"DLK" (space) message & send to 7575

پسپائی

ملک کی لبرل اشرافیہ کی امیدوں کے برعکس محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب نے بالآخر وہی کیا جس کی توقع اُن کے طبقے سے کی جا سکتی تھی اور جواس نظام کی حدود میں ممکن تھا۔ نوا ز شریف کی خاموشی اور مریم کا بیگانگی اختیار کر جانا ویسے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ بس ایک خلا تھا جس میں ووٹ کے تقدس کا واویلا کیا گیا۔ سویلین بالا دستی کی لڑائی لڑنے کا تاثر دیا گیا۔ ان کی 'قانونی مظلومیت‘ سے متاثر ہونے والوں میں انصاف سے محروم لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ قرضوں کے زور پر حاصل کیے گئے معاشی پھیلائو کے نیچے تک پہنچنے والے کچھ ثمرات سے بھی حمایت ملی‘ لیکن ہمدردیوں کی بنیاد پر کوئی دیرپا اور جرأت مندانہ تحریکیں نہیں ابھرا کرتیں۔ نظام کے ستونوں کو چیلنج کرنے کیلئے نظام سے کھلی بغاوت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن بالا دست طبقات کے بظاہر 'باغی‘ دھڑوں کی معاشی اور سیاسی بنیادیں بھی اسی نظام میں پیوست ہوتی ہیں۔ ایسے میں نظام بدلنے کی بات کی بھی جائے تو کھوکھلا نعرہ ہی رہتی ہے۔ برطرفی کے بعد نواز شریف صاحب کی تمام تر شعلہ بیانی مروجہ سیاست میں خاصی 'ریڈیکل‘ لگنے کے باوجود کہیں بھی نظام کی بنیادوں سے متصادم نہیں تھی۔ بالائی ڈھانچوں اور اداروں پر تنقید کے باوجود نظام سے متصادم ہر دھارا‘ جو کہیں لا شعوری طور پر ہی بہہ نکلا تھا، نواز اور مریم دونوں نے خود ہی کاٹ ڈالا۔ اس نظام کی حقیقی بنیادوں پر بات تک کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ عام لوگوںکی ذلت، استحصال اور محرومی کی وجوہات پر بات کی گئی نہ ہی ان دکھوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی مستند پروگرام دیا گیا۔ عوام تو اپنی تلخیوں سے بھری زندگیوں میں کوئی راہِ نجات اور راہبر تلاش کر رہے تھے۔ ایسے میں اِس پیسے کی جمہوریت، جسے کوئی ذی شعور انسان سنجیدہ نہیں لے سکتا، کے نام پر کہاں تک حمایت حاصل کی جا سکتی تھی؟ کیسی جمہوریت؟ جس میں ہر طرح کا طبقاتی، صنفی اور قومی استحصال جاری و ساری رہے؟ سیاسی ڈھانچہ، چاہے جمہوری ہو یا آمرانہ، مروجہ نظام کو جاری رکھنے کیلئے ہی ہوتا ہے۔ یہ خود کوئی نظام نہیں ہوتا بلکہ نظام کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس میں تبدیلیاں یا اصلاحات کر بھی دی جائیں لیکن نظام تو وہی رہے گا۔ محنت کشوں کے حالات تو نہیں بدلیں گے۔ 
اس ملک میں فوجی آمریتوں کے جبر کا ایک سیاسی نقصان عوام کی کچھ پرتوں میں جمہوریت سے وابستہ خوش فہمیوں کا پنپنا بھی تھا‘ جس میں پیپلز پارٹی کی کچھ قیادتوں کا مجرمانہ کردار بھی کارفرما تھا‘ جنہوں نے انقلابی سوشلزم کے منشور سے انحراف کرتے ہوئے ''جمہوریت‘‘ کو ہی اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔ پھر نواز شریف صاحب کی پارٹی کون سی کوئی انقلابی پارٹی تھی۔ دوسری مسلم لیگوں کی طرح نواز لیگ بھی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ٹھیکیداروں، آڑھتیوں اور دکانداروں پر مبنی ہے۔ اس میں محنت کشوں کا کوئی گزر نہیں ‘ بلکہ یہ انہیں دبانے اور کچلنے کا سیاسی اوزار رہی ہے۔ ایسی کسی پارٹی پر تکیہ کرتے ہوئے طاقتور اداروں کو چیلنج کرنا خود ایک حماقت بن جاتی ہے۔ شہباز شریف کے دھڑے نے تو روزِ اول سے ہی کوئی برائے نام مزاحمت بھی نہ کرنے کی روش اپنائی۔ مالدار اشرافیہ میں خاندانی رشتوں کی ویسی قدر و قیمت نہیں ہوا کرتی جیسی عام لوگوں میں کسی حد تک پائی جاتی ہے‘ لیکن وہ نواز شریف کو اس لئے بھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے کہ نواز لیگ کی سیاست میں سے انہیں منفی کرنا ممکن نہیں تھا۔
سرکار کے طاقتور حصوں سے جب تھوڑی بہت چپقلش شروع ہوئی تو نواز لیگ کے لیڈروں کے مالی مفادات آڑے آنے لگے۔ اس طبقے کو اپنی دولت باقی ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہوتی ہے۔ وہ دولت کو بڑھانے کے لئے ہی سیاست کرتے ہیں، گنوانے کے لئے نہیں۔ لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنے آغاز سے ہی ناکام و نامراد تھا۔ طاقتور صنعت کاری کی بنیاد پر ملک گیر ہموار و دیرپا ترقی کے ذریعے وہ پاکستان کو ایک یکجا قومی ریاست اور جدید صنعتی ملک بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ انگریز سامراج کے پیوند کردہ اس حکمران طبقے میں اتنی تکنیکی اور مالیاتی صلاحیت نہیں تھی کہ عالمی منڈی پر حاوی اجارہ داریوں کا مقابلہ کر سکے اور اپنی معاشی، سیاسی اور سفارتی سالمیت استوار کرے۔ اسی تاریخی تاخیر اور مالی و تکنیکی کمزوری کی وجہ سے وہ سامراجی طاقتوں کی کمیشن ایجنٹی تک ہی محدود رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے منافعوں اور طبقاتی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں روزِ اول سے بد عنوانی کا طریقہ کار اختیار کرنا پڑا؛ چنانچہ یہاں کے حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں‘ جو مختلف حاوی سیاسی پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں‘ کو ریاستی اقتدار کا آسرا چاہیے ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسانی جسم کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں روزِ اول سے ریاست کے تابع طبقے کا ریاست سے ٹکر لینا تو دور کی بات ہے وہ ریاستی اداروں کے سامنے چوں تک بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں سویلین حکومتیں ریاست کے ماتحت ہوتی ہیں نہ کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ریاست کو اپنی گورننس کا آلہ کار بناتی ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقے کی یہی تاریخی نامرادی نواز شریف اور مریم صاحبہ کی پسپائی کے پیچھے بھی کارفرما رہی ہے۔ انہوں نے 'جمہوریت‘ کی بالا دستی کی لڑائی کا جو کھیل شروع کیا تھا‘ وہ اپنے آغاز سے ہی ناکام تھا۔ علاوہ ازیں نواز شریف صاحب اپنی نواز لیگ سے ہی جان چھڑانے میں ناکام رہے اور پھر ہر ناکام لیڈر کی طرح عوام کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔ 
ایسا بھی نہیں ہے کہ حکمران طبقے کا کوئی فرد اپنے طبقے سے بغاوت کر کے انقلاب کے راستے پر نہ چلا ہو۔ بھٹو نے کم از کم کہا ضرور تھا کہ 'میں اپنے طبقے سے بغاوت کر کے محنت کش طبقے کے ساتھ آن ملا ہوں‘ لیکن اس بغاوت کو عملاً مکمل نہ کر سکنے پر ان کے آبائی طبقے نے ہی انہیں نشانِ عبرت بنایا تھا۔ لیکن بھٹو نے آنے والی نسلوں کے لئے یہ سبق اپنی آخری تحریر میں ضرور چھوڑا تھا کہ ''میں نے دو ناقابل مصالحت طبقات کے درمیان سمجھوتہ کروانے کی کوشش کی لیکن میرا انجام اس بات کا ثبوت ہے کہ متضاد طبقات کے مابین مصالحت کی کوشش محض دیوانے کا خواب ہوتی ہے۔‘‘ لیکن نواز شریف صاحب نے تو اس ڈگر پر ایک قدم بھی نہیں رکھا‘ ان کا فریڈرک اینگلز یا چو این لائی بننا تو بہت دور کی بات تھی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی شاید اتنی جرات اور ہمت نہیں تھی؛ تاہم نوا ز شریف کی اس پسپائی میں حکمران طبقات کو ایک وارننگ ضرور مل گئی ہے کہ '' جو قاعدے میں رہے گا وہی فائدے میں رہے گا۔‘‘ لیکن یہ سیاسی خلفشار چلتا رہے گا۔ نورا کشتیوں کا بازار گرم رکھ کے ہر بنیادی ضرورت کی قیمت بڑھائی جاتی رہے گی۔ مہنگائی زخم پہ زخم لگاتی رہے گی۔ بیروزگاری اور محرومی بڑھتی رہے گی اور ذلت اس نظامِ سرمایہ میں معاشرے کی وسیع تر آبادی کو عذابوں میں مبتلا رکھے گی۔ احتساب ایک کھلواڑ ہے جسے حکمران طبقات اپنی آپسی لڑائیوں میں جاری رکھتے ہیں۔ اپنی وارداتوں کے ظلم سے توجہ ہٹانے کے اوزار کے طور پر کرپشن کا شور مچایا جاتا ہے۔ پرانی پارٹیوں سے عوام تنگ ہیں۔ مروجہ سیاست سے بھی وہ بیزار ہیں۔ لیکن 'نئی پارٹی‘ نے پرانی پارٹیوں سے بھی زیادہ معاشی جبر شروع کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے ''بدعنوانی‘‘ نے جو حالیہ پانچ ہزار اکائونٹوں کی پٹاری کھولی ہے‘ اس دوران انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ معیشت کالے دھن پر مبنی ہے۔ یہ کالا دھن اِس نظام سے ختم نہیں ہو سکتا۔ اپنے مالیاتی فنانسروں سے ٹکرانے کا مطلب اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ لیکن یہ ساری حکمران سیاست اور حاکمیت رو بہ زوال ہے‘ کیونکہ جس نظام پر یہ کھڑی ہے اس کا وقت گزر چکا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں