جسٹس مرکنڈے کی ہرزہ سرائی اور قرآن حکیم کا اعجاز

میں لکھنا تو چاہتا تھا الطاف حسین کے اس بیان پر کہ فوری طور پر ملک میں نئے صوبے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک بروقت مطالبہ ہے اور نئے صوبوں کی جتنی ضرورت آج اس ملک کو ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی، لیکن اس پر بات کل کریں گے ،پہلے پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ مرکنڈے کٹجو کی ہرزہ سرائی پر بات ہوجائے جو انہوں نے ایک سیمینار میں کی تھی۔ یہ بات اگرچہ کچھ پرانی ہے لیکن بھارتی میڈیا میں اس کی گونج اور ہائو ہو مسلسل جاری ہے۔ میڈیا ٹاک کرتے ہوئے مرکنڈے نے کہا تھا ’’پاکستان ایک جعلی اور مصنوعی ملک ہے اور ایک دن پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش پھر سے ایک ملک بن جائیں گے۔ برصغیر کی تقسیم انگریز کی سازش تھی تاکہ ہندو اور مسلم آپس میں لڑتے رہیں۔ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ میں پاکستان کو نہیں مانتا۔ 15 سے 20 سال کے اندر دونوں ملک پھر سے ایک ہوجائیں گے اور یوں مسئلہ کشمیر بھی حل ہوجائے گا۔‘‘ مرکنڈے اپنے مختلف مضامین میں بھی ایسی باتیں لکھتا رہا ہے۔ موصوف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ 90فیصد بھارتی ایڈیئٹ ہیں اور ہندوئوں اور مسلمانوں میں 80فیصد فرقہ واریت کا شکار ہیں۔ جی تو یہ چاہتا ہے کہ اس پر توجہ ہی نہ دی جائے کہ اس طرح کی آوازیں وہاں بکثرت پائی جاتی ہیں اور متوازن اور حقیقت پسند لوگ ان پر وہاں توجہ بھی نہیں دیتے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندو ذہن اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ اپنی اس بات کو کسی نہ کسی بہانے زبان پرلاتے رہتے ہیں۔ ان کے نہاں خانۂ دل میں یہ خواہش بلکہ حسرت کہیں نہ کہیں سلگتی رہتی ہے کہ ایک دن یہ دونوں ملک پھر سے ایک ہو جائیں گے۔ صحافی ہوں کہ سیاستدان، جج ہوں یا بزنس مین، استاد ہوں کہ دانشور، سبھی ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ میں جب بھی بھارت گیا اور جس شہر میں بھی گیا وہاں کے صحافیوں، دانشوروں، لکھاریوں، شاعروں، سیاستدانوں، کاروباری طبقوں اور ریڈیو، ٹی وی کے میزبانوں کے پاس ایک ہی سوال تھا کہ جب ہماری ثقافت، تاریخ اور بودو باش ایک سی ہے، صدیوں سے ہم ایک ساتھ رہ رہے تھے تو پھر یہ مصنوعی دیواریں کیوں بن گئی ہیں۔ ان دیواروں کوڈھا دینا چاہیے۔ یعنی پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ اسی لیے جب کسی فورم پر امن قائم کرنے، تنازعات طے کرنے کی باتیں ہوتیں اور آپس کے تعلقات کو فروغ دینے پر بحث ہوتی تو ہمارا ہر جگہ یہی موقف ہوتا کہ پہلے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے، وجود تسلیم کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی ،اورنہ باہمی تنازعات ہی طے ہوسکتے ہیں۔ اب جسٹس مرکنڈے کو کون بتائے کہ آپ جیسے متعفن اور بدبودار لوگوں کے جھٹلانے سے حقیقت بدل نہیں جایا کرتی۔ سچ کو جھوٹ میں نہیں منقلب کیا جاسکتا، روشنی کو تاریکی نہیں کہا جاسکتا۔ ان جیسے کتنے آئے اور چلے گئے لیکن یہ ملک ان کی گندی خواہشات کے مطابق نہ تو ختم ہوسکا اور نہ بھارت میں شامل ہوا۔ یہ ملک ہمیشہ رہنے کے لیے بنا ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی ہے۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں سے روشنی اور نور کے چشمے پھوٹیں گے اور پوری دنیا اس رنگ و نور میں نہا جائے گی۔ اس قوم کا پوٹینشیل کسی بھی قوم سے کم نہیں ہے۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں وجود میں آنے والے اس ملک کو خدا نے ایٹمی طاقت بنایا ہے۔ اسے یہ کون بتائے کہ یہ ملک انگریز کی سازش سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے اور انگریز قائداعظم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔ کوئی ہے جو مرکنڈے کو جا کر بتائے کہ آپ جو چاہیں کہتے پھریں، آپ بھی اسی طرح اپنی تعفن زدہ گفتگو سمیت ختم ہو جائیں گے لیکن یہ ملک اور قوم باقی رہے گا۔ قرآن حکیم کا ایک اور اعجاز ویسے تو خدائے بزرگ و برتر کی آخری کتاب جو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے خود بہت بڑا معجزہ ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے پھوٹنے والی روشنی مختلف شکلوں میں سامنے آتی جارہی ہے کہ عقل اسے دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال پورے قرآن حکیم کا غیر منقوط تفسیری ترجمہ ہے یعنی پورے ترجمے میں ایک بھی نقطہ استعمال نہیں ہوا۔ یہ پوری دنیا میں پہلا غیر منقوط ترجمہ ہے، جسے کرنے کی سعادت معروف سکالر، محقق اور استاد ڈاکٹر طاہر مصطفی نے حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لاہور کی ایک یونیورسٹی سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے اس کام نے ثابت کردیا ہے کہ قرآن مجید کا کوئی لفظ یا حرف چھوڑے بغیر پورے قرآن کا ایسا ترجمہ ہوسکتا ہے جس میں کوئی نقطے والا لفظ استعمال نہ ہوا ہو اور مفہوم بھی نہ بدلے۔ حالانکہ قرآن پاک میں ’’نہی‘‘ کی آیات بھی ہیں جن کو غیر منقوط اسلوب میں ڈھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس کام کی بدولت ادب القرآن یعنی لٹریچر آف قرآن میں ایک اور صنف کا آغاز ہوا ہے۔ آج سے 428 سال پہلے ابو الفضل فیضی نے قرآن حکیم کا غیر منقوط ترجمہ شروع کیا تھا جو نامکمل رہا مگر اردو زبان جو لفظی اعتبار سے تنگیٔ داماں کا بھی شکار ہے، میں بلاشبہ ترجمہ ایک اہم کام ہے۔ غیر منقوط زبان میں سیرت کی کتاب مولانا مفتی محمد شفیع کے فرزند، مولانا ولی رازی نے تحریر کی تھی جو اپنی جگہ نادر مثال ہے مگر اردو زبان میں غیر منقوط ترجمہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارے میڈیا نے ڈاکٹر صاحب کے اس کام کو ،جو ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے ،توجہ کے قابل نہیںسمجھا۔ کسی فلم، فیشن، گانے یا کھیل میں کوئی عالمی ریکارڈ بنتا یا کسی شوبز کی شخصیت کو کوئی کانٹا ہی چبھ جاتا تو میڈیا ہفتوں شور مچاتا رہتا لیکن قرآن اور اسلامی امور میں تحقیقی کام کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں