"DLK" (space) message & send to 7575

حاکمیت کے متضاد طریقے

تنگ نظر قوم پرستی ہو یا فرقہ واریت‘ ان کو تقویت پہنچانے کے لئے دوسرے قومی اور مذہبی گروہوں سے نفرت درکار ہوتی ہے۔ ایسے رجحانات کے سرپرستوں اور شعلہ بیان مقررین کی مقبولیت کا دار و مدار اس نفرت کو ابھارنے اور لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کروانے کی فنکاری پر ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمی مظہر ہے ۔ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے بہیمانہ قتل عام سے لے کر بہاولپور میں ایک روشن خیال پروفیسر کے ایک جنونی کے ہاتھوں قتل تک‘ یہ افسوس ناک واقعات ایک ہی بیماری کی مختلف علامات کو ظاہر کرتے ہیں۔ آج مشرق سے مغرب تک مختلف سرمایہ دارانہ سماج جس بحران کا شکار ہیں اس میں حکمران طبقات کے لئے روایتی طرزِ حکمرانی کو جاری رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مغرب میں بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریسی اور دائیں بازو کی روایتی پارٹیاں زوال پذیری کا شکار ہیں۔ کارل مارکس نے بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ جب کسی نظام کا بحران ایک مخصوص نہج سے تجاوز کر جاتا ہے تو حکمرانی کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ نظام کی تنزلی ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جس سے اِس کے بڑے داعی اور پالیسی ساز بھی انکار نہیں کر سکتے۔ ماضی میں‘ بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی یونین، آزاد تجارت کی تنظیموں اور ترقی یافتہ ممالک کے بلاکوں کی تشکیل سے یہ باور کروایا گیا کہ سرمایہ داری دنیا کو جوڑ رہی ہے، ہموار ترقی دے رہی ہے اور جنگوں کا باعث بننے والی قومی حدود کو ختم کر رہی ہے‘ حالانکہ عالمی جنگوں میں ایسے ہی معاہدوں کے تحت قومی اور نسلی منافرتیں ابھاری گئی تھیں۔ یورپ پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ میں دونوں عالمی جنگوں کے دوران جرمنی سب سے کلیدی فریق تھا۔ لیکن دونوں جنگوں میں اسے شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا؛ تاہم جو کچھ جرمن سرمایہ دار جنگوں کے ذریعے حاصل نہ کر سکے انہوں نے یورپی یونین کے ذریعے حاصل کیا۔ آج یونان، اٹلی اور سپین جیسے یورپ کے پسماندہ ممالک جرمنی (اور کسی حد تک فرانس) کی کالونی بن کے رہ گئے ہیں۔ لیکن مذکورہ بالا تجارتی بلاک اور مشترکہ منڈیاں بھی ایک ترقی کرتے ہوئے نظام کی پیداوار تھیں۔ آج جب یہ نظام زوال پذیر ہے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے (بریگزٹ) سے لے کر جرمنی سمیت دوسرے یورپی ملکوں میں دوبارہ قومی اور نسل پرستانہ رجحانات کا ابھار ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ داری کے تحت کوئی دیرپا جغرافیائی اتحاد یا انضمام ممکن نہیں ہے۔ یہ وقتی باتیں ہیں اور مفاد پورا ہو جانے پر ترجیحات بدل بھی سکتی ہیں۔ نسل پرستی کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا اور یہود دشمنی (AntiSemitism) میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران طبقات کے وہ حصے جو منافع خوری کے عمل میں حصہ داری سے محروم ہو رہے تھے سفید نسل پرستی کے ایسے رجعتی رجحانات کا استعمال کر رہے ہیں جنہیں بنیاد پرستی اور مذہبی دہشت گردی مزید تقویت ہی دیتی ہے۔ در حقیقت متضاد نسلی یا مذہبی تعصبات ایک ہی سکے کے دو رُخ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم اور بھارت کے قیام میں جہاں الگ منڈیوں پر اجارہ داری کا عنصر کار فرما تھا (ایک طرف گھنشان داس برلا اور دوسری طرف دائود اور حبیب خاندانوں جیسے سپانسر) وہاں انگریز بھی اپنے سامراجی تسلط کو جاری رکھنے کے لئے متحدہ ہندوستان چھوڑ کے نہیں جانا چاہتے تھے۔ کانگریس کا سیکولر ازم روزِ اول سے ہی جعلی اور اپاہج تھا اور آج بھی ہے۔ 1947ء کے بٹوارے کے ہندوستانی سماج پر مرتب ہونے والے اثرات‘ بی جے پی جیسے رجحانات کی شکل میں کھل کے بے نقاب ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں جہاں حکمرانوں کے زیادہ قدامت پرست حصوں کی جانب سے ملک کو ایک مخصوص سوچ والی ریاست بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی‘ وہاں جناح صاحب کی 11 اگست کی تقریر سے لے کر ایوب خان کے آئین تک ملک کو جمہوریہ قرار دینے کی سیکولر کوششیں بھی ناکام ہوتی رہی ہیں۔ کچھ معاملات آج تک مبہم ہیں اور مسلسل تکرار اور تنازعات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران تحریک انصاف جیسے لبرل ازم اور قدامت پرستی کے عجیب و غریب ملغوبے بھی نظر آتے رہے۔ لیکن پاکستان نے اگر سرمایہ دارانہ دنیا میں رہنا ہے اور یہاں کے روزِ اول سے نا اہل حکمرانوں نے اپنی حاکمیت کو قائم رکھنا ہے تو پھر انہیں اِس نظام کے تقاضے بھی ماننا پڑیں گے‘ جو سامراجی طاقتوں کے احکامات کی شکل میں نازل ہوتے ہیں۔ ایسی شرائط ماضی میں لگائی جاتی رہی ہیں اور ان کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور ایسے ہی احکامات آج بھی دئیے جا رہے ہیں اور حکمرانوںکی جانب سے ان پر عمل درآمد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوششیں ایسے ہی سامراجی غلبے کو تسلیم کرنے کے مترادف سمجھی جاتی رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہی حکمران اپنی حاکمیت کے دوام کے لئے جن مذہبی یا نسلی تعصبات کو ابھارتے ہیں‘ انہیں اپنے قابو اور مکمل کنٹرول میں رکھنا بھی ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ایسی رجعتی قوتیں ان کے بحران زدہ نظام کی مستقل ضرورت اور پیداوار بھی بن جاتی ہیں۔ پھر یہ 'ایک ٹکٹ میں دو شو‘ والی واردات کرتے ہیں اور متضاد رجحانات کے درمیان ایک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کہیں سطحی اقدامات کیے جاتے ہیں اور کہیں جامع کارروائیوں کے ذریعے واقعی کانٹ چھانٹ بھی کی جاتی ہے۔ اس کے کچھ مثبت اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘ اور صورتحال میں کچھ بہتری کے آثار بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن بحران اتنا بڑھ گیا ہے اور اتنا شدت اختیار کر گیا ہے کہ اب ایسے اقدامات کرنا کچھ آسان بھی نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن سامراجیوں کے دبائو کے تحت یہ سب کیا جا رہا ہوتا ہے‘ وہی دراصل ان فسادوں کی جڑ بھی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے لئے بنیاد پرستی کو پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ مختلف ممالک کے بنیاد پرستوں کا بھی سامراجیوں سے کوئی نظریاتی اختلاف تو ہوتا نہیں ہے‘ اس لئے دونوں ایک دوسرے کے لئے کام کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ دونوں سرمایہ داری کے ہی پیروکار ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تو حکمران بھی‘ چاہے وہ کسی بھی ملک کے ہوں‘ اسی نظام کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ خونریزیاں، دہشت گردی اور خلفشار‘ سارے عوامل اسی سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی غمازی ہی تو کر رہے ہیں۔
معروضی اور موضوعی دونوں طرح کے عوامل کارفرما ہیں۔ صورتحال خاصی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ نظام سماج کو آگے بڑھانے سے عاری ہے اور کوئی متبادل راستہ فراہم کرنے والی تحریک یا قیادت کا بھی فقدان ہے۔ ایسے میں ماضی کی رجعتی سوچیں اور تعصبات حاوی ہو جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن رجعت کی یہ چھاپ بھی سطحی ہوتی ہے جس کا سماجی نفسیات پر غلبہ عارضی ہوتا ہے‘ دیرپا اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے کہ حکمران طبقات جب مسائل کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو بغاوت کے خوف سے لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں اور اس تقسیم کے لئے خود بھی تعصبات کو ابھارتے ہیں۔ اس لئے جب تک یہ گلا سڑا نظام مسلط رہے گا اس کی بربادیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ یہ بالکل واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ اس نظام کو ختم یا تبدیل کیے بغیر یہاں کے عوام کی زندگی کبھی سہل نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس نظام کا گورکن صرف محنت کش طبقہ ہی ہو سکتا ہے‘ جس کی محنت سے یہ معاشرہ چل رہا ہے۔ یہ محنت کش آگے بڑھیں گے تو ہی کسی بڑی تبدیلی کے آثار پیدا ہو سکیں گے۔ محنت کشوں کا یہ فریضہ نسل انسان کی بقا کی شرط ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں