سال 2000ء میں سقوط ڈھاکہ پر حمودالرحمن کمشن رپورٹ بھارتی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے کے بعد میرا کالم ایک معاصر روزنامے میں شائع ہوا تو دواداروں کی طرف سے فون پر تنبیہ کی گئی کہ آئندہ احتیاط سے کام لینا۔ 2000ء اور 2013ء میں خاصا فرق ہے۔ اس وقت تنقید برداشت کرنے کے پیمانے کی سطح نہ ہونے کے برابر تھی لیکن آج بہت بلند ہو چکی ہے۔ آج میڈیا سے کوئی بات چھپائی نہیں جاسکتی۔ اُس رپورٹ میں سقوط ڈھاکہ کے اسباب وعوامل کا جائزہ لینے کے بعد ذمہ داران کو قرار واقعی سزادینے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان ذمہ داروں میں اعلیٰ عسکری اور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ میں ایبٹ آباد کے واقعہ کے تمام پہلوئوں کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا ؟ ذمہ داران کون تھے۔ کون کون سے ادارے اس غفلت کے مرتکب ہوئے؟ اصل محرکات کیا تھے ؟ آئندہ یہ سب کچھ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے؟ ہماری خامیاں اور کوتاہیاں کہاں کہاں تھیں ؟ دونوں رپورٹوں میں ایک مماثلت بہرحال موجود ہے کہ دونوں کو عوام سے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ ایک رپورٹ ستائیس برس بعد منظر عام پر آسکی اور دوسری جلد طشت ازبام ہوگئی۔ لیکن دونوں رپورٹوں کو حکومت نے خود شائع نہیں کیا بلکہ بیرونی میڈیا انہیں منظر عام پر لایا اور پھر مجبوراً پاکستانی سرکار کو بھی انہیں سامنے لانا پڑا۔ لیکن میرااصل موضوع یہ ہرگز نہیں بلکہ وہ احساس زیاں ہے جس کے نہ ہونے پر کوئی آنکھ اشکبار نہ ہوئی۔ کسی سوچ کے دروازے پر ہلکی سی دستک بھی نہ ہوئی۔ کسی کے اندر جرم اور ندامت کا احساس نہ جاگا۔ کسی سوئے ہوئے بدن نے جھرجھری نہ لی۔ کسی لہر کی زیریں سطح پر بھی کوئی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔ اسی وجہ سے اس ملک میں اداروں کی ناکامیوں اور مہم جوئوں کی مہم جوئی کا سلسلہ رک نہ سکا۔ اگر حمودالرحمن کمشن رپورٹ بروقت منظر عام پر آجاتی اور اس کی سفارشات کی روشنی میں چند اہم لوگوں کو علامتی طورپر ہی سہی، کچھ سزا مل جاتی تو آج ہمارے سینوں پر ندامت، بے حسی، بے غیرتی اور بے ضمیری کے اتنے زیادہ تمغے نہ سجے ہوتے ۔ ہم بھی اقوام عالم میں سراٹھا کر چلنے کے قابل ہوتے، ہماری سرزمین غیرملکی طاقتوں کے لیے چراگاہ اور تماشاگاہ نہ بنتی۔ اگر اس وقت چند لوگوں کا محاسبہ ہوجاتا تو اس کے بعد کوئی 5جولائی ،12اکتوبر، کارگل، ایبٹ آباد اور 3نومبر نہ آتا۔ رونے کا مقام ہے کہ دومئی کی شب چارامریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے اڑکر پاکستان میں تقریباً پون گھنٹہ کارروائی کرکے بحفاظت افغانستان واپس پہنچ گئے۔ پاکستان کے کسی سکیورٹی ادارے اور حکومتی نیٹ ورک کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ کسی ریڈار نے کام کیا نہ کسی جاسوسی کے نیٹ ورک نے۔ پوری دنیا میں باتیں ہونے لگیں کہ ہمارے ادارے اپنے فرائض انجام دینے کی پوری صلاحیت نہیں رکھتے۔ جگ ہنسائی ہوئی مگر بہت جلد اس منحوس واقعے کے سیاہ بادل یوں اڑ گئے جیسے کبھی یہ واقعہ ہوا ہی نہیں تھا۔ شروع میں تو حکمرانوں نے اسے ایک فتح عظیم قرار دیا۔ ملک کی ایٹمی تنصیبات اور اثاثوں کی حفاظت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا تھا‘ لیکن خواب غفلت میں پڑے، اپنے مفادات کی کھونٹیوں سے بندھے لوگوں کا چلن اسی طرح رہا۔ کسی نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ روش حیات وہی رہی۔ ہماری ندامتوں اور بے ضمیری کے چرکوں میں اور اضافہ ہوگیا۔ ایک ایسا ملک جس کی سکیورٹی ایجنسیاں سپرپاورز کو شکست دینے کا شہرہ رکھتی ہیں، دنیا میں اس ملک کے طورپر پہچانا جانے لگا کہ اس نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ یہی نہیں‘ ہماری ناکامی مہران نیول بیس پر حملے، کامرہ پر حملے، سکیورٹی اداروں کے سٹاف پر حملے، بسوں کے اغوا اور جیلوں پر حملوں کے واقعات سے اور نمایاں ہو گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح کی حرکت بھارت کی طرف سے ہوگئی اور ہمارے یہ اہم ترین ادارے سوئے رہے تو ہم کیسے ایک دوسرے کو منہ دکھا سکیں گے۔ کیسے زندہ رہ سکیں گے۔ ہمارے جینے کے لیے تو صرف یہی ایک سامان اور زادراہ ہے۔ ایک احساس تفاخر… بھارت کے مقابلے میں جینے کا۔ وہی چھن گیا تو کیا ہوگا۔ ہماری تزویراتی گہرائی کا فلسفہ تو اسی سے منسلک ہے۔ ان اداروں نے مل کر ہم سے جینے کا سامان بھی چھین لیا۔ اس قوم کے پاس اور تھا کیا ؟ جو نسل ایک عرصے سے یہ خوش کن الفاظ سنتی آرہی ہے کہ ہم پوری طرح مستعد ہیں‘ باصلاحیت ہیں اور اس کی طرف بری نظر سے دیکھنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اب کیا کرے؟ کس کس کو جواب دے۔ بھرم ٹوٹ جائے، خواب بکھر جائیں تو کیا باقی رہ جاتا ہے ؟ آپ ہی کچھ کہیے۔ ممکن ہے یہ رپورٹ بھی باقی رپورٹوں کی طرح طاق نسیاں پر رکھ دی جائے، یا تغافل کی پاتال میں پھینک دی جائے لیکن ایک بات اصولی طورپر طے ہے کہ جب اہم ترین ادارے اپنے مینڈیٹ اور آئین کے دائرہ کار میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کریں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ اسی طرح انٹیلی جنس کی ناکامیاں ہمارا مقدر بنتی رہیں گی۔ اسی طرح ہم پوری دنیا میں مذاق بنتے رہیں گے۔ جب سیاسی ادارے دفاعی پالیسی سازی میں اپنا رہنما کردار ادا نہیں کریں گے‘ خارجہ پالیسی خود وضع نہیں کریں گے تو اسی طرح کارگل، سقوط ڈھاکہ اور ایبٹ آباد جیسے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ اس رپورٹ پر بہت سے اعتراضات ہورہے ہیں۔ کمشن نے ذمہ دار لوگوں کے نام نہیں لکھے نہ ہی ان کے لیے واضح طورپر سزائوں کا تعین کرنے کی سفارش کی ہے۔ بعض سوالات کے جوابات کمشن کو نہیں ملے۔ انہوں نے ان جوابات کے لیے متعلقہ لوگوں کو طلب بھی نہیں کیا۔ اگر مستقبل میں اس قسم کے واقعات کو روکنا مقصود ہے تو نواز شریف حکومت کو اس واقعے کی دوبارہ تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟