ریاست کہاں ہے؟

میرے احباب خواہ میں ملک میں ہوں یا بیرون ملک‘ ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے لیکن ایک دوسرے کو جانتے بوجھتے ہوئے آج تک یہ محسوس نہیں ہوا یا محسوس نہیں کرایا کہ مسالک مختلف ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو مختلف مسالک کے بارے میں‘ جن میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں‘ لطیفے سناتے اور محظوظ ہوتے۔ کہیں افطار پارٹیوں میں اکٹھے ہوتے تو رواداری اور احترام کے پیش نظر کبھی ہم دس منٹ بعد ان کے ساتھ افطار کر لیتے اور کبھی وہ دس منٹ پہلے ہمارے ساتھ شریک ہو جاتے۔ ابھی جب میں امریکہ میں تھا تو اپنے میزبان دوستوں کے ساتھ مختلف امام بارگاہوں میں نماز جمعہ اور دوسری نمازیں ادا کرتا رہا۔ لیکن میرے وہ دوست جن کا تذکرہ میں کر رہا ہوں‘ وہ اب ویسے نہیں رہے جیسے پہلے تھے۔ اب وہ مسلکی وابستگی کو زیادہ اہمیت دینے لگ گئے ہیں۔ اب وہ فوراً جذباتی ہو جاتے ہیں‘ ان کے لہجے اور موقف میں شدت آ جاتی ہے اور وہ بے لچک ہو جاتے ہیں۔ افطار بھی ایک ساتھ نہیں کرتے۔ یہی حال ہمارے سنی دیوبندی دوستوں کا ہے۔ وہ بھی بدل چکے ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ کسی بھی ایشو پر بات کی جائے تو ان کے پاس سو سو طرح کی دلیلیں ہوتی ہیں‘ ہزار طرح کی باتیں ہوتی ہیں جن کا عقل کے ساتھ دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ تھوڑی سی بات چھیڑ دی جائے تو مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ آخر ان دس بارہ برسوں میں کیا ہوا۔ ہوائے زمانہ میں آخر کون سی باس شامل ہوئی جس نے پورے ماحول کو ہی بدل دیا۔ پورا چمن ہی اپنا چلن بھول گیا۔ رواداری‘ وضع داری‘ برداشت اور بھائی چارا جیسے خوشنما اور خوشبودار پھول اس چمنستاں سے کہاں سدھار گئے۔ کون ہے جو اس شیریں آب و ہوا میں زہر گھول گیا۔ کس نے اس ملک کو بارود کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کس نے ایک بہت بڑے لکھاری کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا تھا اور مذہب کے نام پر ہی اس کے ٹوٹنے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ ایسا کیا ہوا۔ یہ کہانی ضیاء الحق نے شروع کی تو بعد میں اسے کس کس نے پروان چڑھایا۔ نفرتوں کے بیج کس نے بوئے‘ عدم برداشت کے نظریئے کو کس نے ہوا دی‘ تکفیر اور تبریٰ کو کس نے فروغ دیا۔ ایک دوسرے کو کافر اور گردن زدنی قرار دینے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا۔ ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرنے کا جذبہ کیسے پیدا ہوا۔ کسی نے پوچھا کہ تکفیر کا حق کس نے دیا؟ کسی نے پوچھا کہ سرعام اپنی تقریروں اور کتابوں میں صحابہ کرامؓ پر تبریٰ کا حق کس نے دیا؟ کسی نے پوچھا کہ نفرت انگیز لٹریچر کیوں شائع ہوتا ہے؟ زہر بھرے خطباتِ جمعہ اور دوسرے مواقع پر ایک دوسرے کو مار دینے‘ کافر کہنے اور ملک بدر کرنے کے حوالے سے آتش بار تقاریر کا حق کس نے دیا؟ کسی کو کیوں حق حاصل ہے کہ وہ قوم کو فرقہ واریت‘ تکفیر‘ تبریٰ‘ نور اور بشر وغیرہ کے معاملات میں الجھا کر ایک دوسرے کا دشمن بنا دے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمام فرقوں میں صحیح معنوں میں عالم فاضل لوگوں کی کمی نہیں‘ جو ہر لحاظ سے متوازن‘ معتدل اور بہتر لوگ ہیں۔ وہ ایسی باتوں کو کبھی سند جاری نہیں کرتے۔ لیکن ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اپنے متبعین مقررین‘ علماء‘ ذاکرین اور دوسرے لوگوں کو ایسی باتوں سے روکا بھی نہیں۔ سانحہ راولپنڈی کی بازگشت اور اثرات ابھی باقی ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ کون قصوروار ہے۔ انتظامیہ کا کتنا قصور ہے لیکن یہ واقعات اسی طرح ہوتے رہیں گے‘ قتلِ عام جاری رہے گا‘ آگ اور بارود کا کھیل اسی طرح گرم رہے گا جب تک ریاست اپنے فرائض کو نہیں پہچانتی۔ ریاست کو اب اس مسئلے کے حل کے لیے آگے آنا ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ریاست ملک میں مذہبی معاملات اور خود مذہب کو لوگوں کی زندگی میں بہتری پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے۔ ریاست کو فرقہ واریت‘ مساجد‘ امام بارگاہوں‘ تقاریر‘ خطباتِ جمعہ‘ مجالس‘ آئمۂ مساجد کا تقرر‘ نصاب اور مذہبی لٹریچر پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا ہوگا۔ فوری طور پر لائوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ پابندی مساجد‘ امام بارگاہوں اور تمام دوسری عبادت گاہوں کے لیے یکساں طور پر لگائی جائے۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں خطباتِ جمعہ اور مجالس میں کی جانے والی تقاریر کے متن کی حکومت سے منظوری لی جائے۔ آج کل جس جگہ قبضہ کرنا ہو وہاں مسجد بنا دیتے ہیں اور پھر وہاں مذہب کے نام پر چودھراہٹ کرنے والا مافیا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے سخت پالیسی اپنائی جائے۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں آئمہ کرام کی تقرری حکومت کرے اور اس کے لیے سخت اور کڑا معیار مقرر کیا جائے۔ تمام قسم کے نفرت انگیز اور دلآزاری پر مبنی لٹریچر کی اشاعت پر پابندی لگا دی جائے اور پہلے سے موجود طبع شدہ ا ور سی ڈیز پر مشتمل مواد ضبط کر لیا جائے۔ نفرت انگیز اور اشتعال آمیز تقاریر کرنے اور اس قسم کا مواد شائع کرنے پر سخت سزا دی جائے۔ ہر قسم کے فرقوں پر جلوس نکالنے کی پابندی لگا دی جائے اور انہیں اپنے شعائر ادا کرنے کے لیے مخصوص علاقہ دے دیا جائے۔ میڈیا کو مذہبی معاملات اور تنازعات کو زیادہ کوریج دینے اور ہوا دینے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہر قسم کی مذہبی کانفرنسوں اور اجتماعات پر پابندی لگا دی جائے۔ مدرسوں کے نصاب کو چیک کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جائے جو ان کو بہتر کرنے کے لیے تجاویز دے اور نفرت انگیز مواد کو نصاب سے خارج کردیا جائے۔ مدارس کو ملنے والی امداد کے حساب کتاب کی نگرانی کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے تاکہ ان کا سالانہ آڈٹ کرایا جا سکے۔ اگر ریاست نے اب بھی مصلحت کوشی اور مجرمانہ خاموشی سے کام لیا تو خاکم بدہن کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ملک آتش و بارود کا ایسا ڈھیر بن جائے جس کی حسرت ملک دشمن سینوں میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ کاش اس ملک کے دُنیادار علماء کو کوئی یہ بتا دے کہ اگر یہ ملک ہی نہ رہا تو پھر ان کی آتش بار تقریریں رہیں گی نہ کفر کے فتوے‘ ان کے خطبے رہیں گے نہ انہیں بڑے بڑے القابات اور خطابات سے نوازنے والے۔ ان کے عمامے رہیں گے نہ کوئی جبہ و دستار سلامت رہے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں