"DLK" (space) message & send to 7575

برازیل:رجعتی اشتعال

ایک رجعتی اور جابرانہ ذہن رکھنے والے دائیں بازو کا امیدوار بولسنارو کا 28 اکتوبر کے انتخابات میں 55 فیصد ووٹوں کے ساتھ جیت کر صدر بننا‘ برازیل کے انتہائی جرأت مند اور مضبوط محنت کش طبقے کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی سنگینی میں بولسنارو کی فتح برازیل سمیت دنیا بھر میں ٹرمپ، ڈیوٹرٹے اور مودی و دیگر کے بعد ایک اور بد ترین اضافہ ثابت ہو گی اور آنے والے عرصے میں برازیل میں بھی کم و بیش ویسی ہی صورتحال جنم لے گی‘ جو اس قسم کی قیادتوں کی بدولت دنیا بھر میں آشکار ہو رہی ہے۔ بعض ماہرین زائل بولسنارو کو اس کی جارحانہ پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی بنا پر پہلے ہی کچھ موجودہ حکمرانوں سے تشبیہ دے رہے ہیں، جبکہ بعض ماہرین اسے برازیلی ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں۔ بولسنارو ان لیڈروں کی طرح برازیل میں بد عنوانی کا ''سخت ناقد‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی نجکاری کا بھرپور حمایتی بھی ہے۔
برازیل میں بھی حکمران طبقہ تباہ کن معاشی صورتحال کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ماضی کی تمام تر سہولیات کو کٹوتیوں کے ذریعے ختم کرنے اور محنت کش عوام پر معاشی حملے تیز کرنے کے لیے مقتدر قوتوں کے پاس بولسنارو سب سے موزوں انتخاب ہے۔ اگرچہ بولسنارو کی جیت میں سب سے بھاری شکست ماحولیات کو ہو گی۔ اس نے پہلے ہی ایمیزون کے جنگلات کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات ختم کرنے کے اعلانات کر رکھے ہیں تاکہ دنیا کے پھیپھڑے کہلائے جانے والے ان جنگلات کی اراضی کو سرمایہ کاروں کی نذر کیا جا سکے۔ ٹرمپ کی طرح بولسنارو نے بھی پیرس معاہدے سے دستبرداری کا عندیہ دیا ہے۔ 
ان انتخابات سے قبل برازیل میں 2014ء میں اصلاح پسند بائیں بازو کی 'ڈلما روسیف‘ صدر منتخب ہوئی تھیں‘ جن سے پہلے ورکرز پارٹی کے ہی لولا ڈی سلوا 2003ء سے 2011ء تک صدر رہے تھے۔ سلوا کو 'بد عنوانی‘ کے جرم میں نو سال کی سزا سنائی گئی۔ وہ اب تک قید میں ہیں۔ سلوا کی دستبرداری کے بعد ڈلما روسیف کو 2016ء میں معزول کر دیا گیا‘ اور نائب صدر 'مشیل تیمیر‘ نئے صدر بنے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق سلوا پر بے بنیاد الزام لگائے گئے۔ اسی لیے وہ حالیہ الیکشن سے قبل نمبر ایک پر تصور کئے جا رہے تھے اور اگر وہ انتخابات میں شریک ہوتے تو شاید جیت بھی جاتے۔ سلوا صدر کے عہدے کے لیے اس الیکشن میں بڑے دعوے دار تھے اور اقوام متحدہ کی کمیٹی نے بھی الیکشن لڑنے کی اجازت کی حمایت کی تھی‘ لیکن الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے جب انہیں اجازت نہیں دی تو انہوں نے 'فرنانڈو حداد‘ کو اپنی پارٹی کا امیدوار قرار دیا۔
برازیل معاشی طور پر گزشتہ چند سالوں کے دوران بے شمار مسائل میں گھرا رہا ہے۔ تیز رفتاری سے ترقی کرتی معیشت اب بد حالی کا شکار ہے۔ برازیل کے سینئر صحافی 'شوبن سکسینا‘ کے مطابق ڈلما روسیف کے بعد برازیل میں شدید سیاسی اور اقتصادی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کی رفتار سست ہو گئی اور اب یہ منفی میں چلی گئی ہے‘‘۔ ان کے مطابق ''اس کی وجہ بد عنوانی کے خلاف حالیہ سالوں میں ہونے والے زبردست مظاہرے ہیں۔ انتخابات میں معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ کیونکہ کروڑوں افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور ملک میں سرمایہ کار بھی نہیں آ رہے۔‘‘
برازیل لاطینی امریکہ کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ لاطینی امریکہ کی بڑی معیشت کی حیثیت رکھتا ہے۔ 21 کروڑ آبادی رکھنے والا یہ ملک چند سال قبل اپنی تیز ترین معاشی ترقی کی بنا پر برکس ممالک میں شریک کیا گیا‘ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے برازیل کی معیشت بحران کا شکار ہے‘ جو سرمایہ داری کے عالمی بحران کی ہی ایک کڑی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کی شدید کساد بازاری میں برازیل کی حقیقی شرح ترقی ایک فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ حالیہ بحران نے برازیل کی معاشی ترقی کا پول کھول دیا ہے‘ جس پر تمام ادارے ششدر ہیں۔ 'IBASE‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 ء میں 52 لاکھ لوگ شدید غربت کا شکار تھے جبکہ جولائی 2017ء تک یہ تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور تقریباً پچیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ برازیل کے شمال مشرقی علاقے شدید غربت سے دوچار ہیں‘ جہاں تقریباً 81 لاکھ لوگ بد ترین غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بیروزگاری میں گزشتہ دو سالوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ برازیلین انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی اینڈ سٹیٹسٹکس کے مطابق اس وقت بیروزگاروں کی شرح 13.7 فیصد یعنی ایک کروڑ 28 لاکھ افراد سے تجاوز کر چکی ہے‘ جو 2014 ء میں اپنی کم ترین سطح پر تھی۔ مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے نتیجے میں اب تمام اصلاحاتی پروگرامز کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اور آج برازیل اقوام متحدہ کے 'ہنگر میپ‘ کا حصہ بن چکا ہے۔ آکسفیم انٹرنیشنل کی ستمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق برازیل میں موجود صرف چھ افراد کے پاس دس کروڑ غریب ترین باسیوں جتنی دولت موجود ہے‘ جبکہ سب سے کم آمدن رکھنے والے افراد میں 78.5 فیصد سیاہ فام اور 20.8 فیصد افراد کا تعلق سفید فام لوگوں سے ہے۔ اتھاہ غربت اور بیروزگاری کی کیفیت میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں قتل پر منتج ہو رہی ہیں۔ صرف گزشتہ سال 63,880 افراد کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا۔ یوں دنیا کے بیس سب سے پُرتشدد شہروں میں سے سات شہروں کا تعلق برازیل سے ہے۔
یہ ساری صورتحال دراصل سرمایہ دارانہ نظام ہی کا نامیاتی بحران ہے۔ برازیل کے سرمایہ دار طبقات کی یہ خوش فہمی ہے کہ وہ بولسنارو سے منشا کے مطابق اقدامات کروا لیں گے۔ پہلے ہی فوج کے سابق افسر بولسنارو کا تعلق فوج اور ایجنسیوں سے جوڑا جا رہا ہے اور یہ کہنا کسی طور پر بھی غلط نہ ہو گا کہ برازیل میں بھی پاکستان کی طرح پہلے ہی کچھ دنوں میں بولسنارو محنت کش عوام پر شدید حملے کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان حملوں کے نتیجے میں ایک بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے۔ اسی طرح سب سے بڑی تبدیلی غیر ملکی پالیسی میں آئے گی‘ جہاں ایک طرف ڈی سلوا انڈیا اور چین کے ساتھ برکس میں سرگرم تھا‘ وہیں بولسنارو کے اقدامات سے معاشی بحران مزید گہرا ہو گا۔ اس معاشی بحران کے نتیجے میں موجودہ پسپائی سے ابھرنے والی رجعت برعکس صورت بھی اختیار کر سکتی ہے‘ اور محنت کشوں کی تحریک ابھر سکتی ہے‘ جسے روکنے کے لیے بولسنارو کا نحیف اقتدار بہت چھوٹا ثابت ہو گا۔ پہلے انتخابی مرحلے میں کامیابی کے فوراً بعد ہی اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے تھے۔ طبقاتی مسائل کے ساتھ ساتھ 'LGBT‘ کمیونٹی، خواتین اور ماحولیات پر اس کی پالیسیاں اور اس کے بیانات سے معاشرے کی پسی ہوئی پرتوں میں بے چینی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔
برازیل کے عوام کی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی ایک بھرپور تاریخ ہے۔ عوام ہر محاذ پر فوجی آمروں کو شکست سے دوچار کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف جمہوریت اور اصلاحات کے ڈھونگ بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بولسنارو جیسے دائیں بازو کے پاپولسٹ کا ابھار بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی ناکامی کا ہی نتیجہ ہے۔ بولسنارو کے خلاف بھی'#NotHim‘ نعرے کے تحت تحریک نے زور پکڑا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ہے۔ آنے والا وقت برازیل میں طبقاتی تضادات میں مزید شدت اور سماج میں انتشار سے لبریز ہو گا۔یہ نتائج پورے لاطینی امریکہ اور بین الاقوامی بائیں بازو کے لیے ایک سبق ہیں۔ وینزویلا سے لے کر ایکواڈور اور بولیویا سے لے کر چلی تک جہاں بھی بائیں بازو کی حکومتیں آئیں‘ انہوں نے سرمایہ داری کی بنیادوں کو چیلنج نہیں کیا۔ سرمایہ داری میں مقید اصلاحات معاشی بحران کو بڑھاتی ہیں‘ اور سماجی ترقی سے قاصر رہتی ہیں‘ جس کا نتیجہ دائیں بازو کی راہیں ہموار کرنے میں نکلتا ہے۔ اب یہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ مکمل تبدیلی کے بغیر معاشروں میں کوئی استحکام اور خوشحالی ممکن نہیں رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں