پاکستان میں حالیہ دہشت گردی اور ہمارا رد عمل

کتنے روشن اور چمکتے پھول تشدد اور بربریت کی آگ میں جل کر اندھیروں کی نذر ہو گئے۔ ہم اس پر ماتم کناں ہیں، لیکن رہ رہ کر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اسے پاکستان کا ''نائن الیون‘‘ سمجھا جائے گا؟ کیا یہی ہے وہ لمحہ جب، ایک سو بتیس جیتے جاگتے، ہنستے کھیلتے معصوم بچوں کے موت کی اندھیری وادی میں اتر جانے کے بعد، ہم یہ حتمی طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمیں اپنے بچائو، اپنے بچوں کی زندگی اور ان کے مستقبل کے لیے یہ جنگ لڑنی ہے تاکہ آئندہ ہمیں اپنے بچوں کی ہلاکت کا سوگ نہ منانا پڑے؟ اس وقت لوگ صدمے کی حالت میں ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر یہ صدمہ بے حسی کی نذر ہو جائے گا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم گزشتہ کئی سالوں سے ایسا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ 
اگرچہ یہ انتہائی جاں گسل سانحہ ہے لیکن ہم پر یہ کیفیت صرف چند دن تک رہے گی، اس کے بعد ہم میں سے کوئی سکیورٹی میں برتی جانے والی کوتاہی کی بات کرے گا۔ کچھ حلقے پہلے ہی وہ سوالات پوچھنا شروع ہو گئے ہیں‘ جو اُنہوں نے بن لادن کی انتہائی حساس علاقے میں موجودگی کے حوالے سے پوچھے تھے۔ عام شہری بھی متحیر ہیں کہ دہشت گرد بھاری ہتھیار اور خود کش جیکٹس لے کر سکیورٹی چیک پوائنٹس میں سے گزر کر اس حساس علاقے میں کیسے داخل ہوئے؟ یہ سوالات یقینا بہت تکلیف دہ ہیں اور ان کے رد عمل میں کچھ لوگ سیاسی حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیں گے کہ وہ اس بحران کو ہینڈل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ سابق صدر پرویز مشرف اور ان کے میڈیا میں موجود حامیوں نے یہ سوال بھی اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ اے پی سی کیوں ہو رہی ہے۔ شاید وہ اسے اہم نہیں سمجھتے‘ حالانکہ یہ اس صوبے، جس پر حکومت کرنے والی جماعت کے رہنما کو اب کہیں جا کر طالبان کی مذمت کی توفیق ہوئی ہے، کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ضروری تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ طالبان اس اندوہناک کارروائی کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ دوسرا منظر یہ ہو گا کہ حکومت اور اس کی حامی جماعتیں الزام لگائیں گی کہ پی ٹی آئی اور اس کے حامی دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت نہیں کرتے۔ اس سے الزام تراشی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ دوسری جماعتیں بھی اس تماشے میں شامل ہو کر دنیا کو جتائیں گی کہ اُنہوں نے اور اُن کے رہنمائوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اس واقعے کے 72 گھنٹوں کے اندر اندر دیگر سیاسی اختلافات کھل کر سامنے آ جائیں گے اور حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے تحریک سڑکوں پر موجزن دکھائی دے گی کیونکہ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کے لیے سب سے اہم چیز یہی ہے۔ 
منگل کو ہونے والے حملے سے بھی زیادہ افسوسناک بات دہشت گردی کے خطرے کے خلاف مل کر کھڑے ہونے میں ہماری ناکامی ہے۔ اسے قومی سانحہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دہشت گرد حفاظتی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں۔ ہمیں سافٹ اور ہارڈ ٹارگٹ کے مسئلے میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ دہشت گرد ہارڈ ٹارگٹس کو بھی اپنا ہدف بنا کر نقصان کر چکے ہیں اور سافٹ ٹارگٹ کو بھی، جیسا کہ پشاور چرچ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھنے اور اس فتنے اور خونریزی سے نجات حاصل کرنے کے لیے باہم تعصبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ باقی ملک کو ایک طرف رکھیں، پشاور کے زیادہ تر شہری بھی اس بات پر متفق نہیں دکھائی دیں گے کہ اس خطرے سے کیسے نمٹا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سخت مشتعل ہوں اور اس مذموم حرکت کے ذمہ دار طالبان کو پیس دینا چاہتے ہوں لیکن آپ اُن سے کچھ سوال کریں تو کچھ دیر بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ ڈرون حملوں کے سخت مخالف ہیں۔ پشاور کے کچھ افراد نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں کہا کہ ڈرون حملوں سے عام شہریوں کا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔ طالبان اور ان کے حامی بھی یہی موقف رکھتے ہیں... مسلح آپریشن میں شہریوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ 
میں یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ ہر اُس شخص کو ہلاک کر دیا جائے جس پر طالبان ہونے کا شبہ ہو‘ لیکن کم از کم یہ اتفاق رائے تو حاصل کر لیا جائے کہ اس طرح کی شدت پسند سیاست کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی۔ ہم اس مسئلے کی نشاندہی میں اس قدر منقسم ہیں کہ اس کے خلاف کوئی متفق بیانیہ سامنے لانے سے قاصر ہیں، بلکہ ہم اس کے لیے کوشش کرتے بھی دکھائی نہیں دیتے‘ اس لیے دہشت گرد، چاہے وہ ہمارے درمیان سے ہوں یا بیرونی علاقوں سے آئے ہوئے ہوں، نہایت آسانی سے رکاوٹوں کو عبور کرکے شہریوں کا خون بہاتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنے علاقوں میں بہت سے ''اپنے لڑکوں‘‘ کو رکھا ہوا ہے‘ جو شدت پسند نظریے پر یقین رکھتے ہیں‘ لیکن ہمیں خوش فہمی ہے کہ وہ ہم پر ہتھیار نہیں اٹھائیںگے۔ وہ صرف، ہم یہ سوچتے ہیں، بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں‘ اس لیے وہ دستے جنہوں نے ہم پر حملہ نہ کرنے کی ڈیل کر رکھی ہے، ہمارے ہاں موجود رہیں گے۔ ہماری حالت امریکی فکشن کے ایک کردار والٹر میٹی جیسی ہے‘ جو خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ ایک منظر میں وہ تصور کرتا ہے کہ وہ ہیرو بن کر لاچار افراد کی مدد کر رہا ہے... بالکل اسی طرح جیسے ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے جوہری اثاثے اسلامی دنیا کے تحفظ کے لیے ہیں، اس لیے ہر شیطانی طاقت ان کی تباہی کے درپے ہے؛ چنانچہ کچھ بُرے افراد کی دوستی بھی ضروری ہے تاکہ مشکل وقت میں اپنا تحفظ کیا جا سکے۔ عملی زندگی میں والٹر مٹی کی طرح ہم نے اسلامی دنیا کوکیا بچانا ہے، ہم اپنے بچوں کو بھی نہیں بچا سکتے۔ یہی نہیں، ہم ، جب تک وہ زندہ رہتے ہیں، اُنہیں ڈھنگ کی تعلیم اور پینے کا صاف پانی بھی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ 
ہم حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیںکہ ہمارے ''اچھے دوست‘‘ عام شہریوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ آپ اُن کے پاس موجود لٹریچر پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے نزدیک ان کے ناپسندیدہ شخص کو زندہ جلا دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں جہادی لٹریچر، اقلیتوں پر تشدد اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا جواز فراہم کرنے والی کتابیں عام دستیاب ہیں۔ بیرونی دنیا کے بارے میں ہم یہ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ امریکی افغانستان میں جنگ اور بھارتی کشمیر میں انتخابات ہار چکے ہیں۔ کیا ہماری یہ پالیسی اب بھی جاری رہے گی؟ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہلاک کیے جانے والے ایک سو اکتالیس افراد اور بچے معصوم اور نیک شہری تھے۔ ان میں سے کوئی بھی توہین کا مرتکب نہیں ہوا تھا لیکن اُنہیں خون میں نہلا دیا گیا۔ اس کے باوجود ہم اتنی ہمت نہیں رکھتے کہ ملک میں دہشت گردی کی ترویج کرنے والے گروہوں، جن کے اندرونی روابط بھی ہیں اور بیرونی بھی، کا ہاتھ روکنے کے لیے سینہ تان کر سامنے آئیں۔ ابھی تو ہم ان کا نام لینے سے بھی گریزاں ہیں۔ یہ حملہ بھی دیگر بہت سے حملوں کی طرح المناک ستم ظریفی میں ڈھل کر نظروںسے اوجھل ہو جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں