سکون سے بیٹھو

کیا خاموشی، بے حسی اور غیرجانبداری ایک ہی کیفیت کے مختلف نام ہیں ؟ کیا ان خصوصیات سے متصف سماج زیادہ دیرتک زندہ رہ سکتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ قومی بحرانوں، سانحوں اور حساس معاملات میں خاموش اور غیرجانبدار طبقہ کسی جرم کا مرتکب ہورہا ہے جس کی بعد میں کوئی تلافی یا ازالہ ممکن نہیں ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جوہر ذہن میں موجود ہیں یا کم ازکم سوچنے والے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں ہمیں سٹیٹس کو، کی حامی اور اس کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتیں، جمہوریت ، آزادی اور عدل وانصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والی اور ان کا راستہ روکنے والی قوتیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حامی اور اس کی مخالف قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ، مزاحم اور برسرپیکار نظر آتی ہیں۔ لیکن ایک طبقہ ہردور میں ایسا ہوتا ہے جو خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس کی رائے تو ہوتی ہے، وہ جمہوریت ، سچائی اور آزادی کے حصول اور سٹیٹس کو، کوتوڑنے والی قوتوں اور طبقے کے موقف کا حامی بھی ہوتا ہے۔ دل سے ان کے ساتھ بھی ہوتا ہے لیکن بظاہر غیرجانبدار رہتا ہے اور واقعات کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اپنی اپنی مصلحت ، عافیت ، مجبوری اور نوکری کی بکل مار کر بیٹھا رہتاہے۔ اسے صرف اپنے روزمرہ کے مسائل، کاروبار ، نوکری اور اہل اقتدار سے ملنے والے کسی نہ کسی ادنیٰ مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جس میں ہرایک کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے، وزارت، پلاٹ، اسمبلی کا ٹکٹ، رکنیت، چیئرمین شپ ، قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی، گاڑی، مراعات، خودمختار اور نیم خودمختاراداروں کی سربراہی، اولاد کی اچھی نوکریوں اور دوسرے ذاتی مسائل وغیرہ وغیرہ۔ کوئی نہ کوئی لولی پاپ ایسا ہوتا ہے جو مجبوری ، نوکری، مفاد یا مراعات کی شکل اختیار کرکے اسے خاموش اور غیرجانبدار رہنے پر مجبور کردیتا ہے اور اگر کسی کے اندر بیٹھا ہوا، سویا ہوا شخص جھرجھری لے کر اٹھ بیٹھے اور اسے اپنا کردار بھی یاد آجائے تو اسے کسی نہ کسی مجبوری اور مفاد کا لولی پاپ دے کر خاموش کرادیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں ایک 9مارچ آیا تھا جس کے بعد جہاں عدلیہ ، جمہوریت اور آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والی اور ان کا راستہ روکنے والی قوتوں کے مابین تصادم جاری ہے، وہاں یہ خاموش، تماشا دیکھنے والا اور غیرجانبدارطبقہ بھی کھل کر سامنے آیا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اس طبقے کے خاموش کردار میں بھی کوئی ایسی قوت ہے جو غلبہ پانے یا کم ازکم اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ طبقہ آہستہ آہستہ اکثریت حاصل کرتا جارہا ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ سچائی کی خاطر جدوجہد کرنے والی قوتوں کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں میں اضافہ ہورہا ہے اور بظاہر منزل دور ہوتی نظر آرہی ہے۔ کیا ہم اجتماعی طورپر کسی جرم کے مرتکب ہورہے ہیں یا ہمارے سماجی ڈھانچے میں غلامی، بے حسی، غیرجانبداری اور بکنے والی خصوصیات پر مبنی خمیر سے زندگی متشکل ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنا پڑیں گے۔ میں نے اس پر بہت سوچا ،سوچوں کے دائرے بنے، دائرے پھیلتے گئے اور یہ واقعہ میرے سامنے میرا منہ چڑانے آن کھڑا ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری تقرری ایک وفاقی وزارت کے ایسے پراجیکٹ میں ہوئی جو اقوام متحدہ کے ادارے کی مالی معاونت سے چل رہا تھا، لیکن انتظامی کنٹرول وزارت کے سینئر افسران کے ہاتھ میں تھا۔ کام آسان نہیں تھا۔ تھوڑے عرصے میں زیادہ نتائج کے لیے دن رات مشنری جذبے کے تحت کام کرنا تھا لیکن کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے سرکاری طریق کار اپنانا پڑتا۔ ایک انچ ہلنے اور ایک پن حاصل کرنے کے لیے بھی مختلف چینلز سے منظوری درکار تھی۔ پہلے دن سے ہی مختلف طریقوں سے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کا آغاز ہوگیا۔ فائلیں اعتراض لگاکر پہلے چینل سے ہی واپس آنا شروع ہوگئیں۔ میں نے ہمت نہ ہاری، کام جاری رکھا۔ کچھ کام اور اہداف میں نے بغیر پیسوں کے ، دوستوں کی مددسے پورے کر ڈالے۔ لیکن زیادہ عرصہ محض تعلقات کی بنیاد پر نہیں چلایا جاسکتا تھا۔ میں نے رکاوٹوں کی وجوہات تلاش کیں اور انہیں فنڈنگ ادارے کے نوٹس میں لے آیا۔ انہوں نے تسلی دی کہ صورت حال بہتر ہوجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں اخراجات کو کنٹرول کرنے کا ایک کڑا نظام موجود ہے۔ وزارت کے افسران نے بارہا یہ کوشش کی ہے کہ پیسے ہم ان کے حوالے کردیں چونکہ ہم جانتے ہیں کہ پیسہ کیسے خرچ ہوگا لہٰذا ہم نے پراجیکٹ کی مانیٹرنگ سخت کی ہوئی ہے۔ یہی بات ان کو بری لگتی ہے۔ اسی وجہ سے کئی بار یہ کوشش ہوئی ہے کہ پراجیکٹ بند کردیا جائے، لیکن اس کا مقصد بہت اہم ہے اور صحیح کام سے جادوئی نتائج پیدا کیے جاسکتے ہیں، لہٰذا اسے چلانا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ پراجیکٹ اسی صورت چلے گا کہ اس کا مالیاتی کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہو۔ میں نے کام تو جاری رکھا لیکن رکاوٹوں کا سلسلہ طول پکڑتا گیا۔ بالآخر میں نے وزارت کے سیکرٹری سے بات کی۔ اس نے بھی یقین دلایا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ آپ سکون سے کام کریں۔ لیکن مسائل ویسے ہی رہے۔ پہلے تو فائلوں پر رکاوٹیں تھیں اب ان کے لہجے بھی بدل گئے۔ انہوں نے مجھے مجبور کردیا کہ میں روٹین میں فائلیں بھیجتا رہوں۔ ذاتی رسم وراہ رکھنے کی ضرورت نہیں، صرف ایک بات مثبت تھی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے میری تنخواہ کبھی نہیں روکی تھی۔ مجھے ہر مہینے باقاعدگی سے تنخواہ مل جایا کرتی تھی۔ ایک مجرمانہ سا احساس اندر ہی مجھے ہردم کھائے جارہا تھا کہ کام نہیں ہورہا اور میں تنخواہ لیے جارہا ہوں۔ ایک دن میں تنگ آکر اس سرکاری افسر کے پاس چلا گیا، جس کے دستخطوں سے ہرقسم کی منظوری ہوتی تھی۔ میں نے اس سے اس صورت حال کی وجہ جاننے کی کوشش کی اور پوچھا کہ مجھے کام کیوں نہیں کرنے دیا جارہا تو اس کا جواب تھا۔ ’’آپ کن چکروں میں پڑے ہوئے ہو، کیا آپ کو تنخواہ مل رہی ہے ؟‘‘میں نے جواب دیا ’’وہ تو مل رہی ہے ۔‘‘ اس پر اس نے کہا ’’تنخواہ مل رہی ہے تو آرام سے بیٹھو۔ جب کام کرنا ہوا تو بتادیں گے ‘‘ ۔ میں نے ایک مہینہ انتظار کیا۔ جب صورت حال نہ بدلی تو استعفیٰ دے کر گھر آگیا۔ لیکن اس کے بعد میں نے جس ادارے میں بھی کام کیا، جہاں بھی رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے ہر فرد دوسرے کو یہ کہہ رہا ہے کہ ’’تمہیں تنخواہ مل رہی ہے نا، سکون سے بیٹھو، کن چکروں میں پڑتے ہو۔‘‘ اور آج یہ واقعہ یاد کرتے ہوئے مجھے یہ لگ رہا ہے کہ ہم بھی شاید اسی خاموش اور غیرجانبدار طبقے میں سے ہیں جس کے ہرفرد کی کوئی نہ کوئی تنخواہ لگی ہوئی ہے اور اسے سکون سے بیٹھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں