ادھوری سچائیوں اور جزوی حقیقتوں کا دور

جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ بنیادی اور جمہوری طور پر پوسٹ ماڈرن ازم کا دور ہے ، یہ ماڈرن ازم سے بالکل مختلف زمانہ ہے۔ جو چیزیں ہم بظاہر دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں ہوتی نہیں ہیں یا ویسے نہیں ہوتیں جیسے نظر آ رہی ہوتی ہیں یا ان کی ماہیت یا پرت ظاہر سے مختلف ہوتی ہے۔ پیچیدگی‘ گُنجلک پن‘ الجھائو‘ ابہام اور شور اس کے خاص خاص وصف ہیں۔ پنجابی میں ایک لفظ ہے '' گھڑمس ‘‘ ، شاید اس دور میں ہر چیز کسی نہ کسی گھڑمس کی شکل میں ہے ، خاص طور پر معلومات اور اطلاعات۔ معلومات اور اطلاعات کی ہر جانب سے بمباری ہو رہی ہے ، لیکن کوئی تصور یا کوئی بھی اطلاع پوری نہیں مل رہی۔ کُل کی شکل میں ہمارے ہاتھ چیزیں نہیں آ رہیں، کلیریٹی نہیں مل رہی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ، حق پرکون ہے اور باطل پر کون؟ ۔ آوازوں کی ایسی گھن گرج اور شور ہے کہ سماعتیں صرف آوازوں کے ادغام کو تو پہچان رہی ہیں لیکن انفرادی پہچان غائب ہو گئی ہے۔ 
اس وقت میڈیا کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: الیکٹرانک میڈیا‘ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا۔اگر ہم ٹی وی سکرین کو دیکھیں تو یہ بالکل ایک الگ صورتِ حال پیش کر رہی ہوتی ہے۔ نیوز اینکر بھی موجود ہوتا ہے ، اس کی گفتگو اور خبریں بھی، بصری مناظر (Visuals) بھی چل رہے ہوتے ہیں اور ساکت تصاویر بھی۔ نیچے ٹکر بھی ہوتے ہیں اور خبریں بھی اوران تمام کے ساتھ ساتھ سٹاک ایکسچینج کے بھائو بھی۔ یہ ٹکرزدو دو تین سطروں میں نیچے اور ایک ایک دو دو سطروں میں اوپر چل رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی نیوز اینکر رپورٹرکو فون کال پر لے لیتا ہے۔ سو ایک طرف کی سکرین اس سے پُر ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی اچانک نیوز اینکر اعلان کرتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا سربراہ یا اہم وزیر میڈیا سے لائیوگفتگو کر رہا ہے، ساتھ ساتھ اسے بھی دکھانا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ تو سکرین کا حال ہے۔ دیکھنے والے کے پاس تحقیق کرنے اور کھوج لگانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔بعض اوقات میڈیا ناظرکو ایک ایسا چھلاوا بنا دیتا ہے جسے کسی پل چین نہیں ہے۔ اس طرح حاصل ہونے والی اطلاع اس کے شعوری خانوں میں بیٹھ نہیں رہی بلکہ وہ ہوا کی طرح ایک کاسمیٹک ٹچ دیتے دیتے گزرتی جا رہی ہے ، لاشعور کا حصہ تو خیر کبھی بن ہی نہیں سکتی۔ سو کبھی کبھار اطلاع میں سے سچ کشید کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس دور نے عام آدمی کو معلومات تو فراہم کردیں لیکن خبروں کے اس اژدہام نے اس کے اندر سچ تلاش کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہونے دی۔ تجزیوں‘ تبصروں اور گفتگو نے عام آدمی کے اندر خبر کی اشتہا کو تو بڑھادیا لیکن اسے ایک سطحی اور عام سے نقطۂ نظر پر لا کر کھڑا کردیا جو رفتہ رفتہ ایک حظ ‘ لطف‘ انٹرٹینمنٹ اور Fun کی شکل اختیار کر گیا۔ ہر آدمی بول رہا ہے‘ تبصرہ اور تجزیہ کرنے میں مصروف ہے لیکن وہ بھی واضح نہیں ہے کہ سچ کہاں ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو دوسروں کا بیان کیا ہوا 'سچ‘ درست سمجھتے ہوئے آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں ، لیکن اصل سچ کہیں سکرین کے پیچھے اور آوازوں کے شور میں دب کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا کا بھی رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ہے۔ یہ قاری پر منحصر ہے وہ چیزوں کو کس طرح دیکھتا اور قبول کرتا ہے۔ اخبارات میں خبروں کے علاوہ کالم‘ مضامین‘ اداریہ‘ اشتہار‘ ایڈیٹر کے نام خطوط‘ تبصرے اور تجزیے ہوتے ہیں۔ انٹرویوز‘ فیچر اور کہانیاں بھی ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اطلاعات ‘خبروں اور تجزیوں کے اس جمعہ بازار کو دیکھ کر سر پکڑ لیتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں جو اتنی زیادہ معلومات کو نعمت سے کم خیال نہیں کرتے کیونکہ گھر بیٹھے انہیں دنیا کے کونے کونے سے متعلق خبریں میسر آ جاتی ہیں ۔ پریشانی تب ہوتی ہے جب سیاستدان ایک دن ایک بیان چھپواتا ہے تو دوسرے دن اس کی تردید کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک سیاستدان ایک سیاسی پارٹی میں کسی اور طرح کا بیان دیتا ہے لیکن جب وہ دوسری جماعت میں چلا جاتا ہے تو اپنی پرانی جماعت کے خلاف بولنے لگتا ہے۔ یہ مسئلہ دراصل سیاست کا ہے ۔ صحافت کا نہیں‘ کہ صحافی کا کام تو رپورٹ کرنا ہے۔ ہماری سیاست نے میڈیا کو اچھی خبریں کم ہی فراہم کی ہیں۔ قاری ایک طویل عرصے سے خبر اور سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن اسے سچ کہیں نظر نہیں آ رہا۔ وہ کبھی ایک تجزیہ نگار کے زیر اثر اپنی رائے بناتا ہے تو کچھ عرصہ بعد کسی دوسرے کو سچا سمجھ بیٹھتا ہے۔ 
تیسرا میڈیا سوشل میڈیا ہے۔ بعض اسے آزاد میڈیا بھی کہتے ہیں لیکن یہ مادرپدر آزاد ہو چکا ہے۔ یہاں حقائق بھی موجود ہیں لیکن جھوٹ بھی سر عام بکتا ہے۔ ایسا سچ جو کسی الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا میں نہیں آ سکتا‘یہاں لکھا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نے اسے الزام تراشی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شروع شروع میں لوگ جس تیزی سے سوشل میڈیا پر اعتبار کرتے تھے‘ اب اس سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہاں ایک عام آدمی کی رائے بلاروک ٹوک نشر ہو جاتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہاں ایڈیٹر کا رول چونکہ موجود نہیں اس لیے اکثریت اپنی بات ٹھیک طریقے سے نہیں کہہ پاتی۔ اگر سوشل میڈیا کا درست استعمال کیا جائے تو معاشرے کی تربیت بھی بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔ یہ بات ہمارے عوام سمجھ لیں تو کسی انقلاب کی ضرورت ہی نہ رہے۔
تاہم اس ساری عجیب و غریب صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرف منظر غبار آلود ہے ، بادل چھٹنے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ ابہام‘ اژدہام‘ گھڑمس‘ شور‘ گنجھل پن اور پیچیدہ منظرنامہ ہماری آنکھوں کی پتلیوں پر جم سا گیا ہے۔ سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر ہر بولنے والے‘ لکھنے والے‘ سننے والے اور پڑھنے والے کا اپنا اپنا سچ اور رائے ہے۔ سچائی کے اس شور میں اصل سچ کہیں عنقا ہو گیا ہے۔ روز ایک نیا سچ اور روز ایک نئی حقیقت۔ ہم جُز سے کُل کی جانب جانے کی بجائے کُل سے جُز کی طرف گامزن ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری قسمت میں جزوی سچائی اور جزوی حقیقت ہی رہ گئی ہے۔ ہم سب اسی جُز کے ساتھ خوش اور مطمئن ہیں، اس لیے کہ روز ہمارا کتھارسس ہو رہا ہے۔ سب سے بُرا تو ہمارے سماج کے ساتھ ہوا جو اس صورت حال میں نہ صرف نظری اور فکری سطح پر Fragmentation یعنی انتشار کا شکار ہو کر رہ گیا ہے بلکہ اس انتشار نے اس کے اندر عدم برداشت کا منفی جذبہ بھی پیدا کردیا ہے۔ وہ دوسرے کو برداشت ہی نہیں کر رہا۔ ہر فرد کا سچ ہی اصل سچ ہے ، باقی تو سب جھوٹ ہے اور دوسرے کو زندہ رہنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ کوئی مکمل اور بڑا لیڈر یا مصلح سامنے نہیں آرہا۔ چھوٹے چھوٹے‘ جزوی سطح کے لیڈر‘ علاقائی‘ لسانی‘ صوبائی اور خاندانی سطح کے لیڈر۔۔۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں جو کامل رہنمائی فراہم کر سکے ، جو قوم کو جزوی حقیقتوں اور ادھوری سچائیوں کے ابہام کے اندھیروں سے نکال کر مکمل سچ کی روشنیوں میں لا سکے۔ وہی سچ جو میرا بھی ہو اور آپ کا بھی۔ 
Post modernism کا یہ دور کب تک رہتا ہے؟ کچھ پتہ نہیں لیکن انتشار اور ابہام کے اس دور سے فوری نکلنا بہت ضروری ہے۔ میرا ہی شعر ہے ؎ 
بہت یقین سے کچھ بھی میں کہہ نہیں سکتا 
کہ اک گمان کے موسم میں پَل رہا ہوں ابھی 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں