یہ ''پیارے‘‘ کا لفظ میں نے محاورتاً لکھا ہے۔ یہ لفظ ہم ایسے لکھاری لوگ ترانوں اور ملی نغموں میں استعمال کرتے ہیں تاکہ ایسے خوش کن طرزِ تخاطب اور لچھے دارالفاظ سے قوم کے اندر جوش پیدا کیا جا سکے ، لہوگرم رکھا جا سکے ، بیدارکیا جا سکے ورنہ تم پیارے ہوتے تو ہم تم کو کبھی یوں بے یارومدد گار مرنے نہ دیتے۔ تمہاری خبر تو ہمیں تب ملی جب تم بھوک اور قحط سے روٹی کے ٹکڑے کے لیے سسک سسک کر اپنے خالق کے پاس جا چکے تھے۔ خبر بھی میڈیا کے ذریعے ملی، اگر میڈیا پر یہ خبرنہ چلتی تو یہ مہذب دنیا بھلا کیسے جان پاتی کہ تم بھی کہیں رہتے تھے ، تمہارا بھی کوئی وجود تھا، تم بھی کوئی دو ٹانگوں والی انسان نما مخلوق تھے، تم بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دور دراز خطوں میں رہنے والے ایسے لوگوں کے بچے تھے جن کے نام ووٹ دینے والوں کی فہرست میں شامل تھے۔ ہاں مجھے یاد آیا، میں تو بھول ہی گیا کہ سندھ کا وہ علاقہ بھی پاکستان کے نقشے پر موجود ہے جہاں تم اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے۔ تمہارے ماں باپ تو سخت جان تھے اس لیے بچ گئے، تم کمزور تھے، ابھی تمہاری ہڈیاں مضبوط نہیں ہوئی تھیں، ابھی تو ان ہڈیوں میں پوری طرح گودا بھی نہیں آیا تھا، ابھی تو تم اس قابل بھی نہ تھے کہ کچھ اور سوچ سکتے، یا تمہارے پاس کوئی اور آپشن ہو سکتا ہے۔ تمہاری تو پوری کائنات دوددھ، روٹی، ماں کی گود، کھلونے اور مٹی کے گھروندے تھے۔ تم اور کون سی دنیا کے بارے میں سوچ سکتے تھے۔ تم صرف ماں باپ سے دودھ اور روٹی مانگ سکتے تھے، سردی لگنے پر لحاف اور گود کا تقاضا کر سکتے تھے، تمہیں کیا خبر کہ تمہارے صوبے کے حکمرانوں نے سندھ ثقافت کے نام پر اربوں روپے ناچ گانے میں لگا دئیے۔ تمہاری بھوک سے زیادہ انہیں رقص و سرود عزیز تھا۔ تمہاری سردی سے زیادہ میلے کے شامیانے اور طائفے ضروری تھے۔ تمہارے لیے روٹی اور آٹا پہنچانے کی بجائے سرکاری کارندوں کے گودام اور جیبیں بھرنا زیادہ ضروری تھا۔ تمہاری اموات تو بھوک اور قحط سالی سے ہوئی ہیں لیکن تمہارے صوبے کا وزیراعلیٰ کہہ رہا ہے کہ اموات بھوک سے نہیں، سردی سے ہوئی ہیں، جیسے سردی سے مرنا کوئی بڑی بات نہیں، جیسے سردی سے بچنے اور بچانے کی ذمہ داری ریاست کی نہیں، جیسے وہ سب اپنی مرضی سے لقمۂ اجل بنے، جیسے یہ کوئی روٹین کی بات ہے، ایک معمولی واقعہ ہے۔ اتنی بڑی آبادی میں اتنے بچوں کا مر جانا کوئی بڑی بات نہیں۔
حیرت ہے کہ اتنے بڑے واقعے پر حکمرانوں پر آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا۔ زمین پھٹ کیوں نہ گئی۔ ان کے محلوں اور عشرت کدوں پر شانتی کی کرنیں کیسے برستی رہیں۔ ان کی آنکھوں میں نیند کی پریاں کیسے اترتی رہیں۔ ان کے گھروں میں بھی تو بچے ہوں گے۔ کسی کا بیٹا بیٹی تو کسی کا نواسہ، نواسی، کسی کا پوتا، پوتی تو کسی کا بھتیجا، بھتیجی ،کسی کا بھانجا تو کسی کی بھانجی۔ کوئی شیر خوار ہو گا تو کوئی دودھ کے لیے مچلنے والا۔ کوئی سکول جاتا ہو گا تو کوئی گود میں سونے والا۔ کوئی لحاف میں سوتا ہو گا تو کوئی ریشم سے بُنی ہوئی نرم چادر میں۔ ان کے کھانے، دودھ اور غذا کے لیے کیا کچھ آتا ہو گا۔ ان کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے کتنے جتن کیے جاتے ہوں گے۔ حیرت ہے تمہارے بارے میں انہیں خبر تک نہ ہو سکی۔ انہیں بھی جو تم سے ووٹ لینے آتے ہوں گے اور انہیں بھی جن کی زمینوں اور حویلیوں میں تم اپنی زندگی گروی رکھے ہوئے ہو۔ جن کے لیے تم اناج اگاتے ہو اور جن کی حویلیوں کو تم اناج سے بھر دیتے ہو۔ یہ حکمران رسولﷺ کے ماننے والے ہیں، جن کے صحابی اور مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا تھا کہ اگر فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کی پوچھ گچھ مجھ سے ہو گی۔ جو راتوں کو اس نیت کے ساتھ گشت کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص بھوکا ہو تو اسے اناج اور غلّہ پہنچایا جا سکے اور پھر وہ بھیس بدل کر مختلف گھروں میں اناج فراہم کرتے۔ اب میں تمہیں کیسے بتائوں کہ اس ملک میں 22خاندان ایسے ہیں جو امیر ترین ہیں، مسلسل جو حکومت کر رہے ہیں۔ تمہارے اسی صوبے میں ایسے ایسے سیاستدان ہیں جن کی جاگیریں اور زمینیں صبح سے شام تک بھاگتے رہیں تو بھی ختم نہیں ہوتیں۔ جن کی زمینوں میں اناج تو اُگتا ہے لیکن اناج اگانے والوں کو کچھ نہیں ملتا۔ ان کے بچے بھوک سے مر جاتے ہیں۔ ان کے علاقے قحط سالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تم صرف مر سکتے ہو اور کچھ نہیں کر سکتے۔ تم صرف ووٹ دے سکتے ہو، اپنے حکمران طبقے کی جہاز سائز کی گاڑیوں کی دُھول میں بھاگ سکتے ہو، نعرے لگا سکتے ہو، گلے پھاڑ سکتے ہو، تم سانس تو لیتے ہو تو لیکن زندہ رہنا تمہارا حق نہیں ہے۔ تمہیں بھوک تو لگتی ہے لیکن کھانا تمہارا حق نہیں ہے۔ تمہیں سردی تو لگتی ہے لیکن بستر اور لحاف جیسے لوازمات تمہیں نہیں دیے جا سکتے۔ تم بیمار تو ہوتے ہو لیکن تمہیں دوا فراہم نہیں کی جا سکتی۔ تمہیں پیاس تو لگتی ہے لیکن تمہیں صاف پانی کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔ تم نے ہمارے لیے کام تو کرنا ہے لیکن تمہیں سر چھپانے کے لیے چھت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ تمہیں کیا خبر ہم کس قدر مصروف ہیں۔ ہمیں اڑھائی سو کنال پر مشتمل اربوں روپے کے گھر، بلاول ہائوس، جاگیروں، سوئس اکائونٹس، دوبئی کے محلات، خفیہ اکائونٹس اور دوسری سرمایہ کاری کی حفاظت سے ہی فرصت نہیں۔ ہمیں رائے ونڈ کے محلات کی حفاظت اور جدہ، دوبئی اور لندن کے کاروبار بڑھانے سے فرصت ملے گی تو تمہارے بارے میں سوچیں گے نا۔ ہمارے پاس تمہیں دینے کے لیے پیسے تو تھے لیکن ہم نے وہ پیسے انتخابات، میلوں اور سرکاری اہلکاروں کی جیبیں بھرنے کے لیے لگا دیے۔ اب تو ہم اور بھی مصروف ہو گئے ہیں۔ تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ اب ہم دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ابھی ہم تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم تمہارے لیے کچھ نہ کر سکیں تو ہمیں معاف کر دینا۔ بس صبر سیکھو اور بھوک سے لڑنے کی ہمت پیدا کرو کہ ع
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا