دوسروں کے ٹکٹ پر سفر کرنے والے

وہ قہقہہ بار واقعہ کالم کے آغاز میں ہی سنائے دیتا ہوں جو آج مجھے بُری طرح یاد آ رہا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی آئی اے سے سفر کے دوران شناختی کارڈ نہیں دیکھا جاتا تھا اور عموماً مسافر بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کے نام پر بھی سفر کر لیا کرتے تھے۔ اتنا التزام ضرور رکھا جاتا تھا کہ مرد کے نام کی ٹکٹ پر کوئی دوسرا مرد ہی ہو اور عورت کے نام کے ٹکٹ پر کوئی عورت ہی سفر کر رہی ہو۔ ایک دفعہ ایک مشاعرے کے سلسلے میں چند شعراء بشمول احمد فراز کسی دوسرے شہر ہوائی جہاز کے ذریعے جا رہے تھے ، غالباً پشاور سے جہاز نے اڑنا تھا۔ عین وقت پر کسی وجہ سے معروف شاعر خاطر غزنوی کو کسی اور کے ٹکٹ پر سفر کر کے مشاعرے میں جانے کے لیے شعراء کے ساتھ ہمسفر بننا پڑ گیا۔ راستے میں موسم کی خرابی کے باعث جہاز ڈولنے لگا۔ اس صورتِ حال میں خاطر غزنوی بہت ڈر گئے اور جب دورانیہ تھوڑا طویل ہوا تو ان کا خوف بھی زیادہ ہو گیا۔ ساتھ بیٹھے احمد فراز نے انہیں کہا: ''خاطر تم کیوں ڈرتے ہو، تمہارا تو نام ہی مسافروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے ، مرے گا تو وہ جس کے نام کا ٹکٹ بنا ہوا ہے‘‘۔
مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ حکمران کسی اور کے نام کے ٹکٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس ڈولتے ہوئے جہاز میں خوف اور سراسیمگی کی کیفیت میں ہیں اور شاید کبھی کبھی کوئی انہیں یہ کہہ کر حوصلہ دے دیتا ہے کہ ان کا نام تو مسافروں کی فہرست میں شامل ہی نہیں، پھرخوف کاہے کا ! یوں وہ ایک مرتبہ پھر اسی انجانے خوف اور بے حسی کی کیفیت میں اپنا سفر جاری رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 
کوئی فرق نہیں ایک بے اختیار صدر اور بظاہر بااختیار وزیراعظم میں ۔ جس حکومت کا سربراہ محض علامتی اور نمائشی طور پر نظر آ رہا ہو اور اہم فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بظاہر عاری ہو، وہاں حکومت نام کی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز سفر سے لے کر آج تک یہ حکومت کوئی بڑی پالیسی بنا سکی ہے اور نہ کسی ایشو پر بڑا اور بروقت فیصلہ کر پائی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا مذاکرات کا فیصلہ‘ سکیورٹی پالیسی کی تیاری اور منظوری ہو یا توانائی کے بحران سے نمٹنے کا چیلنج‘ اداروں کے سربراہان کا تقرر ہو یا کسی کو اداروں سے نکالنے کا عمل ‘ یوں لگتا ہے جیسے کسی بھی ایشو پر حکومت نے ہوم ورک کیا ہے اور نہ کرنے کی کوئی خواہش موجود ہے۔ ایک فیصلہ کرتے ہیں ،اور اگلے دن اسے ختم کر دیتے ہیں۔ سکیورٹی پالیسی مشکل سے بنتی ہے ، پھر اس کی منظوری نہیں ہوتی۔ طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں لیکن نہیں ہوتے۔ مولانا سمیع الحق کو مذاکرات شروع کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے لیکن وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اداروں کے سربراہان کے تقرر کے لیے مہینوں کے غوروخوض کے بعد ایک کمیشن تشکیل پاتا ہے تاکہ اس عمل کو شفاف رکھا جا سکے لیکن بعد میں کئی مہینوں کے بعد اس کمیشن کو تحلیل کردیا جاتا ہے اور ادارے اسی طرح بغیر کسی سربراہ کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ 
ایک ایڈہاک ازم ہے ، خوف ہے ، بادشاہت ہے۔۔۔ یوں لگتا ہے مقصود بالذات محض وزارتِ عظمیٰ کا حصول تھا ، چونکہ وہ مل چکا ہے لہٰذا کچھ ڈیلیور کر سکیں یا نہ کر سکیں اس قوم کے زخموں اور دکھوں کے مداوے کا کچھ سامان کر سکیں یا نہ کر سکیں‘ زرداری صاحب کی طرح پانچ سال پورے کرنے ہیں‘ جس کی حسرت میاں صاحب کے دل میں ایک چبھن کی طرح ہمیشہ سے موجود ہے۔ آخر کس قسم کا خوف ہے جو دامن گیر ہے۔ کس قسم کی احتیاط ہے جو کچھ کرنے نہیں دے رہی۔ کس قسم کے اندیشے ہیں جو دل کے گرداگرد کُنڈلی مار کے بیٹھے ہوئے ہیں اور جو کچھ بھی نہیں کرنے دے رہے۔ میاں صاحب کے قریبی حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان کے ریفلیکسز اب سست ہو چکے ہیں ، لہٰذا وہ جلدی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ دہشت گردی کنٹرول میں ہے نہ مہنگائی۔ عام آمی کے لیے کوئی ریلیف ہے نہ تاجر طبقے کے لیے ، سارا بوجھ غریب آدمی پر پڑ رہا ہے۔ سرمایہ کاری صرف اور صرف ہائوسنگ سکیموں اور پلازوں میں 
ہو رہی ہے ، شاپنگ مال بنانے میں ہو رہی ہے ، سو چند لوگ اپنے پیسے اور دولت کو راتوں رات سو گنا کرتے جا رہے ہیں اور تنخواہ دار طبقہ اپنی تنخواہ بچوں کی فیس اور یوٹیلٹی بل دے کر ختم کر بیٹھتا ہے۔ کیا یہی اشاریے ہیں کسی قوم کی ترقی کے؟ کیا وزیراعظم صرف قرضہ سکیم جیسے گھِسے پٹے منصوبے کی تقریبات میں خطاب کرنے اور نوجوانوں کی مجبوریوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے رہ گئے ہیں ۔ یہ کام تو اب بینکوں کے کرنے کا ہے، وزیراعظم کے پاس کیا اتنا زیادہ وقت ہے کہ وہ محض مریم نواز کی تربیت کے لیے جلسوں سے خطاب کرتے پھریں۔ ملک جل رہا ہے‘ سینکڑوں کی تعداد میں سکیورٹی اہلکار‘ عام معصوم آدمی اور بچے مارے جا رہے ہیں لیکن کوئی پالیسی نہیں‘ کوئی عزم نہیں۔ بادشاہت کے یہ انداز کب تک چلیں گے۔ ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہ کے باعث کتنے ہی نااہل سربراہ مزے کر رہے ہیں۔ 
اگر یہی صورتِ حال رہی تو کہیں خاکم بدہن ایسا نہ ہو کہ اچانک اصل مسافر آ دھمکے یا ٹکٹ چیک کرنے والے آ کر ان سے کہہ ڈالیں کہ آپ چونکہ غلط ٹکٹ پر سفر کر رہے ہیں لہٰذا سیٹ خالی کر دیجیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں