عقائد کا جبر

حال ہی میں سینیٹ نے قبروںکی بے حرمتی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت دینے کے لیے ایک بل کی منظوری دی ہے۔ جس دوران اس ملک میں رہنے والے اچھے دوست، واقف کار، رشتہ دار اور دیگر شہری تیزی سے فنا کے گھاٹ اتر رہے ہوں تویہ خبر یقینا ہر کسی کے لیے طمانیت کا باعث بنے گی کہ ان کے مرحومین کم از کم قبروں میں تو محفوظ رہیں گے، کیا ہوا اگر حکومت ان کو زندگی میں تحفظ دینے میں ناکام رہی۔ اس کا مطلب ہے کہ راشد رحمان، ڈاکٹر فیصل منظور اور بہت سے دیگر افراد کو، جو سفاک ہاتھوںسے چلائی گئی اندھی گولیوں اور تشدد کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، قبروں میں تو تحفظ حاصل ہوجائے گا۔۔۔ اسے بھی غنیمت سمجھا جائے۔ 
جب ریاست شہریوںکو جان و مال کا تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، اس قانون سازی کو بہت بڑی پیش رفت قرار دیا جانا چاہیے۔ آج کل افراد کی حیثیت اعداد وشمارسے زیادہ کچھ نہیں۔ ہلاک ہونے والے افراد کی گنتی میں اضافہ زندہ بچ جانے والے افراد کی زبانوں پر قفل ڈال دیتا ہے کہ مبادا زبان کی جنبش اُنہیں بھی اسی انجام سے دوچارکردے۔ گزشتہ سال ہونے والے ایک قتل کی حالیہ دنوں سامنے آنے والی تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس ڈاکٹر کو اس لیے ہلاک کیا گیا کہ وہ لبرل نظریات رکھتا تھا۔ اسی طرح راشد رحمان کو بھی اسی لیے گولی ماری گئی کہ اس پر الزام تھا کہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب کیا جس کی سزا ایک اسلامی معاشرے میں موت کے سوا کچھ نہیں۔ تاہم انصاف کا تقاضا ہے کہ جب تک کسی پر جرم ثابت نہیںہوتا، اُسے بے گناہ سمجھا جائے۔ 
میری طرح بہت سے دیگر افرادکو،جوانصاف کے حوالے سے وسیع تر نقطۂ نظر رکھتے ہیں، ان قوانین کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے کیونکہ ہم عقائد کے جبر میں پسی ہوئی قوم ہیں۔ اب جبکہ پاکستان ایک صف ِ اول کا ملک نہیں اور عالمی طاقتیں خطے سے جارہی ہیں تو پاکستان کی صورت ِ حال مزید گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ایسے معاشرے اور سیاسی نظام میں،جو کسی قدآور شخصیت کے گرد گھومتے ہیں، کسی غیر جانبدار ثالث کا ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی نظام کی غیر موجودگی میں ایسے معاشرے کسی غیر جانبدار ثالث کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ انصاف پسند نہ ہو لیکن اس کا قدرے یا مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا مختلف سٹیک ہولڈرز کے لیے قابل ِ قبول ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب، مثال کے طور پر، امریکہ ایسے ثالث کا کردار ادا کیا کرتا تھا اور سول سوسائٹی مختلف معاملات میں اس کی طرف دیکھتی تھی۔ مداخلت کا مطلب ہر مرتبہ فوجیں لے کر چڑھ دوڑنا نہیںہوتا، بلکہ اخلاقی اور سیاسی دبائو بھی مداخلت کی ہی ایک شکل ہوتی ہے۔ تاہم آج کی دنیا میں ایسا کوئی ثالث دکھائی نہیںدیتا۔ 
اس کا مطلب ہے کہ مداخلت اور ثالث کی غیر موجودگی میں ریاست اور اس کے پارٹنرزعوام کو خائف رکھ سکتے ہیں۔ یہ بات کہنا اچھا نہیں لگ رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلسل خوف کا عنصر کسی معاشرے کے پوٹینشیل کو کم کرتے ہوئے اسے مسائل سے نبردآزماہونے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ کسی بھی شخص کا قتل دیگر افراد کو خوفزدہ کرتے ہوئے ان کی مثبت فعالیت کو کم کردیتا ہے۔ لوگ اپنے ارد گرد انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر بہنے والے خون کو دیکھتے ہوئے اس کے خلا ف زبان کھولنے یا اس کے خلاف احتجاج کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ وہ گھبرائی ہوئی نظروںسے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں لیکن کچھ کہنے کا حوصلہ نہیںپاتے۔ ایسے معاملات زیر ِ بحث لانے کے امکانات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ سچائی کے لیے ثابت قدمی سے کھڑا ہونا دلیری نہیں‘ حماقت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس کا گلا کاٹ دے۔ ان حالات میں جو افراد وسائل رکھتے ہیں، ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ملک کے باصلاحیت نوجوان بھی باہر جارہے ہیں لیکن کسی کو اس برین ڈرین کی کوئی پروا نہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام تعلیم یافتہ افراد ملک چھوڑ کر جارہے ہیں لیکن وہ لوگ جو حساس طبیعت اور فہم و فراست رکھتے ہیں، ان کی تعداد یقینا کم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ڈگری ہولڈرز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ان میں سوچ کا فقدان ہے۔ کیا یہ بات ہمارے ارباب ِ اختیار کے لیے باعث ِ تشویش ہے ؟
گزشتہ دنوں جب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا کہ پاکستان میںپولیو کے کیسز کی تعداد حد سے تجاوز کرچکی ہے اور اس ضمن میں اسے کچھ پابندیوںکا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ہمارے دفتر ِ خارجہ کی ترجمان نے فوراً ہی پریشان پاکستانیوں کے خدشات کو کم کرتے ہوئے بتایا کہ یہ صرف ایک ''تجویز ‘‘ ہے، اس پر عمل نہیںکیا جائے گا۔ شاید ہمیں بھی مس اسلم کی طرح پریشان نہ ہونے کا کورس کر لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمیں دوسروںپر الزام عائد کرنے اور بات بات پر سازش کی بو سونگھنے کی بھی مہارت حاصل ہے۔ ہمارے ہاںابھی تک یہ بات کی جاتی ہے کہ ملک میں ہونے والا ہر تشدد دراصل غیر ملکی سازش ہے اور یہ کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی جان نہیں لے سکتا۔ افسوس، تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے جس تلخ حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے، وہ ہمارے اس رٹے رٹائے جملے کے برعکس ہے۔ ہم اور ہمارے آبائو و اجداد کا تعلق مختلف تہذیبوںسے تھا۔ غالب آنے والے طبقوںنے ہم سے خدمت لینے کے لیے تشدد کی راہ اپنائی اور پھرہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ تاریخ کے اس چکر میں ہم اپنی غلطیوںکو بھول کر دوسروںکی سازشیں تلاش کرنا سیکھ گئے۔ 
ہماری ریاست کے بہت سے حلقے یقین رکھتے ہیںکہ پولیو کی وجہ سے سفر ی پابندیاں دراصل کسی غیر ملکی سازش کا شاخسانہ ہے۔ اسی طرح غیر ملکی طاقت کے ایجنٹ شکیل آفریدی کے سر الزام تھوپنا بھی بہت آسان ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے ہم بعض مذہبی عناصر کو فراموش کر گئے جو بن لادن پر حملے سے بہت پہلے پولیو کے قطروںکے خلاف تبلیغ کیا کرتے تھے۔ یقینا عوام کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروںکی یادداشت بھی بہت کمزور ہے۔ اور پھر ہمارے لیے ساز ش اور سازش کی تھیوریاںہی کافی ہیں، ہمیں تاریخ سے کیا سروکار؟
ایک لمحہ توقف کرتے ہوتے ذرا سوچیں کہ ہم مذہب کے نام پر جبر کرتے ہوئے کس طرح نئی تاریخ لکھنے کی کوشش میں ہیں۔ ساٹھ سے زائد وکلا کے خلاف توہین کا کیس دائر کیا گیا کیونکہ وہ ایک ایسے پولیس مین کے خلاف احتجاج کررہے تھے جس کا نام خلیفہ ٔ دوم کے نام پر تھا۔ یقینا وہ پولیس والے خلفائے راشدین میں سے کسی کی توہین کا تصور بھی نہیںکرسکتے تھے اور اس دوران ہم یہ بھول گئے کہ ہوسکتا ہے کہ وکلا میںسے بھی کسی کا نام کسی اسلامی شخصیت کے نام پر ہوسکتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل قصور وار ان کے والدین ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت بہت سے احتجاج کرنے والے خود کو، کوس رہے ہوںگے کہ وہ اس کا حصہ کیوں بنے۔ دراصل توہین کے جرائم میں ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو الزام لگا کر ثابت کرنے کی زحمت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ الزام لگتے ہی لوگ مشتعل ہوکر ملزم کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بناڈالتے ہیں۔ بعض کیسز میں اسے موقع پر ہی ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ہم بدعنوان اور نااہل تو تھے ہی ، اب ترقی کا ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے عقائد کے حوالے سے جرائم کی سزا دینے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ اب ہم پہلے اپنا عقیدہ بیان کریں گے اور پھرجن کا عقیدہ ایسا نہیںہوگا، ان پر حملہ کردیںگے۔ ہمارے ہاں ایمان کی پختگی سے یہی مراد ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں