یہ اوفا۔۔۔۔۔اُف اﷲ !

روس کے شہر اوفا میں وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات کا نتیجہ جنوبی ایشیا کے روایتی پیمانوں کے عین مطابق ہے۔ ہر فریق کا دعویٰ ہے کہ اُس نے کچھ کامیابی حاصل کی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر سوائے فوٹو سیشن کے کچھ نہ ہوا۔ اوفا میں ملاقات پاک بھارت تعلقات کی برف پگھلانے کے لیے تھی بھی نہیں، یہ یوریشین طاقتوں کے مل بیٹھ کر عالمی سیاست کے خدوخال، جن کا تعلق اُن سے تھا، ازسر ِنو مرتب کرنے کے لیے تھی۔ اس دوران جنوبی ایشیا کے ان دو ملکوں سے بھی کہا گیا کہ وہ بھی اس عمل میں شریک ہوجائیں تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں۔ 
دنیا، خاص طور پر چین اور روس کو دہشت گردی اور اسلام کا سیاسی پہلو کنٹرول کرنے کی فکرہے ۔ بیجنگ خود کو اُسی خطرے کی زد میں سمجھتا ہے جس کا ماضی میں سوویت یونین کو سامنا تھا، لیکن وہ اس کے حل کے لیے وہ طریقہ نہیں اپنانا چاہتا جوسوویت یونین نے افغانستان میں آزمایا تھا۔ چین کو درپیش مسئلے کا سوویت یونین کو درپیش مسئلے سے‘ اس سے زیادہ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ چین، سوویت یونین کی نسبت فائدے میں ہے کیونکہ سوویت یونین کے برعکس اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ۔ درحقیقت اسلام آباد، بیجنگ پر اپنا انحصار بڑھارہا ہے اور بیجنگ کے بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ پھر ان دونوں ممالک کا دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا ایک مشترکہ مقصد بھی موجود ہے۔ چنانچہ اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں توسیع کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کواس میں شامل کرنے کا مقصد خطے میں سیاسی طور پر امن اور سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے جب میں انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی، مجھے جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر کولیگ سے بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ اُنہوں نے ایک بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پروان چڑھنے والا سیاسی فریم ورک مستقبل میں سٹریٹیجک گروپنگ پرزور دے گا اور اسے نہ ماننے والی ریاستیں اپنی اہمیت کھو دیںگی۔ جو چیز اُس وقت موہوم اور مبہم دکھائی دیتی تھی، اب گزرتے ہوئے ماہ وسال میں اس کے خد وخال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ علاقائی تنظیمی ڈھانچے سفارتی سطح پر مذاکرات کرنے اور اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان مسابقت رہے گی لیکن وہ علاقائی کولیشن میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں ۔ اس پلیٹ فارم پر وہ اپنے مفادات اور تعاون کی جہت کو زیرِبحث لاسکتے ہیں۔ علاقائی تنظیم بڑی ریاستوں کو بھی موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے اثر اور دائرہ کارکو دوطرفہ تعاون کی آڑ میں بڑھا سکیں۔ 
یہاں ایشو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کتنی تیزی سے ان تبدیل ہوتے ہوئے معروضات کو اپنا سکتا ہے؟ بیجنگ سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، خاص طور پر اس کا یہ رویہ کہ وہ دشمنی کو ایسا کھیل نہیں سمجھتا جس میں ایک ریاست کافائدہ دوسری کا نقصان ہو۔ آپ کسی مسئلے پر اپنا ایک موقف اختیار کرسکتے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے ایک اچھا خاصا کاروبار کیوں متاثر ہو؟ دولت ، عسکری طاقت کے اظہار سے زیادہ اثر آفریں ہوتی ہے۔ چین ، جنوبی ایشیا کی کئی ریاستوں میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہوئے مالی مفاد حاصل کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بہت سے منصوبوں کو انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کے کارکن چیلنج کریں کیونکہ وہ صرف چینی یا مقامی حکمران اشرافیہ کے مفاد کو مد ِنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ کہ میانمار سے لے کر سری لنکا اور پاکستان تک سیاسی اور سماجی ایکٹوازم کو ناپسندیدہ تصور سمجھا جارہا ہے۔ 
اسلام آباد کا این جی اوز کے حوالے سے حالیہ دنوں دکھائی دینے والا جارحانہ رویہ ریاست کی طرف سے ایک اور اقدام ہے جس کا مقصد چینی سرمایہ کاری کو پرامن راستہ مہیا کرنا ہے۔ خود کو درپیش بہت سے اندرونی مسائل کے با وجود روایتی سول سوسائٹی ہی وہ واحد عنصر ہے جو دوطرفہ تعاون میں توسیع پسندی کے خلاف احتجاج کرسکتا ہے کیونکہ آزاد تجارت اوردی جانے والی دیگر سہولیات کی وجہ سے عام پاکستانیوں کی زندگی یقینی طور پر متاثر ہوگی۔ علاقائی امن کے نقطۂ نظر سے بھارت کو زیادہ فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ خطے میں ہر آن جاری رہنے والی کم شدت والی کشمکش کو روس، چین، ایران کے علاوہ امریکہ بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چین اور امریکہ نے وسیع تر کردار ادا کرتے ہوئے نریندر مودی کو''ٹھنڈا‘‘ کیا ہے تاکہ وہ اپنے پاکستانی ہم منصب، نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملائیں۔ چند ماہ پہلے، بھارت کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے اجیت دول کے اس اصرار کے بعد کہ گفتگو شروع کرنے کے لیے زکی الرحمٰن لکھوی کے معاملے کو مرکز مان کر بات کی جائے، ایسا لگتا تھا کہ دونوں وزرائے اعظم ایک دوسرے کے ساتھ گرم جوشی نہیں دکھاسکیں گے چہ جائیکہ کوئی مشترکہ اعلامیہ سامنے آئے۔ اس کے علاوہ یواین میں مستقل نشست پر نظریں جماتے ہوئے بھارتی وزیر ِاعظم کو احساس ہوچکا ہوگا کہ اب علاقائی معاملات کو روایتی انداز سے ہٹ کرنمٹانا ہوگا، خاص طور پر جب دیگر طاقتیں اوراہم علاقائی ریاستیں اسلام آباد سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 
مودی کوداخلی طور پر اس ملاقات کو سودمند ثابت کرنے کے لیے بہت احتیاط اور دانشمندی سے کام لینا پڑے گا۔ اُنہوں نے ماضی میں این ایس اے کے سربراہ مسٹر دول کے ساتھ مل کر پاکستان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ معاملات آگے بڑھانے کے لیے انہیں اپنے عوام کی توقعات کو بدلنا پڑے گا۔ نواز شریف اور ان کی ٹیم کی طرف سے ان کے کان میں کیا پھونک ماری گئی، اس کی تفصیل سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ لکھوی صاحب کے مقدمے کا وہ فیصلہ نہیں ہوگا جو بھارت چاہتا ہے۔ لکھوی صاحب نے اپنی آواز کا سیمپل دینے سے انکار کردیا اور وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادربلوچ نے یہ کہتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ اہل حدیث مسلک کی اس تنظیم کے فلاحی کاموںکو دیکھتے ہوئے سول سوسائٹی کی طرف سے ان کی مخالفت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ ان حالات میں بھارت کے لیے واحد ضمانت ایک تنظیمی ڈھانچے کے ذریعے آگے بڑھتے ہوئے باقی معاملات آسمانی طاقتوں کے سپرد کردینا ہے۔ 
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اوفاکو ایک ناکامی کے طور پر پیش کرنا غلطی ہے۔ کچھ تجزیہ نگار سرتاج عزیزکے اس بیان کو کہ کشمیر پاکستان کے لیے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے، عجیب طریقے سے پیش کر رہے ہیں۔ لوگوں کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ کشمیر اوفا اعلامیے کا حصہ نہیں تھا اور انہیں یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملاقات میں صرف نقصان ہوا ہے۔ کچھ لوگ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے سفارتی اناڑی پن سے ان کی حکومت کو سیاسی طور پر نقصان ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے چند مہنیوں سے پاکستان میں ہونے والے ہر منفی کام کے پیچھے بھارتی ایجنسی را کا ہاتھ بتایا جاتا رہا ہے۔ اس موقف کا عکس اوفا کی ملاقات میں نظر نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے کہ تجزیہ کاروں کا غصہ جان بوجھ کر ہو تاکہ آنے والے دنوں میں غیرحکومتی عنصر موقف تبدیل کرسکیں اور ایسی صورت میں سارا الزام وزیر اعظم کے سر تھونپ دیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اوفا میں ہاتھ ملاتے وقت صرف نواز شریف کی منشا ہی شامل نہیں تھی۔ پاکستان میں طاقت کے مراکز کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وسیع تر علاقائی تعاون اب کسی اور کارگل جیسی مہم کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اسلام آباد کو سماجی، معاشی ، سیاسی اور سفارتی سکت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسے دنیا کو عسکری آئینے سے ہٹ کر دیکھنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں