میں اس روز ٹورنٹو میں تھا اور وہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مظاہرین پر لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ آنسو گیس کا استعمال ہوتا ہے۔ لوگ مشتعل ہو کر پولیس پر پتھرائو کرتے ہیں۔ توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ دکانوں کے شیشے ٹوٹتے ہیں۔ لوگ زخمی ہوتے ہیں۔ ایمبولینس حرکت میں آتی ہے۔ عمومی طور پر اس شہر میں کسی کو احتجاج کرنے، سڑکیں بلاک کرنے یا اپنے حق کے حصول کے لیے امن و امان درہم برہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن اس دن ایسا ہوا کہ دنیا کے امیر ترین اقوام کے رہنمائوں کی کانفرنس ہورہی تھی۔ یہ وہی ممالک ہیں جن کے قبضے میں دنیا کے دو تہائی وسائل ہیں اور جو اپنی مضبوط معیشت اور طاقت سے تیسری دنیا کے غریب ممالک کو محکوم بنا کر ان کے وسائل لوٹنے میں مسلسل مصروف ہیں۔ یہ کانفرنس ہر سال کہیں نہ کہیں منعقد ہوتی ہے اور ہر سال غریب اور ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے عوام اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ وہ باور کراتے ہیں کہ یہ ممالک غریب اقوام کے قاتل ہیں۔ یہ استحصالی طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، مظاہرین کبھی علامتی جنازے اٹھاتے ہیں۔ کبھی ماتمی لباس پہنتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ ہوتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے ’’عالمی بینک کے ڈاکوئوں کو خوش آمدید‘‘ ’’سرمایہ داری انسان کے خلاف اور انسان سرمائے کے خلاف ہے۔‘‘ ’’غریب دشمن پالیسیاں بند کرو‘‘ ’’امن کے نام پر جنگ جنگ کھیلنا بند کرو‘‘ ’’غریب ممالک کا استحصال کب تک کرتے رہو گے۔‘‘کانفرنس کے تین دن یہ شہر میدان کارزار بنا رہا اور ہم مسلسل یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ ان کانفرنسوں میں اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ غریب ممالک کو قرضوں میں کیسے جکڑنا ہے۔ ان کے مزید وسائل پر قبضہ کیسے کرنا ہے۔ ان کو معاشی طور پر کمزور اور محکوم کیسے رکھنا ہے۔ ان کے قرضوں کی واپسی کی شرائط کو مزید سخت کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔ اس کانفرنس میں بھی یہی کچھ ہوا۔ کسی نے یہ تجویز نہیں دی کہ دفاع اور جنگوں پر آئے روز بڑھنے والے اخراجات کو کم کیا جائے یا ان پیسوں کو اپنے عوام کی بہتری اور خطے کے عوام کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔ غریب اور کمزور اقوام کے استحصال کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ زور آور کبھی علاقے کے بدمعاش کی شکل اختیار کرتا ہے تو کبھی جاگیردار اور وڈیرے کا روپ دھار لیتا ہے۔ کبھی سرمایہ دار بنتا ہے تو کبھی کسی کمپنی کی شکل اختیار کرکے وسائل لوٹتا ہے۔ کبھی ہتھیاروں کی فراوانی کے بل بوتے پر حکومت کرتا ہے تو کبھی ہتھیاروں کی سپلائی سے مقاصد حاصل کرلیتا ہے۔ کبھی نظریاتی بلاک بنا کر تو کبھی منڈی کی معیشت کے چکر میں پھنسا کر، کبھی آئی ایم ایف بن کر تو کبھی عالمی بینک کا روپ دھار کر قرضے جاری کرکے معاشی آزادی کو گروی رکھ لیتا ہے۔ کبھی براہ راست حملہ کرکے محکوم بنایا جاتا ہے تو کبھی سازشوں اور ایجنٹوں کے ذریعے حکومتوں کو تبدیل کروا کر اپنے مہروں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا کر۔ مارکیٹ اکانومی کے اس دور میں یہ ممالک اپنے ایجنٹوں‘ جنہیں وہ بعض اوقات ایڈوائزرز اور کنسلٹنٹس کا نام دیتے ہیں، کے ذریعے پہلے غریب ممالک میں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو انہیں مدد لینے اور زندہ رہنے کے لیے سرپرستی پر مجبور کردیتے ہیں، پھر وہ قرضوں اور فنی معاونت نامی پراڈکٹ کے ذریعے رفتہ رفتہ ان ممالک کی معیشت، زراعت اور پھر خارجہ پالیسی کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ یہ ممالک اور ادارے تو وبائوں، زلزلوں، طوفانوں، سیلابوں اور قحط میں دیئے جانے والے قرضوں‘ امدادوں کو بھی اپنے منافع کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ امداد کے نام پر نفع نچوڑنے اور اس نفع سے دفاعی اور جنگی ہتھیاروں میں اضافہ کرکے غریب ممالک کے غریب عوام کو ختم کرنے کا منصوبہ جاری ہے اور اب تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں آچکی ہے۔ اس پراڈکٹ کی مارکیٹنگ افغانستان، پاکستان، عراق اور یمن کے مسلمانوں کے خون سے کی جارہی ہے۔ پرانے اور نئے ہتھیاروں کی سپلائی اور اس سے منافع کمانے کیلئے پاکستان کو میدان جنگ بنا دیا گیا ہے۔ اس پراڈکٹ کے خریداروں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔ یہ گھنائونا کاروبار جاری ہے جس میں میرے ملک کے معصوم لوگ آئے دن اپنے جسم کے پرخچے اڑاتے نظر آتے ہیں لیکن یہ کاروبار جاری ہے۔ ان ملکوں اور اداروں نے خاص طور پر جنوبی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کو قرضوں کی گھمن گھیریوں میں ڈال کر ان کے سارے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہیرے جواہرات، تیل اور دوسری معدنیات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ان ممالک کے اندر تمام وسائل بڑی بڑی کمپنیوں کے قبضے میں ہیں۔ غریب سے غریب تر ہوتے ممالک کی معیشتیں قرضوں اور سود کی ادائیگی میں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ G-8 ممالک نے صنعتی پیداوار کے ذریعے دنیا بھر کی دولت کے بڑے حصے کو اپنے پاس جمع کرلیا ہے۔ یہ نظام وہ عفریت ہے جس کے خلاف 77 گروپ کا وجود عمل میں آیا ہے۔ اس گروپ کا بنیادی نعرہ یہ تھا کہ عالمی تجارت کو گنتی کے چند ترقی یافتہ ممالک کی اجارہ داریوں سے نجات دلا کر منصفانہ بنایا جائے۔ عالمی تجارت میں ترقی پذیر ممالک کو ان کا جائز حق دیا جائے اور جدید ٹیکنالوجی اور سرمائے کو تیسری دنیا کو آزادانہ منتقلی کی جائے۔ اپنے استحصالی ایجنڈے اور عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت ان اداروں کا اصل ہدف غریب ملکوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر وہاں اپنی مرضی کا نظام لانا اور سوچ پر قابض ہونا ہے۔ ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ ادارے قرضے دیتے وقت اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ عوام پر زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جائے۔ پٹرول، بجلی، گیس اور روزمرہ کی اشیا پر مختلف ٹیکس لگا کر قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کبھی سیلز ٹیکس تو کبھی آمدنی ٹیکس، کبھی جی ایس ٹی اور کبھی اضافی جی ایس ٹی۔ پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کی مالیت 50ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ ان کے اصل زر اور سود کی ادائیگی کا بوجھ ہر سال بڑھ رہا ہے جس کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ہم نے کشکول توڑنے کا وعدہ اور دعویٰ تو کیا تھا لیکن اپنے نعروں اور دعوئوں کے برعکس موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کرنا پڑ رہے ہیں اور انہیں خوش کرنے کے لیے بجٹ میں جی ایس ٹی میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ شرائط اتنی کڑی ہیں کہ ابھی تک بات بن نہیں رہی۔ یوں لگتا ہے کہ اب کسی حکومت کے بس میں نہیں رہا کہ وہ قوم کو ان مالیاتی اداروں کے چنگل سے نجات دلا سکیں۔ کشکول ہے کہ ٹوٹنے کے بجائے مسلسل بڑا ہور رہا ہے اور قوم کا ایک ایک بچہ قرضوں میں مسلسل جکڑتا جارہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ قرضے کہاں استعمال ہورہے ہیں۔ صرف حکومتی اخراجات، عیاشیوں اور چند فیصد طبقے کی مراعات میں اضافے کے لیے ہی ان قرضوں کو استعمال ہونا ہے تو پھر ہم اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ ہمارے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگ اپنے ہی ملکوں کی استحصالی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کرسکتے ہیں، ان کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں تو ہم اپنے ہی ملک خاموشی کے ساتھ سب کچھ کیوں برداشت کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور دوسرے طبقے اس نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے کوئی مشترک سوچ پیدا کیوں نہیں کرتے۔ اب عوام کو یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔ اب وہ طبقۂ اشرافیہ کی جنگ کا ایندھن بننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ غیر ملکی ایجنسیوں اور اداروں سے مالی امداد حاصل کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں اگر اس سود خور استحصالی نظام کے خلاف مظاہرے کرسکتی ہیں تو سیاسی جماعتیں اور مذہبی طبقہ ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ کب تک خوشحالی کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوگی‘ کچھ پتہ نہیں۔ ویسے اگر کسی وقت یہ ثابت ہوجائے کہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی ان اداروں کے استحصالی ایجنڈے کی محافظ اور مددگار ہیں تو کیسا محسوس ہوگا؟