حافظے کی لوح ایسے واقعات‘ کرداروں اور ناموں سے بھری پڑی ہے جو کسی نہ کسی طرح قوم کی قسمت پر اثرانداز ہوئے۔ جن کے ''کارناموں‘‘، فیصلوں اور سازشوں سے ہماری زندگیوں کے تانے بانے بُنے جاتے رہے۔ میرے سینے میں کتنی ہی ایسی یادیں نقش ہیں اور میری آنکھ کی پُتلی پر کتنے ہی ایسے مناظر ثبت ہیں جنہیں تخلیق کرنے والے کردار کسی نہ کسی حوالے سے یاد رکھے جانے کے قابل ہیں؛ تاکہ سبق حاصل کیے جا سکیں اور عبرت پکڑی جا سکی۔ اس عبرت سرائے دہر میں یہ کردار‘ واقعات اور مناظر گم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر میرے حافظے کی سلیٹ سے مٹ کر تحلیل ہو گئے اور کچھ اس عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ سارے کردار ہدایت کار کی ہدایات کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے موزوں نقاب پہنے سٹیج پر آتے رہے اور مخصوص وقت کے بعد پردے کے پیچھے گم ہوتے رہے۔ تماشا دیکھنے والوں کو یہ کردار کچھ عرصہ تو یاد رہے اور ان کی خواہش بھی تھی کہ انہیں ڈھونڈا جائے لیکن یہ محض ایک حسرت ہی رہی جسے دل میں چھپائے کچھ تو عدم کو سدھار گئے اور کچھ ابھی تک انہیں دیکھنے اور تلاش کرنے کے خواب آنکھوں میں لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ ان سب کو ڈھونڈا جائے جو اس قوم کی قسمت کے ساتھ کھیلتے رہے۔ اپنے وعدوں اور نعروں سے دھوکہ دیتے رہے۔ میں چاہتا تو یہ تھا کہ اپنے آپ کو زیادہ مشکل میں نہ ڈالوں اور صرف ماضی قریب یعنی گزشتہ دس بارہ سال کے عرصے میں گم ہو جانے والے کرداروں کو ڈھونڈا جائے لیکن کیا کیا جائے کہ تاریخ کے طوفان نے میری یادداشت کو آغازِ سفر کی طرف دھکیل دیا ہے۔
ہمیں آج تک اس شخص کا سراغ نہیں مل سکا جو قائداعظمؒ کی بیماری کے دوران انہیں زیارت سے کراچی لانے کے لیے خراب ایمبولینس بھیجنے اور پھر ناقابلِ بیان تاخیر کے بعد دوسری گاڑی بھیجنے کا ذمہ دار تھا۔ اس قوم کو تلاش ہے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو مارنے والے کے اصل چہرے کی‘ جو وقت کی دھول میں کہیں گم ہو گیا ہے۔ اسے تلاش ہے ان اصل کرداروں کی‘ جنہوں نے غلام محمد‘ سکندر مرزا اور یحییٰ خان جیسے عیاش اور ذہنی طور پر معذور حکمرانوں کو مسلط کرنے میں مدد دی‘ جنہوں نے ایوب خان کو مارشل لاء لگانے کی ترغیب دی اور پھر سیاستدانوں کو اس کا دُم چھلا بنا دیا۔ تلاش ہے ان لوگوں کی جنہوں نے 1965ء کی جنگ چھیڑی۔ اس قوم کو تلاش ہے ان کرداروں کی جن کی سازشوں کے تانے بانے سے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کردیا گیا۔ اسی قوم کو تلاش ہے اس جرنیل کی جس نے پلٹن میدان میں دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکے اور اس کردار کی جس کے حکم پر یہ ذلّت آمیز منظر دیکھنے کو نصیب ہوا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ مجبوراً سامنے لانا پڑی لیکن کسی کو سزا نہ ہو سکی۔ رفتہ رفتہ جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی جیسے مکروہ لوگ یادداشتوں سے نکلتے گئے اور گوشۂ گمنامی میں اپنی موت آپ مر گئے۔ قوم کو آج تک پتہ نہ چل سکا کہ نظامِ مصطفی کی تحریک کے پیچھے کون سی قوتیں سرگرمِ عمل تھیں اور ان لوگوں نے عوام کے ساتھ کیوں دھوکہ کیا؟ اس قوم کو تلاش ہے ان ججوں کی جنہوں نے کسی کے دبائو پر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔ ان آئینی بزرجمہروں اور ججوں کی جنہوں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو آئینی جواز فراہم کیا۔ وقت کی دھول میں وہ کردار بھی گم ہو گئے جنہوں نے 1948ء‘ 1965ء‘ 1971ء اور کارگل کی جنگیں شروع کیں۔ یادداشت کی تختی پر سے وہ لفظ بھی گر گئے جو ضیاء الحق کو مردِ مومن اور سوویت یونین کے جنگ کو اسلامی جہاد قرار دیتے رہے اور جو اس ملک کو 30 لاکھ مہاجرین‘ کلاشنکوف کلچر‘ منشیات اور بم دھماکے تحفے میں دے گئے۔ یہ قوم ابھی تک اوجڑی کیمپ سانحے کے ذمہ داران کو بھی ڈھونڈ رہی ہے۔ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے ذمہ داران بھی ابھی تک نہیں مل سکے۔ پھر 12 اکتوبر تک کہانی آ گئی۔ کچھ ہائی جیکر بن گئے اور کچھ حکمران۔ یوں تاریخ کے اوراق پر کہانی نئے سرے سے لکھی جانے لگی اور مختلف چہرے نئے ٹکڑوں میں بٹ کر بے چہرگی کے نشان چھوڑ گئے۔ تصورات دھندلا گئے‘ بصارتیں اور سماعتیں جواب دے گئیں۔ منظر روٹھ گئے۔ اس قوم کے حصے میں کئی ایسے کردار بھی آئے جو اچانک لمبی ٹوپیاں پہن کر مسخروں کی طرح سٹیج پر نمودار ہوئے اور پردے کے پیچھے ہدایت کاروں کی ہدایات کی روشنی میں اپنا کردار ادا کر کے غائب ہو گئے۔ معین قریشی کو امپورٹ کیا گیا اور پھر اس کی شکل آج تک کسی نے نہ دیکھی۔ کسی کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ فوج نے اور آئی ایس آئی نے آئی جے آئی کیوں بنائی اور صدر اسحاق نے ایسا کیوں کیا؟ یہیں پر ایک صاحب ہوتے تھے سیف الرحمن جن کا ایک طنطنہ تھا‘ دہشت تھی پھر وقت نے ان کی آنکھوں میں آنسوئوں کی برسات دیکھی۔ کچھ پتہ نہیں وہ کہاں ہے۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ نوازشریف کو‘ پرویز مشرف کو ہٹانے اور جنرل ضیاء الدین کو بڑی عجلت میں آرمی چیف بنانے کا مشورہ کس نے دیا۔ قوم کو ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ جنرل مشرف کی شروع کی ہوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی ہے یا کسی اور کی۔ اس نے اس جنگ کے بدلے کتنے لوگ امریکہ کے حوالے کیے اور کتنے ڈالر وصول کیے۔ وہ کردار بھی رفتہ رفتہ غائب ہوتے جا رہے ہیں‘ جنہوں نے جنرل مشرف کو وردی میں سوبار صدر منتخب کرنے کے دعوے کیے تھے۔ معین قریشی کی طرح ایک اور ماہر معیشت اور بینکار کو درآمد کر کے وزیر خزانہ اور وزیراعظم بنایا گیا۔ وہ شخص اس ملک کی معیشت کے ساتھ کھیلتا رہا‘ غلط اعدادو شمار پیش کر کے قوم کو گمراہ کرتا رہا اور پھر اچانک غائب ہو گیا۔ اگر ہو سکے تو اسے بھی ڈھونڈا جائے۔
9 مارچ 2007ء کو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے حرفِ انکار سے جنم لینے والی عدلیہ کی آزادی کی تحریک نے اس ملک اور قوم کی قسمت کو بدل دیا۔ اسی تحریک کے نتیجے میں عدلیہ بحال ہوئی۔ سیاسی قیادت وطن واپس آئی۔ جنرل مشرف نے وردی اتاری۔ صدارت سے مستعفی ہوئے۔ اس تحریک میں شامل کردار آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہو گئے۔ چیف جسٹس کا ڈرائیور اعتزاز احسن اب کہاں ہے۔ آتش نوا علی احمد کرد کہاں ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اعتزاز احسن اور علی احمد کرد کا افتخار احمد چودھری کہاں ہے؟ قوم کو یہ بھی پتہ نہیں چل سکا کہ ایبٹ آباد آپریشن کی اطلاع کس کو دی گئی تھی؟ اور اگر نہیں دی گئی تھی تو اس کی کیا وجوہات تھیں۔ قوم کو تلاش ہے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی جنہیں گزشتہ پانچ سال کے دوران ان کی اپنی حکومت بھی ڈھونڈنے میں ناکام رہی یا جانتے ہوئے بھی ان کو پکڑا نہیں گیا۔ قوم کو تلاش ہے اس نوازشریف کی جو حکومت میں آنے سے پہلے قوم کے کشکول کو توڑنے کی بات کرتے تھے اور یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ شعر بھی بھول گئے اور تقریریں بھی اور آتے ہی سب سے پہلے آئی ایم ایف سے اپنا کشکول بھروایا۔ گمشدگان کی فہرست میں ایک اور اضافہ پرویز مشرف کا ہے جو بہت جلد گم ہو جانے والے ہیں۔ کچھ گمشدگان کا انوکھا مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی چل رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کتنے سامنے آتے ہیں اور کتنے بے نامی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑے رہیں گے۔ اس سے پہلے کہ میری یادداشت کی تختی سے اس کے نام کے لفظ بھی گر جائیں۔ میں اس گمشدہ کو یاد کرتا چلوں جس کا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جو گزشتہ نو سال سے امریکہ کی قید میں ہے۔