بے معنی چیخیں

مقبوضہ کشمیر میں بہت سی آنکھیں ہیں جو اب یہ دیکھ نہیں پائیں گی کہ سرحد پار ان کی آواز کیسے اٹھائی جا رہی ہے ۔ کوئی ایسا ٹی وی چینل نہیں اور کوئی اخبار نہیں جس نے پاکستانیوں کو کشمیر کے نوجوانوں کی درد بھری داستان نہ سنائی ہو۔ ہندوستانی حکومت جنہیں دہشت گرد کہتی ہے وہ ان نوجوانوں کی کھیپ ہے جو ریاست کے دھوکے اور جبر، ظلم کی داستان اور مایوسی کے سائے میں پلی۔1989-90ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں شورش کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں بعد میں پاکستان اور پاکستان میں موجود جہادی گروہوں نے بھی حصہ ڈالا اور معاملہ خاصا بین الاقوامی سطح پر پھیلا تو اس وقت برہان وانی اور اس کے ساتھی ابھی پیدا ہی ہوئے ہوں گے ۔ لیکن بقول کشمیری رائٹر بشارت پیر کے شکست اور غصے کے احساس نے وانی کو اس ریاست سے جس نے اس کی2010ء میں تضحیک کی تھی جنگ کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ سوشل میڈیا کا ستارہ تھا جو اپنی فوجی وردی میں ملبوس بندوق ہاتھ میں لئے نوجوان جن کے ارد گرد مایوسی کے سوا کچھ نہیں‘ کے دل گرماتا تھا۔ اس 22 سالہ نوجوان سے ریاستی فوج کو آخر کتنا خطرہ تھا؟
افسوس کہ ریاستیں قومی سلامتی کے نام پر یونہی لوگوں کی قربانی دیتی ہیں ۔ چاہے کشمیر ہو‘ سنکیانگ ہو یا امریکہ۔ جب جب لوگوں نے حق کی آواز اٹھائی تو جبر کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو کئی مثالیں ملیں گی۔ مگر اب اور تب میں ایک بہت بڑا فرق ہے ۔ اب خود ارادیت اور آزادی کی جنگوں کا شعوری طور پر وہ حال کر دیا گیا ہے جو کہ ایک چڑ مڑ کیے کوڑے دان میں پڑے کاغذ کا جسے کوئی کھول کر پڑھنے کو تیار نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب چی گویرا، لیلیٰ خالد اور ایسے بہت سے نام تھے ۔ کچھ حق خودارادیت اور کچھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں۔ یہ لوگ صرف اپنے خطوں میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جانے جاتے تھے اور ہیرو تصور کئے جاتے تھے ۔ شاید آج چی گویرا ہوتا تو وہ بھی دہشت گرد کہلاتا جس کے قتل ہونے پر دنیا یونہی منہ پھیر لیتی جیسے کہ اب کشمیر کے بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ 
پاکستان میں تو ہمیں بہت گلہ ہے کہ شاید حکومت کھل کر ہندوستان کی بربریت کا احتجاج نہیں کر رہی۔ لیکن کیا کہیں گے کہ آزاد کشمیر کے لوگ بھی چپ سادھے ہوئے تھے ۔ ان الیکشنوں میں ان کا مسئلہ مقبوضہ کشمیر نہیں تھا۔ یا شائد ان کشمیریوں کو معاف کر دینا چاہئے کیونکہ ان کو بھی اپنا اپ مقبوضہ لگتا ہے۔ ایک خطہ جو مظفرآباد کے بجائے اسلام آباد سے چلتا ہے لیکن ترقیاتی بنیادوں پر بہت پسماندہ ہے ۔ 
لیکن باقی دنیا کا بھی تو یہی حال ہے ۔ یہ ایک سانحہ سے کم نہیں کہ تین دہائیوں میں تحریکوں کو دیکھنے کی نگاہ بدل گئی ہے اور ان کے بارے میں استعمال ہونے والی زبان بھی۔ آج یہ آزادی کی جنگیں نہیں بلکہ دہشت گردی کہلاتی ہیں۔ اس سلسلے میں دو حقائق قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ نے بہت کچھ بدل دیا۔ افغان قوم نے ہمیشہ سے باہر سے آنے والوں کے خلاف جنگ لڑی تو اب بھی لڑ لیتے لیکن اس دفعہ تو جو دکھتا تھا وہ اصل میں نہیں تھا۔ آزادی کی جنگ کو اسلامی جنگ بنا دیا گیا جس کے بعد سب تبدیل ہو گیا۔ دنیا بھر کے جاسوسی ادارے جن میں امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی پیش پیش تھیں نے مل کر معاشرے کا جینیاتی کوڈ جیسے بدل دیا ہو۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر اور فلسطین دونوں کو دیکھنے کا طریقہ بدل گیا۔ ان تحریکوں نے بھی سمجھا کہ مذہبی استعارے استعمال کر کے جنگ کا رخ بدلا جا سکتا ہے ۔ آخر کو افغانستان میں بھی تو ساری دنیا سے مسلمان اسلام کا جہاد لڑنے کو لائے گئے تھے ۔ یاد رہے کہ افغانستان کے بعد ہی فلسطینی انتقاضہ شروع ہوا۔ وہاں تک بھی گزارا تھا لیکن پھر افغانستان کے بعد عراق پر بھی حملہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ مذہبی دہشت گرد بن گئے ۔ اب تو یہ مسئلہ ہے کہ دنیا دہشت گردی سے ڈرتی ہے ۔ کچھ وہ ممالک ہیں جو اس مسئلہ سے ویسے ہی فاصلہ رکھنا چاہتے ہیں اور کچھ پاکستان جیسے ملک جو اپنی بدنامی کے ڈر سے پریشان۔ 
اور پھر آئیڈلزم بھی تو ختم ہو گی۔ ریاستیں اور اس کو چلانے والے ہر جگہ سمجھتے ہیں کہ ریاست انسانیت سے بالا ہے اور لوگوں کی قربانی جائز ہے ۔ مجھے ایک مرتبہ سیفما کی میٹنگ یاد ہے جس میں موضوع یہ تھا کہ آیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔ کچھ توجہ دلانے کی کوشش بھی کی کہ اگر فلسطینیوں کو چھوڑ دیا تو آپ کی مدد کو کل کون آئے گا۔ اس موقع پر ادارہ کے سربراہ نے بدتمیزی کر کے چپ کرا دیا۔ 
سوال ہے کہ پاکستان ایسے وقت میں کشمیر کے مسئلے کو کہاں تک اور کس کامیابی سے اٹھا سکتا ہے ؟ یہ معاملہ اتنے سال فوج کشی سے تو حل نہیں ہو سکا اور نہ ہی ایسا کرنے کی گنجائش ہے ۔ جہاں ایٹمی ہتھیار جنگ سے بچاتے ہیں وہاں یہ کسی قسم کی جنگی پیش قدمی کو بھی روکتے ہیں چاہے وہ غیر ریاستی عنصر ہی کیوںہنا کریں۔ بلکہ ایسے عناصر کی شمولیت سے بیچارے کشمیریوں کا معاملہ دنیا کی نظر میں مشکوک ہو جاتا ہے ۔ جماعت الدعوہ کتنا ہی درد اپنے دل میں رکھے لیکن امریکہ سے چین تک تمام ممالک ان تمام چیزوں جن پر دہشت گردی کا لیبل لگا ہو اس سے فاصلہ رکھنا چاہتے ہیں۔ چاہے کشمیری ہوں اور چاہے فلسطینی ان کی جدوجہد کو جہاد بنا کر ان کا نقصان کیا گیا۔ اگر سازش ہے تو یہ ہے ۔ پاکستان اگر کشمیر کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اسے دنیا کو باور کروانا پڑے گا کہ یہ تہذیبوں کی نہیں بلکہ آزادی اور انسانیت کی جنگ ہے ۔ کسی بھی ریاست کو اپنے باشندوں پر ظلم ڈھانے کا حق نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں