یہ طریق درست نہیں ہے‘ جو راستہ آغاز ہی سے غلط ہو اس میں رائیگانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ منیر نیازی نے کہا تھا ؎ تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا تو کیا عمران خان کی باقی سیاسی زندگی اسی قسم کی سیاسی شعبدہ بازیوں میں کٹے گی؟ کیا عمران جیسے سیاستدان کی ساری توانائیاں ملک اور خیبر پختون خوا کے حالات سنوارنے کے بجائے عدالتوں کے چکر لگانے، پریس کانفرنس کرنے، جوابات جمع کروانے اور غلطی پر اصرار کرنے میں صرف ہوجائیں گی؟ کیا قوم یہ برداشت کرلے گی کہ ایک کھرا، سچا اور دردمند سیاستدان اپنی غلطی پر ڈٹ جانے کے باعث نااہل ہوجائے گا؟ یہ کیسی انا اور ضد ہے۔ یہ کیسی سیاسی فراست اور تدبر ہے جو آپ جیسے سیاستدان کو عدلیہ کے ساتھ الجھائے رکھنے پر مجبور کررہا ہے۔ نہیں نہیں یہ غلطی ہے اور اس پر اصرار مزید غلطی۔ یہ کون لوگ ہیں جو عمران کو ایسے مشورے دے رہے ہیں۔ عمران کے مشیران کا بھی پتہ لگانا چاہیے۔ عمران کے منہ سے لفظ ’شرمناک‘ نکلا اور نکلا بھی عدلیہ کے لیے۔ تو اس پر مزید اصرار کیوں؟ کیا یہ غلط نہیں ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے وکیل کے ذریعے غیر مشروط معافی مانگ لی جاتی اور معاملہ ختم ہوجاتا۔ اس ساری مشق سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ ایک لائو لشکر کے ساتھ عدالت میں حاضری دی جائے۔ میڈیا اس کو Cover کررہا ہے اور فلمی ہیرو کی طرح یہ بیان دیا جائے کہ ’’میں معافی نہیں مانگوں گا خواہ مجھے نااہل قرار دے دیا جائے یا جیل بھیج دیا جائے۔‘‘ اگر ایک لمحے کو فرض کرلیں کہ ان میں سے کوئی ایک بات ہوجاتی ہے تو نقصان کس کا ہوگا؟ مخالف قوتوں کی تو خیر شروع دن سے یہی کوشش ہے کہ عمران سیاست سے آئوٹ ہو جائیں یا اس کی حکومت صوبے میں ناکام ہوجائے۔ ان قوتوں نے کام شروع کردیا ہے اور عمران کے نقادوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ چونکہ تحریک انصاف کی حکومت صوبے کے معاملات کو چلانے میں ناکام ہے بلکہ اہل ہی نہیں ہے لہٰذا عمران نے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سارا ڈرامہ کیا ہے۔ ڈی آئی خان جیل پر طالبان کے حملے اور قیدیوں کو رہا کرانے کے واقعے نے تحریک انصاف کی حکومت کی صوبے کے معاملات پر گرفت اور اہلیت پر بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ دیئے ہیں۔ اس لیے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بروقت صوبائی حکومت کو اس ممکنہ حملے سے آگاہ کردیا تھا لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت اسے روکنے میں ناکام رہی۔ عمران خان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس کی توجہ اور معاملات میں الجھی ہوئی ہے اور اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ جو ایک صوبہ نہیں چلا سکتے وہ ملک کیسے چلائیں گے۔ اب آتے ہیں دھاندلی کی شکایات کی طرف۔ عمران خان کے اس موقف میں کافی وزن ہے کہ مختلف حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اس کی شکایت مناسب فورم پر جمع کرا دی گئی ہے اور اسے کوشش کرنی چاہیے کہ ثبوت دے کر ان حلقوں میں دوبارہ پولنگ کے لیے حکومت کو مجبور کردیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سے جہاں عمران کو پارلیمانی تربیت کا موقع ملے گا‘ وہاں حکومت بھی دبائو میں رہے گی جس سے کرپشن اور اینٹی عوام کاموں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ عمران اگلے انتخابات کی تیاری اور اس میں کامیابی پر نظر رکھے کیونکہ موجودہ حکومت کے ڈیلیور نہ کرنے اور خیبرپختونخوا حکومت کی کامیابی کی صورت میں عمران خان نے ہی آئندہ حکومت بنانی ہے لیکن اس کے لیے اسے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ پہلے سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ دراصل خان صاحب کا المیہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک یہ بات ذہنی طور پر قبول ہی نہیں کر پائے کہ وہ اپوزیشن میں ہیں اور ان کی نشستیں قومی اسمبلی میں 30 ہیں اورانہیں وزیراعظم بننے کے لیے ابھی اور انتظار کرنا ہے۔ ویسے بھی عمران کے جلسوں میں غیر معمولی حاضری اور جوش وخروش کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ عمران کی جماعت دو تہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ انہیں ذہنی طور پر ہر قسم کے نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا۔ یہی حال ان کے نوجوان ووٹرز کا تھا۔ وہ بھی ایسے ہی نتائج دیکھ رہے تھے۔ الیکشن کے فوراً بعد میں امریکہ میں تھا‘ وہاں بھی لوگوں کی رائے اسی طرح کی تھی۔ وہ بھی یہی سوچ رہے تھے کہ عمران کو دو تہائی اکثریت ملے گی‘ لہٰذا خاصے مایوس لگ رہے تھے۔ لیکن میری اپنی رائے مختلف ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ خدا نے عمران کو کامیابی عطا فرمائی ہے کہ اسے ایک صوبے میں حکومت عنایت کی ہے اور قومی اسمبلی میں بڑی پارٹی کے طور پر شناخت بخشی ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کی گزشتہ اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں تھی اور خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ اصل ووٹرز کو گھر سے نکال کر پولنگ بوتھ تک لائے ہیں۔ ایک گھر کے اندر ووٹوں کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ نوجوانوں کو متحرک کیا ہے اور لوگوں کو تبدیلی کے لیے تیار کیا ہے۔ لوگوں کے اندر روایتی سیاستدانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا ہے سو میری مخلصانہ خواہش ہے کہ ان کو ان بکھیڑوں میں پڑنے کی بجائے اپنی توانائیاں ملک اور صوبے کی بہتری کے لیے صرف کرنی چاہئیں۔ اس ملک اور قوم کو عمران خان جیسے سیاستدان اور لیڈر کی ضرورت ہے اور یہ قوم انہیں ان ادنیٰ ایشوز میں الجھے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی جس میں اس کے مشیران اور دشمنوں نے انہیں پھنسا دیا ہے۔ عمران خان اس سماج کے منظر نامے پر تبدیلی کی علامت کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کے ساتھ کروڑوں دلوں اور نگاہوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ امیدیں ان کے چاہنے والوں کی نگاہوں میں اسی صورت میں روشن رہ سکتی ہیں جب وہ اپنے اس دور اقتدار اور دور حزب اختلاف میں ڈیلیور کرکے دکھائیں گے۔ اگر جمود کے آسمان پر، تبدیلی کا استعارہ بن کر سامنے آنے والا یہ ستارہ بھی بدقسمتی سے کچھ نہ کرسکا اور اس نے اپنی توانائیاں نان ایشوز پر لگائے رکھیں تو اس تعفن زدہ اور دیمک زدہ نظام کو گرنے میں درکار وقت میں مزید کمی آتی جائے گی۔ یہی اس ملک کے دشمنوں کی بھی کوشش ہے اور عمران کے بدخواہ تو خیر چاہتے ہی یہی ہیں۔ کوئی ہے جو جائے اور جا کر عمران خان کے سامنے یہ گزارشات دست بستہ پیش کردے۔