جنوبی پنجاب میں پی پی پی کا احیاء

بلاول بھٹو کے ملتان کے دورے کے دوران بہت سے لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کے مستقبل کے بارے میں بہت پرامید بلکہ پُرجوش تھے۔ عمررسیدہ خواتین کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے کا اس والہانہ طریقے سے استقبال یقینا بہت متاثر کن تھا، تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ آیا پارٹی میں کم از کم جنوبی پنجاب، جہاں یہ 2013 ء کے انتخابات سے قبل بہت کشش رکھتی تھی، کی حدتک زندگی کی لہر دوڑ جائے گی؟
پرانی نسل، خاص طور پر وہاں موجود خواتین کو بلاول کی والدہ مرحومہ کی یادآئی ہوگی جو عوام سے رابطے کی زبردست صلاحیت رکھتی تھیں۔ ان کا رابطہ صرف سیاسی نوعیت کا ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں اپنائیت اور الفت کے انسانی جذبات غالب ہوتے تھے۔ وہاں موجود افراد میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جنہیں ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کی طرف سے امداد ملتی تھی۔ کچھ سیلاب سے متاثرہ افراد امداد ملنے کی توقع میں بھی آئے تھے۔ اور پھر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ اس ملاقات کا انعقاد سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے حلقے میں ہو رہا تھا اور گیلانی صاحب کے ذاتی اور پارٹی کے حامیوں کی ایک خاطر خواہ تعداد یہاں موجود ہے اور یہ بات تو ان کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہوںنے اپنی وزارت ِ عظمیٰ کے دور میں ملتان میں فقید المثال ترقیاتی کام کرائے تھے۔ 
تاہم ملتان میں ایک دن گزار کر یہاں درپیش چیلنجز کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی برسوں سے پی پی پی اور یوسف رضا گیلانی کی حمایت کا لیول شہری علاقوںسے کم ہوکر ملتان کے دیہاتی علاقوں کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح جنوبی پنجاب کے شہری علاقے بھی نظریات اور پارٹی پالیٹکس کو ترجیح دیتے ہیں لیکن دیہاتی علاقوںکی سیاست ابھی تک طاقتور دھڑوں کے گرد گھومتی ہے۔ چونکہ جنوبی پنجاب کا ایک بڑا حصہ ابھی تک دیہاتی علاقوں پر مشتمل ہے، پیپلزپارٹی کو امید ہے کہ وہ ان علاقوں میں طاقتور حلقوں کا جال بچھا کر اپنی کھوئی ہوئی حیثیت واپس لے سکتی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ علاقائی سطح پر طاقت رکھنے والے یہ دھڑے ان جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہونا پسند کرتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے بہتر حمایت یافتہ ہوں۔ چنانچہ وہ کسی کے ساتھ الحاق کرنے سے پہلے ہوا کے رخ کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کس کی کامیابی کے امکانات نسبتاً زیادہ ہیں۔2013ء میں پی پی پی کی جنوبی پنجاب میں شکست کی بڑی وجہ یہی تھی۔ 
یہاں پی پی پی کو ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے۔ اگرچہ کولیشن کے لیے ممکنہ طور پر آمادہ دھڑے بڑے جاگیرداروں اور بااثر افراد پر مشتمل ہیں لیکن آج کل لوگ کارکردگی دیکھ کر ہی ووٹ دیتے ہیں۔ یہ تبدیلی گزشتہ چار یا پانچ سال کے دوران دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر آپ پسماندہ اضلاع، جیسا کہ ڈی جی خان اور راجن پور میں بھی افراد سے بات کریں توآپ کو اندازہ ہوگا کہ سیاست میں بڑے بڑے ناموں کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ اگرچہ ہم عوام کو اس کا کریڈٹ دینا پسند نہیں کرتے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ فعال اور عملی چوائس دیکھتے ہیں۔ پی پی پی کو جنوبی پنجاب میں اس لیے بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ اپنے گزشتہ دور ِ اقتدار میں وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی تھی جس کی لوگ توقع کررہے تھے اور پھر یہ تاثر بھی عام تھا کہ اس کے سیاست دانوں نے دل کھول کر عوامی فنڈز پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ جب پی پی پی اگلے انتخابات میں جنوبی پنجاب میں شریکِ معرکہ ہوگی تو اسے اندازہ ہوگا کہ اس کا مقابلہ پی ایم ایل (ن) سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی سے ہے۔ چاہے یہ حکمران جماعت کے خلاف میڈیا میں چلنے والی مہم کا نتیجہ ہو یا کچھ اور ، حقیقت یہ ہے کہ وہ انتخابی کامیابی کے بعد جنوبی پنجاب سمیت بہت سے علاقوں میں عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔ بدلنے والی ہوا کارخ ملتان میں میٹرو بس سروس یا کوئی اور سڑک تعمیر کرانے سے واپس تبدیل نہیں ہوپائے گا۔ 
نوجوان بلاول کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ لوگوں کو واپس پی پی پی کی طرف کیسے متوجہ کرے۔جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے اپنے ریکارڈ شدہ پیغام میں اُنھوںنے تخت ِ لاہور کی لوٹ مار کا ذکرتو کیا لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ پی پی پی کے گزشتہ دور میں مخلوط حکومت میں ہونے والی بہت سی مالی بے ضابطگیوں کے ذمہ داروں کا تعلق بھی وسطی پنجاب سے ہی تھا۔عوام کی یاد داشت اتنی بھی کمزور نہیں ہوتی جتنی سیاست دان توقع کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہو سکتا ہے کہ آپ سیاسی طور پر عمران خان کی حکمتِ عملی اور عزائم سے اتفاق نہ کریں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اُنھوںنے ریاست اور سیاسی قیادت کے حوالے سے عوام کی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ کچھ لوگ ایک منتخب حکومت کو طاقت کے زور سے اقتدار سے باہر کرنے کے تصور سے بھی اتفاق نہیں کرتے، تاہم عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس پر کم وبیش اتفاق پایا جاتا ہے۔ احتساب کے نعرے اور اشرافیہ کی بجائے عوام کو سہولیات کی فراہمی کے وعدے نے لوگوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کر دیے ہیں۔ تاہم اُس دن بلاول کے پیغام اور تقریرمیں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس میں وہی جذباتی نعرے تھے لیکن ایسا کوئی پیغام نہیں تھا جو عمران خان کے پیغام سے بڑھ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا۔ 
بلاول بھٹو کواب کوئی ایسی جادو کی چھڑی استعمال کرنی ہے جس سے عام لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن ہوجائیں۔ جنوبی پنجاب میں کھیلاجانے و الا ایک کارڈ نئے صوبے کا ایشو بھی ہے۔ درحقیقت اُس دن بلاول بھٹو کا استقبال کرنے والی بہت سی خواتین سرائیکی صوبے کا نعرہ لگارہی تھیں۔ بلاول نے جنوبی پنجاب کا ذکر ضرور کیا لیکن بہت سے لوگوں کے نزدیک جنوبی پنجاب کا مطلب سرائیکی صوبہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں رہنے والے سرائیکی افراد نسبتاً غریب ہیں، اس لیے اُنہیں زیادہ توجہ درکار ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے صوبے کے نام کو ایک طرف رہنے دیں، پی پی پی چاہتی ہے کہ الگ صوبے کے تصور کو پروان چڑھایا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شمالی اور وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اس کے اہم رہنما ئوں کے لیے اس تصور کی حمایت کرنا مشکل ہوگا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں فاروق لغاری ( جو اُس وقت پی پی پی کے سرکردہ رہنما تھے) نے جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بنانے کے لیے آواز بلند کی تو اُنہیں پارٹی کے اندر سے ہی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔محترمہ ان چند رہنمائوں میںسے ایک تھیں جنہوں نے اس تصور کی حمایت کی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوںنے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے ساتھ کیے گئے سودے کی خلاف ورزی کی تھی جو اُنھوںنے 1970 ء کی دہائی میں کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اسٹیبلشمنٹ اور وسطی پنجاب کے طاقتور سیاسی حلقوں کو یقین دلایا تھا کہ بہاول پور کی حیثیت کو بحال نہیں کیا جائے گا۔ تاہم پھر محترمہ نے بہاول پورکو صوبے کی حیثیت دینے کی بات کرتے ہوئے اپنے والد کی سودابازی سے انحراف کیا تھا۔
پی پی پی کی سابق حکومت نے بھی اس ایشوکو اٹھایا تھا لیکن اب بلاول اور ان کی جماعت کو اس پر ایک واضح پوزیشن لینا پڑے گی۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے اُنہیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ ملک میں بننے والے نئے صوبوں کی حمایت کرنا سندھ میں پی پی پی کے لیے کس قدر دشوار ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تبدیلی کے دور سے گزررہاہے۔ لوگ سماجی تنائو اور بے چینی کی وجہ سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ اس عالم میں جب تک پی پی پی عوام کے سامنے صرف اپنی قربانیوں کا ذکرکرنے کی بجائے عملی طور پر کچھ نہیں لائے گی، اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس وقت مذہبی انتہا پسندوںسے لے کر سیاسی انتہا پسندوں تک، بہت سے دھڑے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں