"DLK" (space) message & send to 7575

1968-69ء کی میراث: پیامِ انقلاب … (2)

21 فروری 1969ء کو ایوب خان نے اعلان کیا کہ وہ 1970ء کے صدارتی انتخابات میں امیدوار نہیں ہوں گے‘ لیکن اس سے تحریک ٹھنڈی پڑنے کی بجائے اور بھی پُراعتماد ہو گئی، مزید بھڑک اٹھی اور ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین بھی اب احتجاج کرنے لگے۔ لاہور میں مغربی پاکستان سیکرٹریٹ کے کلرکوں کی ہڑتال جلد ہی کلاس سوئم اور چہارم کے ملازمین تک پھیل گئی۔ کچھ ہی دنوں میں اس میں سرکاری ہسپتالوں، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ، ڈاک، روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن، نیشنل بینک اور واپڈا سمیت کئی حکومتی اداروں کے نچلے درجے کے ملازمین شامل ہو گئے۔ اس عرصے میں مزدور تنظیموں میں منظم محنت کش کہیں زیادہ متحرک اور لڑاکا ہو چکے تھے۔ مغربی پاکستان میں بڑی یونینوں اور فیڈریشنوں کے رہنمائوں نے 'جوائنٹ لیبر کونسل‘ (JLC) قائم کی‘ جس نے مارچ کے پہلے ہفتے کو 'محنت کشوں کے مطالبات کا ہفتہ‘ قرار دے دیا اور 17 مارچ 1969ء کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ یہ ہڑتال انتہائی کامیاب رہی۔ واپڈا کے محنت کشوں نے ایوانِ صدر، اسلام آباد سول سیکرٹریٹ، حکومتی دفاتر اور جی ایچ کیو کی بجلی دو گھنٹے تک منقطع رکھی۔ 'ویسٹ پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز‘ (WPFTU) کے صدر بشیر بختیار کے مطابق، ''یہ ایوب خان کے نام ہمارا پیغام تھا: کہ اگر تم نہیں جاتے تو بجلی مستقل بند رہے گی۔‘‘ یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ محنت کشوں کا شعور نئی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔
مارچ کا سارا مہینہ پورے ملک میں محنت کشوں کی بغاوتوں سے لبریز تھا جن میں جلائو، گھیرائو اور فیکٹریوں پر قبضوں کے واقعات شامل تھے۔ سرکاری ملازمین کی ہڑتالوں کے ساتھ مل کر ان حالات نے نہ صرف نظامِ حکومت بلکہ تمام معیشت کا پہیہ بھی جام کر دیا۔ انقلابی عمل میں محنت کش طبقے کی فعال شمولیت، بہتر اجرتوں کے لئے سیاسی طریقہ کار کی کاریگری کا ادراک حاصل کرنے اور ہڑتال کرنے کے حق، صنعت کی نیشنلائزیشن و سرمایہ داری کے خاتمے جیسے وسیع تر مطالبات سے نظریاتی طور پر تحریک کے سب سے اعلیٰ مرحلے کا آغاز ہو گیا۔ اس کا ناگزیر مطلب ملک میں بڑھتی ہوئی نظریاتی پولرائزیشن تھا۔ تحریک، جس کی شخصی نمائندگی اب بھٹو اور بھاشانی کی شکل میں زیادہ سے زیادہ ہونے لگی تھی، بدستور ایوب خان کے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی بلکہ اس سے آگے کی انقلابی امنگوں کا اظہار بھی کرنے لگی تھی۔
ایوب خان دور کی تیز صنعتکاری کے باوجود پاکستان 1968-69ء میں ابھی تک ایک زرعی سماج تھا۔ آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی تھی‘ لیکن شہروں سے اٹھنے والے انقلابی نعروں اور مطالبات کی گونج دیہات میں بھی زیادہ سے زیادہ سنی جانے لگی تھی‘ جس کے کسان عوام کی سوچ، نفسیات اور شعور پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ جلد ہی ایک دیوہیکل کسان بغاوت بھی بیدار ہو گئی اور شہروں میں جاری انقلاب سے مل گئی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں دہقان، ہاری اور چھوٹے کسان بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی دھونس اور غلبے کو چیلنج کرنے لگے۔ کسان تحریک کا مقبول نعرہ ''جیڑا واوے، اوہی کھاوے‘‘ تھا یعنی پیداوار پر حق صرف محنت کرنے والوں کا ہے۔ 
اِس خطے میں کسان بغاوتوں کی طویل تاریخ ہے۔ ان سے برآمد ہونے والے کسان جلسوں اور اکٹھ کی روایت نے دیہی تحریک کو کچھ تنظیمی بنیاد میسر کی۔ پہلی کسان کانفرنس کا انعقاد مارچ 1948ء میں ضلع لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کی ٹوبہ ٹیک سنگھ تحصیل میں ہوا تھا۔ اس کانفرنس میں پنجاب کسان کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے دیہی اور شہری علاقوں کے کسانوں کو متوجہ کیا تھا۔ 1968-69ء کے انقلاب نے ایک بلند تر پیمانے پر اسی روایت کا احیا کیا اور پنجاب کے مختلف حصوں میں کسان کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں جن میں 22 اور 23 مارچ 1970ء کی ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اس جلسے میں پورے ملک سے پانچ لاکھ کسانوں نے شرکت کی۔ نمایاں مقررین میں مولانا بھاشانی، فیض احمد فیض، احمد راہی اور معراج محمد خان شامل تھے۔ لوگ اس محور کے گرد کسی گردباد کی طرح گھومنے لگے۔ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار تھر تھر کانپ رہے تھے۔ امریکی اور یورپی سرمائے کے تابعدار سرمایہ داروں کا خون خشک ہو رہا تھا۔ ملاں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ مظلوم خلق اُس نظام کو تبدیل کرنے چلی ہے جسے آج تک وہ خدا کی رضا قرار دیتے آئے ہیں۔
یہاں کی ریاستی افسر شاہی سدا سے ماضی کی پرستش کرتی آئی ہے اور اس کے خیالات اور رویوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد شاید ہی کچھ تبدیل ہوا ہے۔ لاہور میں طلبہ نے حکومت نواز اخباروں کے دفاتر نذرِ آتش کر دئیے۔ پچاس ہزار سے زیادہ طلبہ اور مزدوروں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ پولیس سے جھڑپیں اور سرکاری دفاتر پر قبضے ہوئے۔ لاہور میں 26 جنوری کی شام ڈھل رہی تھی اور سپریم کورٹ کی عمارت کے گرد و نواح میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ یہ آگ اُس سے نفرت کا اظہار تھی جس نے ایوب راج کے دس سالوں کے دوران بھرپور گماشتگی کا کردار ادا کیا تھا۔ عوام کے غیظ و غضب نے ریاست کے ایک اہم ادارے کی عمارت کو جلا کے راکھ کر ڈالا تھا۔
لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں طلبہ سرکاری افسران کی پرتعیش گاڑیوں کو روکتے تھے، انہیں باہر نکالتے تھے اور ایوب مخالف نعرے لگانے پر مجبور کرتے تھے۔ کسی ایک افسر نے بھی انکار نہیں کیا! دیکھنے والے اِس تماشے سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے... لاہور میں پولیس کے سب سے سینئر افسر کی وردی اتار کے اُسے طلبہ کے مظاہرے کے آگے آگے چلایا گیا تھا۔ صحافی، اساتذہ، ڈاکٹر، نرسز، انجینئر، آرکیٹیکٹ اور دوسرے نسبتاً مراعت یافتہ پیشوں کے لوگ بغاوت کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔ 13 فروری کو ریلوے کے 30 ہزار مزدوروں نے اپنے مائوسٹ خیالات رکھنے والے رہنمائوں کو مظاہرہ منعقد کرنے پر مجبور کیا‘ اور لاہور کی بڑی شاہراہوں پر مارچ کیا۔ انہوں نے سرخ جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ ''سرمایہ داری مردہ باد‘‘ اور ''مذہب کو سیاست سے جدا رکھو‘‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ اسی دن دوسرے شعبوں کے محنت کشوں نے پانچ احتجاجی مظاہرے کیے اور ٹریفک بالکل رُک گئی۔
لاہور میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے شہر پر مزدور راج قائم ہو چکا ہو۔ 'دی ٹائمز‘ (لندن) کے نمائندے نے 14 فروری 1969ء کو رپورٹ دی: ''بغاوت، جو اب تک طلبہ اور سیاسی کارکنان تک محدود تھی، میں محنت کش طبقے کی شمولیت کے بعد دیکھنے والے سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ کیا حکومت یا اپوزیشن ان قوتوں کو قابو کر سکتی ہے جو پاکستان میں بے قابو ہو چکی ہیں...‘‘ اسی دن طلبہ نے لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب سگنل خراب کر کے ٹرینوں کی آمد و رفت معطل کر دی۔
انقلاب نے درمیانے طبقات کے پس و پیش، تذبذب اور ہچکچاہٹ کی گنجائش بھی ختم کر دی تھی۔ فن، دانش اور اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ایسے پیشے اور شعبے جنہیں 'معمول‘ کے حالات میں حکمران طبقات اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، محنت کش طبقے کی پیروی کرنے لگے تھے۔ ان میں سب سے اہم اور منظم جدوجہد صحافیوں کی تھی۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان کے استعفے کے بعد مسلح افواج میں موجود بے چینی اور طبقاتی تقسیم ایک اہم عنصر تھی۔ جنرل یحییٰ خان کی مصلحت اور اصلاح پسندی پر مبنی پالیسیاں اس وقت فوج کے اندر موجود تضادات اور دبائو کا اظہار کر رہی تھیں۔ بالخصوص مغربی پاکستان، جہاں سے زیادہ تر فوج بھرتی ہوتی تھی، میں پاکستانی قوم پرستی کو ہوا دینے اور ہندوستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے پیچھے ادارے میں موجود مخالفت اور تضادات کو دبانے کی نیت بھی شامل تھی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں