اتوار 9 دسمبر کو کراچی میں وزیر اعظم عمران خان کے تاخیر زدہ دورے پر کراچی پریس کلب کے باہر ڈھائی ماہ سے دھرنا دیے ہوئے پورٹ قاسم اور کراچی کی دوسری بندرگاہوں کے گودی مزدوروں نے ایک ریلی کی شکل اختیار کرکے گورنر ہائوس کی جانب مارچ شروع کر دیا‘ اور اجرتوں کی عدم ادائیگی، پنشنوں اور دوسرے معاشی مطالبات منوانے کے لئے اس ریلی کو آگے لے جانے کی کوشش کی‘ لیکن مزدوروں کی اس طبقاتی جدوجہد کو جس جبروتشدد کا سامنا کرنا پڑا‘ اس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ حاکمیت کس طبقے اور کردار کے احتجاج کو کس بنیاد پر سنجیدہ لیتی ہے‘ اور ناقابل مصالحت تضادات کیونکر صرف اور صرف طبقاتی کشمکش کے ہی ہیں اور یہ کہ یہاں حکومت کسی بھی پارٹی کی کیوں نہ ہو‘ مزدوروں کے بارے میں ان کی رائے اور رویہ کس قدر سنجیدہ ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کی تمام سیاسی پارٹیاں سرمائے اور محنت کی اس تاریخی اور فیصلہ کن کشمکش میں یکجا ہیں۔ اس مسئلہ پر ان کی پالیسی ہر دور میں ایک ہی رہی ہے۔ اسلام آباد میں او جی ڈی سی ایل کے مزدوروں یا دوسرے صنعتی اداروں کے محنت کشوں نے جب احتجاجی مظاہرے کیے تو ان کی طرف سرکاری رویہ انتہائی غضب ناک تھا‘ جبکہ نان ایشوز اور غیر طبقاتی مسائل کے دھرنوں اور مذہبی یا غیر طبقاتی سیاست کے احتجاجوں پر ان کا رویہ مصالحت آمیز ہوتا ہے۔ ان کو کتنی چھوٹ دی جاتی ہے اور ان کے سامنے ادارے کیسے بے بس نظر آتے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ اس نظام کی پروردہ ''اپوزیشن پارٹیوں‘‘ اور حکمران نظام کے حتمی ان داتائوں کے سامنے ہمیشہ مجبور ہی نظر آئے ہیں۔
کراچی میں احتجاجی مظاہرین پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کی خبریں تو حکمرانوں تک پہنچی تھیں لیکن ان کا رد عمل انتہائی ثانوی نوعیت کا تھا۔ انہوں نے محض نوٹس ہی لیا اور ہر بالا دست طبقے کے حکمران کی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت برائے شپنگ و پورٹس کو ہدایت کی کہ اس معاملے کو سلجھائیں۔ اب تنخواہوں اور مزدوروں کی محنت کی اجرت کا معاملہ اس استحصالی نظام میں کب سلجھا ہے؟ اس کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔ حکمران شاید یہ نہیں جانتے کہ اس منافعے کے نظام کا دارومدار ہی کٹوتیوں پر ہے اور موجودہ نیم رجعتیت کے عہد میں کٹوتی کا سب سے پہلا شکار محنت کش کی اجرت ہی ہوا کرتی ہے۔ ان مزدوروں کو ملاقات کا شرف نہ بخشا گیا جبکہ ان کے مطالبات سننے کا موقع بھی انہیں فراہم کرنا مناسب نہ سمجھا گیا۔ حکمرانوں کا بنیادی مقصد محنت کش عوام کی آہ و زاری پر توجہ دینا نہیں تھا۔ ان کے تو نظریات، سیاست اور اقتدار کی بنیاد ہی اس طبقے کا استحصال ہے۔ دورۂ کراچی کا بنیادی مقصد یہاں کے چیمبر آف کامرس‘ فیکٹریوں اور ملوں کے مالکان‘ سٹاک ایکسچینج کے جید کھلاڑیوں سے ملاقات کرنا اور اپنی حکومت اور معیشت چلانے کے لیے ان کی حمایت کا حصول تھا۔ اس لیے اہم ترین ملاقات کراچی کے مزدوروں سے نہیں بلکہ وہاں کے دھنوانوں اور کاروباری آقائوں سے ہی ہونا ٹھہری۔ یہی اس حکومت کی اصل نظریاتی اساس ہے‘ اور اسی کو ثابت کرنے کے لئے حکمران ہر قسم کے جتن کر رہے ہیں۔ یہ کبھی امریکی سرمایہ کاروں کی ''دلچسپی‘‘ کی خبر پیش کرتے ہیں تو کبھی بیرون ملک پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی خواہش کا سندیسہ دیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آ کر اگر کسی طبقے کے نام لینے تک سے بھی اجتناب کیا ہے تو وہ ''مزدور طبقہ‘‘ ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کے سپنے کی مارکیٹنگ تو کی گئی‘ لیکن مزدوروں کی کوئی کم از کم اجرت بھی ہوا کرتی ہے‘ اس کا کسی منشور‘ پروگرام یا پالیسی بیان میں کوئی ذکر تک نہیں ہوا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے حال ہی میں 16,200 روپے ماہانہ کم از کم اجرت کا اعلان کیا ہے‘ لیکن یہ غور کرنے کا کشٹ اس کی جانب سے بھی نہیں اٹھایا کہ کیا کوئی چھوٹا سا خاندان بھی اتنے پیسوں میں گزارا کر سکتا ہے؟ تاہم اس اعلان سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ بلاول کے کم از کم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر کرنے کے اعلان کی طرف صوبائی حکومت سنجیدگی کتنی ہے؟ اور حکمرانوں کو مزدور طبقے کی محنت و اجرت کا کس قدر احساس ہے؟ لیکن نودولتیوں کی پارٹی میں تو کم از کم اجرت کا اعلان کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ نہ کوئی ان کی عوامی روایت ہے‘ اور نہ کوئی ترقی پسند سوچ ان کے پاس سے بھی گزری ہے۔ ویسے نومولود نودولتیوں کی پارٹی کے اقتدار میں ایک کروڑ نوکریوں کا نعرہ دیا گیا‘ لیکن اس پر عمل درآمد تاحال تو الٹ ہی ہوا ہے۔ صرف کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے آپریشن اور تعمیراتی صنعت کو کنٹرول کرنے کے عمل کے دوران تقریباً تین لاکھ محنت کش بیروزگار ہو چکے ہیں۔ ابھی تک تو محض بیروزگاری ہی ہر طرف بڑھ رہی ہے۔ لیکن سرکار کا جواب تو یہی ہے کہ ''کوئی بات نہیں‘ سب ٹھیک ہو جائے گا‘ جہاں ایک کروڑ نوکریاں دینی ہیں‘ وہاں ایک کروڑ دس لاکھ کر دیں گے‘‘ کون پوچھنے والا ہے؟ سب چلتا ہے! آج اس سیاست پر جن نظریات اور جس سوچ کا غلبہ ہے اس کے تحت یہاں اگر معاشی ترقی کے لئے کچھ مقدم ہے تو وہ نجکاری‘ بیرونی سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کے لئے موافق حالات پیدا کرنے کی پالیسیاں ہی ہیں۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہاں ریگن اور تھیچر کے جو پیروکار آمر‘ اور جمہوری رجعتی اور لبر ل سیاست دانوں پر مشتمل حکمران آتے رہے ہیں‘ سبھی نے نجکاری اور سرمایہ کاری کے لئے حالات موافق کرتے کرتے مزدوروں کے حالات بد سے بد تر کر دیے ۔ ان موافق اقدامات میں مزدوروں کی یونین سازی اور بنیادی معاشی و سماجی حقوق کے قتل کا ایک متواتر سلسلہ پچھلے 40 سال سے جاری ہے۔ سبھی یہی کام کرتے ہیں‘ بس طریقہ ہائے واردات مختلف ہیں۔ اب پی ٹی آئی نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طریقۂ واردات کی ناکامی کے بعد ملائیشیا اور انڈونیشیا کے جارحانہ سرمایہ داری نظام کی طرز پر نجکاری کا پروگرام پیش کیا ہے۔ لیکن تا حال تمام سرمایہ دار حکمران نجکاری کو مکمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں جہاں نظام کا اپنا موضوعی بحران کارفرما رہا ہے وہاں ان اداروں کے محنت کشوں کی انتہائی مشکل حالات میں بھی جدوجہد ہی تھی‘ جس کی وجہ سے حکمرانوں کی مزدور دشمن پالیسی کامیاب نہیں ہو سکی۔
میری اطلاعات کے مطابق موجودہ حکومت نے ''سرمایہ پاکستان کمپنی‘‘ (SPC) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ حکومت پہلے اپنے ملکیتی 195 سرکاری اداروں کو اس ''خود مختار‘‘ کمپنی کے حوالے کرے گی۔ پھر حکومتی اثرورسوخ کے ''بغیر‘‘ یہ کمپنی ان کی مرمت کر کے ان کی نجکاری کا عمل پورا کرے گی۔ لیکن کراچی کے گودی مزدوروں کا احتجاج، پنجاب میں کسانوں کی تحریک اور دیگر محنت کش طبقے کی ابھری ہوئی تحریکیں، جو ابھی تک مشترکہ اور متحد شکل اختیار نہیں کر سکیں، یہ اشارے دے رہی ہیں کہ اس نظام زر کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت کے شعلے بھڑکنا شروع ہو گئے ہیں۔ پچھلے ایک دو برسوں میں جتنی غربت‘ ذلت محرومی اور بربادی تیزی سے پھیلی ہے‘ وہ عوام کے صبر کے پیمانے کو لبریز کر رہی ہے۔ پچھلے 40 برسوں سے نسل پرستی‘ مذہبی فرقہ واریت اور تنگ نظر قوم پرستی سے کراچی کے مزدوروں کی یکجہتی پارہ پارہ کی جا رہی ہے۔ لیکن کراچی کو چھوٹا پاکستان اور پاکستانی معیشت کا گڑھ سرمایہ کاروں نے نہیں‘ بلکہ مزدوروں نے بنایا تھا۔ پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن‘ پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے اور واپڈا جیسے سرکاری اداروں کے پھیلائو سے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنی اور مضبوط ہوئی تھی۔ نجکاری سے یہ کھوکھلی ہو جائے گی۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے علاوہ نجکاری صرف سرمایہ کاروں کو ہی منافع دیتی ہے۔ لیکن اب کراچی کے گودی مزدوروں نے ایک نیا آغاز کیا ہے۔ اس کے ساتھ حالیہ فرانسیسی ریاست جیسا سلوک کیا گیا ہے۔ لیکن حکمرانوں کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ 1968ء میں بھی پاکستان کے طلبہ اور مزدور فرانس کے انقلاب (مئی 1968) سے بھی کہیں زیادہ آگے بڑھ گئے تھے۔