر منحصر ہیں تو دوسری طرف زراعت، تعمیرات اور دوسرے سخت جسمانی محنت والے کاموں میں غیر قانونی تارکین وطن کا بد ترین استحصال کر کے بھاری شرح منافع بھی حاصل کی جاتی ہے۔ خود صدر ٹرمپ کی ملکیت‘ عیاشی کے کلبوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والوں کی اکثریت غیر ملکی محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ میں ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں۔ جہاں ان کا استحصال سرمایہ داری کے لیے ضروری ہے‘ وہیں ان کو مسلسل خوف میں رکھ کر ہی اس استحصال کو ممکن بنایا اور جاری رکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ان تارکین وطن کے خلاف نفرت کو ابھار کر امریکی محنت کشوں کی طبقاتی جڑت اور جدوجہد کو کمزور کیا جاتا ہے۔ امریکی محنت کشوں کو مسلسل ڈرایا جاتا ہے کہ غیر ملکی محنت کش ان کی نوکریاں چھین لیں گے‘ چنانچہ انہیں کم اجرتوں اور مراعات پر سمجھوتہ کرنا چاہیے۔
ایک سال گزرنے کے بعد محنت کشوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ مختلف جائزوں کے مطابق تقریباً 35 فیصد امریکی ٹرمپ کی کارکردگی کو مثبت قرار دے رہے ہیں، جو کہ امریکی تاریخ میں کسی بھی صدر کی پہلے برس میں بد ترین شرح ہے۔ ٹرمپ نے صنعتوں اور کاروبار پر ماحولیات اور صنعتی سیفٹی کی بہت سی ریگولیشنز کا خاتمہ کر دیا۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس 35 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ٹیکس قوانین میں مختلف چور دروازوں کی وجہ سے حقیقی شرح کہیں کم ہے اور بہت سی کارپوریشنز برائے نام ہی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ اسی بِل میں ہی ہیلتھ انشورنس لینے کی انفرادی پابندی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے امریکی حکومت کو سبسڈی کی مد میں بڑی بچت ہو گی۔ محتاط اندازے کے مطابق اس کے نتیجے میں 2027ء تک مزید ایک کروڑ تیس لاکھ امریکی ہیلتھ انشورنس سے محروم ہو جائیں گے۔
امریکہ کی دونوں پارٹیاں ہی سرمایہ داروں کی نمائندہ اور آلہ کار ہیں۔ جہاں ان کے سرمایہ دارانہ ریاست کو چلانے کے مفادات پر مبنی باہمی اختلافات ہیں‘ وہاں دونوں پارٹیاں محنت کشوں اور امریکی عوام کے مختلف حصوں اور حلقوں کو اپنے اپنے انداز سے دھوکہ دے کر سرمایہ دارانہ اقتدار کو استحکام اور طوالت دیتی ہیں۔ سماج میں ٹرمپ کے خلاف پہلے سے موجود نفرت اور غصہ بڑھتاجا رہا ہے۔ 20 جنوری کو ہی ملک گیر خواتین مارچ میں لاکھوں کی شرکت اس نفرت کا ایک اظہار ہے۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی اس نفرت کو کیش کروا کر رواں برس ہونے والے کانگریس کے انتخابات میں مزید نشستیں جیتنے کی کوشش میں ہے۔ وقت و حالات ان کو مزید بے نقاب کریں گے۔ تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے اور ٹرمپ کے خلاف نفرت سارے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ امریکی پرولتاریہ کی انقلابی تحریک کے آگے دنیا کی تاریخ کی سب سے طاقتور ریاست بھی کھڑی نہیں رہ سکتی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں