"DLK" (space) message & send to 7575

ایران امریکہ تنازع میں نیا تناؤ …(1)

پچھلے چند ہفتوں میں ایک مرتبہ پھر ایران کی طرف امریکی سامراج کے عزائم جارحانہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ امریکہ کا طیارہ بردار بحری بیڑہ ابراہام لنکن بحیرہ روم سے خلیج فارس کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ ہفتہ 18 مئی کو امریکی سفارت کاروں نے خطے کی فضائی کمپنیوں کو انتباہ کیا کہ وہ اگر خلیج فارس پر کمرشل پروازیں کریں گی تو ان کے مسافر جہازوں کو ''عدم شناخت‘‘ کا خطرہ لاحق ہو گا۔
امریکہ نے یہ چڑھائی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دست برداری کے ایک سال بعد کی ہے۔ اس سلسلے میں خطے کے بڑے امریکی حلیفوں کی ایران کے ساتھ دشمنی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن 17 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکہ ایران کے ساتھ براہِ راست جنگ نہیں کرنا چاہتا؛ تاہم بعد میں اُنہوں نے یہ بیان بھی دیا کہ ایران لڑائی کرے گا تو یہ اُس کے ''با ضابطہ خاتمے کا آغاز‘‘ ہو جائے گا۔
قول اور فعل کا یہ تضاد پچھلے کچھ عرصے سے امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ ویسے تو امریکی حکمران طبقات اور ان کے پالیسی سا ز کبھی بھی اعتدال پسندی کے قائل نہیں رہے اور جدید امریکہ کی 239 سالہ تاریخ میں صرف 17 ایسے سال ہیں جب امریکہ کسی عسکری کارروائی میں سرگرم نہیں تھا۔
خطے کی موجودہ صورتحال پر ارون دتی رائے نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں لکھا ہے، ''افغانستان پر قبضے اور اس کو بم باری سے پتھر کے دور میں پہنچانے کے18 سال بعد امریکی حکومت انہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جن کے خاتمے کے لئے اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ اس دوران اس نے عراق، لیبیا اور شام کو برباد کر دیا۔ ہزاروں لاکھوں زندگیاں ان معاشی پابندیوں اور جنگوں میں لقمہ اجل بن گئیں۔ پورا خطہ انتشار میںغرق کر دیا گیا۔ قدیم شہر دھماکوں سے مٹی کی دھول بنا دیئے گئے۔ اس بربادی اور ملبے میں ایک حیوانیت‘ جس کو داعش کہا جاتا ہے، کو پھیلنے دیا گیا۔ یہ ساری دنیا میں پھیل کر بلا تفریق عام انسانوں (جن کا امریکی جنگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا) کی قتل و غارت گری کر رہی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں جو جنگیں امریکہ نے چھیڑی ہیں اور جن معاہدوں کو اس نے دھتکارا ہے اس کے پیش نظر وہ خود ایک بدمعاش ریاست کی اپنی ہی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ اب وہ انہی پرانے دھمکی آمیز اور جھوٹے ہتھکنڈوں کی واردات کرتے ہوئے ایران کو بم باری سے تاراج کرنے کے درپے ہے‘‘۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ کی خصوصاً خارجہ پالیسی میں جس شدت سے اتار چڑھائو آ رہے ہیں اور بڑھک بازی نے جو کہرام مچا رکھا ہے اس سے امریکی ریاست کے سنجیدہ ماہرین بھی لگتا ہے کہ خاصی گھبراہٹ کا شکار ہیں۔
ایران کے ساتھ امریکہ کا حالیہ تنازع چالیس سال پہلے شروع ہوا تھا‘ جب ایران میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریک نے امریکی کٹھ پتلی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ نیچے اِس انقلابی تحریک کی قیادت ایران کی کمیونسٹ پارٹی (تودہ پارٹی) کے پاس تھی۔ شاہ کی سفاک حکومت اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی 'ساواک‘ کا ظلم و تشدد کمیونسٹوں نے ہی دہائیوں برداشت کیا تھا۔ لیکن تودہ پارٹی کی قیادت کی انتہائی خطار کارانہ پالیسیوں کی وجہ سے انہوں نے اس تحریک کی قیادت اشرافیہ کے سپرد کر دی۔ پھر یہ حکومت، جو سرمایہ دارانہ نظام کی ہی نمائندگی کرتی ہے، چالیس سال تک امریکہ کے ساتھ اپنی دشمنی کو داخلی جبر کے لئے استعمال کرتی چلی آئی ہے۔
لیکن ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف، جو ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں، اپنے جاپان اور چین کے دوروں کے بعد یہ بیان دے رہے ہیں کہ ''اسلامی جمہوریہ ایران جنگ نہیں چاہتا اور خطے میں کوئی ایسی دیوانگی نہیں کر سکتا کہ امریکہ اس سے تصادم کر سکے‘‘۔ دونوں اطراف سے متضاد بیانات اور بیک وقت جنگ و امن کے اشارے اس تنازع کی پیچیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
امریکی سامراج کو اپنے زوال کے عہد میں ماضی کے جاہ و جلال، غلبے اور عالمی ''پولیس مین‘‘ کے کردار کو برقرار رکھنے کے لئے جو عسکری اور معاشی طاقت درکار ہے وہ اس کے پاس نہیں ہے۔ لیکن وہ افغانستان سے لے کر عراق تک بار بار کے اعلانات کے باوجود بھی اپنے عزائم سے دست بردار نہیں ہو پا رہا۔
چین کے ساتھ تجارتی خسارے نے امریکی معیشت پر شدید منفی اثرات ڈالے ہیں اور چین امریکہ تجارتی جنگ کے پہلے وار دنوں طرف سے جاری ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے ہونے والی 200 ارب ڈالر کی درآمدات پر بھاری ٹیکس لگا دیئے ہیں۔ اس کے جواب میں چین نے 62 ارب ڈالر کی امریکی درآمدات پر انتقامی ٹیکسوں کا اعلان کر دیا ہے۔
لیکن عسکری میدان میں امریکی سامراج کی حالت زیادہ خراب ہے۔ ویت نام کے بعد شام، عراق اور افغانستان میں شکستوں سے امریکی عسکری طاقت قطعاً کسی نئی جارحیت کے لئے تیار نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی عجیب مظہر ہے کہ اس نظام کے تحت تیل سے بھرے بد نصیب مشرقِ وسطیٰ میں امریکی غلبے کی کمزوری مزید انتشار ہی لائے گی۔
حکمران طبقات کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اس خطے میں امریکہ کا کلیدی تضاد ایران کے ساتھ ہے‘ لیکن جنگوں کی غارت گری سے عوام ہی برباد ہوتے ہیں۔ یہ حکمران طبقات کے مفادات کے ٹکرائو اور تصادم ہیں۔ نہ تو یہ عوام کے مفاد میں ہیں نہ ہی ان سے عوام کا تعلق بنتا ہے۔
ایرانی حکمرانوں نے ایران عراق جنگ کے بعد اپنی عسکری طاقت میں بہت بڑا اضافہ کیا ہے۔ وہ بڑی بحری اور فضائی افواج سے لیس ہیں۔ اسی پالیسی کا تسلسل ایران کا جوہری پروگرام بھی ہے۔ جس کو روکنے کیلئے سابقہ امریکی صدر بارک اوبامہ اور دوسری عالمی طاقتوں نے ایران سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ اپنا جوہری پروگرام روکے‘ بدلے میں اس پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ شدید معاشی بحران میں گھرے ایران کو بھی اس میں فائدہ نظر آیا۔ ایران کا جوہری پروگرام وقتی طور پر تھم تو گیا لیکن اس کی ایٹمی بم بنانے کی صلاحیت مبینہ طور پر ختم نہیں ہوئی۔ محتاط اندازوں کے مطابق ایران اگر چاہے تو ایک سال میں ایٹم بم بنا سکتا ہے۔
2015ء میں مذکورہ بالا معاہدے کے بعد معاشی پابندیاں اٹھنے سے ایران میں جشن تو بہت منایا گیا لیکن معاشی بحالی سے ایران کے عوام کی زندگیوں میں خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے تین سال کے دوران ایران کے عام لوگوں میں اس معاہدے کی حمایت 76 فیصد سے گر کر 49 فیصد رہ گئی ہے۔
لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے جو نئی اور زیادہ جارحانہ پابندیاں لگائی ہیں ان میں اُس نے ہر اُس ملک سے بھی قطع تعلق کی دھمکی دی ہے جو ایران سے تجارت کرے گا۔ ان میں ہندوستان اور چین سر فہرست ہیں۔ دوسری طرف ایران کے صدر روحانی، جو 'معتدل‘ اور لبرل اصلاحات کے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے ملک کی اشرافیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور ساٹھ دن میں جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے شرط یہ رکھی ہے کہ یورپ، چین اور روس امریکی دھمکیوں کو رد کرتے ہوئے ایران سے تجارت کو تیز کریں‘ وگرنہ جوہری پروگرام دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔
یورپی ممالک، چین اور روس کے اپنے مفادات ہیں۔ امریکی منڈی سے ان کے زیادہ منافعے وابستہ ہیں۔ اس لئے ایران کی خاطر وہ امریکہ سے تجارت کو ترک کرنے سے اجتناب ہی کریں گے۔
ایران کی معاشی صورتحال بہت خراب ہے۔ افراطِ زر انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ 2016ء میں ایک ڈالر کے 35000 ایرانی ریال آتے تھے۔ اب بلیک مارکیٹ میں ایک ڈالر کے 150000 ایرانی ریال حاصل ہوتے ہیں۔ تیل کی پیداوار آدھی ہو چکی ہے۔ غربت اور مہنگائی سے ایران کے نچلی پرتوں سے تعلق رکھنے والے اکثریتی لوگ کراہ رہے ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں