حیرت یا شاید پریشانی صرف اس لیے ہورہی ہے کہ ایسا واقعہ اس ملک کی تاریخ میں پہلے رونما نہیں ہوا۔ رونما کیا ہوتا کسی کے اندر ایسا سوچنے کی بھی جرأت پیدا نہ ہوسکی۔ اگر ایوب خان، یحییٰ خان یا ضیاء الحق میں سے کسی کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا تو یہ سب کچھ انوکھا یا نیا نہ لگتا۔ ہم حیران بھی ہوتے اور پریشانی بھی ہمارے چہروں اور گفتار سے نہ جھلکتی۔ ہر طرف سے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی نصیحتیں اور ارشادات نہ ہورہے ہوتے۔ یہ نصیحت کرنے والے کون ہیں؟ وہی غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے والے، آمروں کے آگے پیچھے رہ کر مفادات حاصل کرنے والے۔ ان کی جوتیاں چمکانے والے، ہر دم ان کی شان میں قصیدے پڑھنے والے۔ ان کی خوشامد میں رطب اللسان رہنے والے، انہیں لمبی زندگی کی دعا دینے، وردی میں سو سال تک منتخب کرانے والے، انہیں سید صاحب کہہ کر مخاطب کرنے والے، برسوں کی رفاقتیں ذرا سی دھوپ پڑنے پر طاق نسیاں پر رکھ دینے والے، مقدمے، قید، جرمانے، کاروبار خسارے میں جانے سے ڈرنے والے، احتساب بیورو کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر وفاداریاں تبدیل کرلینے والے۔ یہ کون لوگ ہیں جو نوازشریف کو ڈرا رہے ہیں۔ نصیحت کررہے ہیں۔ یہی شیخ رشید احمد، یہی مولانا فضل الرحمن اور یہی جنرل مرزا اسلم بیگ۔ کیا قوم ان سب سے واقف نہیں۔ جنہوں نے ایم ایم اے بنا کر ایل ایف او اور سترھویں ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا۔ پانچ سال خیبر پختونخوا میں حکومت کے مزے لوٹے اور وہاں کے وسائل اور خزانے پر ہاتھ صاف کیا۔ اسی قومی اسمبلی سے ایک فوجی حکمران کی حکمرانی کو وردی سمیت سند جواز فراہم کی۔ خلعت فاخرہ سے نوازا۔ جو کسی بھی قسم کی جمہوری، غیر جمہوری اور نیم جمہوری حکومت میں اپنا حصہ وصول نہ کرنا گناہ عظیم تصور کرتے ہیں اور یہ جنرل مرزا اسلم بیگ کون ہیں؟ وہی جو سیاستدانوں کی تضحیک کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قانون، آئین اور عدالتیں ان کے لیے نہیں ہیں وہ جو چاہے کرتے پھریں۔ انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں یا کسی کی ہمت نہیں کہ ان سے کوئی پوچھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے اپنے عمل کو وہ درست خیال کرتے ہیں۔ آئی جے آئی بنانا بھی درست تھا اور قوم کا خزانہ بھی لٹانا ان کے نزدیک ایک Divine حکم تھا۔ کوئی پوچھ کر تو دکھائے۔ واقعی کسی نے نہیں پوچھا۔ ورنہ اگر انہیں، جنرل اسد درانی اور جنرل حمید گل کو اس جرم کی پاداش میں تھوڑی بہت بھی سزا نام کی چیز مل جاتی تو ہمیں آج کوئی اچنبھا نہ ہوتا۔ انہوں نے تو ایسی باتیں کرنی ہیں جن کے نزدیک فوج ایک سپریم ادارہ ہے اور وہ جب چاہے حکومت پر قبضہ کرکے سیاستدانوں اور منتخب نمائندوں کو گھر بھیج سکتا ہے یا پابند سلاسل کرسکتا ہے۔ ان کا تعلق اس قبیل کے فوجی جرنیلوں سے ہے جو سویلین کو انسان نہیں سمجھتے۔ ہم تو جنرل جاوید اشرف قاضی اور جنرل سعید الظفر کو بھی کچھ نہ کہہ سکے جو میڈیا کو ایڈیٹ کہتے ہوئے چلتے بنے۔ رہ گئے شیخ رشید احمد تو ان کی بھی بہت ساری مجبوریاں تھیں۔ انہوں نے جنرل مشرف سے وزارتیں بھی لینی تھیں اور دوسرے مفادات بھی۔ وہ تو انہیں سید پرویز مشرف کہتے تھکتے نہیں تھے۔ پانچ سال تک ق لیگ اور مشرف کے آستانے پر سر رگڑنے والے اگر حق نمک ادا نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ 2008ء کے انتخابات میں جب شیخ صاحب بری طرح ہار گئے تو ایک ٹی وی چینل کی طرف سے سب سے پہلا انٹرویو میں نے کیا۔ جب میں نے پوچھا کہ آپ کے ہارنے کی ایک وجہ یہ تو نہیں تھی کہ آپ کے مقابلے میں امیدوار مضبوط تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ہوتا‘ میں ہار جاتا۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ق لیگ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد بھی کوئی جماعت نہ بن سکی۔ ہمیں لوگوں نے مشرف کا ساتھ دینے کی وجہ سے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مشرف کا ساتھ دے کر انہوں نے غلطی کی ہے۔ اس پورے عرصے میں ’’فرزند راولپنڈی‘‘ جس طرح ایجنسیوں، ایجنسی والوں اور فوج کے بڑوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے‘ جو پاپڑ بیلتے رہے‘ وہ کہانیاں سب کو یاد ہیں۔ سو انہیں پنڈی والوں کی طاقت اور مزاج کا زیادہ پتہ ہے اس لیے وہ بھی نوازشریف کو احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ بھی ہر غیر جمہوری حکومت اور حکمران کو قانونی امداد فراہم کرتے رہے ہیں۔ سنا ہے کہ اب پھر پیرزادہ صاحب کا ظہور اور ورود ہورہا ہے۔ کبھی اے کے بروہی ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی یہی کام کرتے تھے۔ مشرف صاحب کے لیے اصولی طور پر تو اور بھی بہت سے لوگوں کو بولنا چاہیے لیکن اب انہیں ان کا نام تک لینا گوارا نہیں۔ رضا حیات ہراج، خسرو بخیار، ماروی میمن، طارق عظیم، گوہر ایوب، امیر مقام، سمیرا ملک، لغاری برادران اور … اور…… کتنے ہی دوسرے لیکن وہ کیسے بول سکتے ہیں کیونکہ یہ سارے تو اب مسلم لیگ ن کے سینئر لیڈر ہیں۔ حتیٰ کہ میرظفر اللہ خان جمالی بھی۔ جنہیں مشرف نے وزیراعظم بنانے کی منظوری دی تھی۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر نوازشریف اس حوالے سے کوئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں تو انہیں ایک طرف تو ایسے لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے اور دوسرا یہ کیس میرٹ اور قانون کے تمام تر تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھانا چاہیے تاکہ کسی بھی مرحلے پر ذاتی انتقام کی بو نہ آسکے اور یہ بات عدالت پر چھوڑ دیں کہ وہ اس کیس سے متعلق جس جس کو بھی بلانا چاہتی ہے، ضرور بلائے اور تحقیق کرے۔